آٹے کا بحران اور راشن کارڈ

شذرات
آٹے کا بحران اور راشن کارڈ
پروفیسر خورشید احمد
بش اور مشرف کا بس چلے تو اقبال کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اس کے سارے سرمایہ فکر ونظر کو اپنی جنگی کارگزاریوں کا ہدف بناڈالیں کہ شاعر مشرق نے یہ کیوں کہا کہ ۔
جس کھیت
سے
دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا
رو
مشرف کی آٹھ سالہ معاشی ترقی کی ترک تازیوں کا حاصل یہ ہے کہ آج پاکستانی عوام خصوصیت سے غریب اور متوسط طبقے کی ۷۰ ۸۰ فی صد آبادی آٹے کے بحران میں گرفتار اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے۔ پورے ملک کی شہری آبادی اور صوبہ سرحد کے تمام ہی باسی آٹے کی کمیابی اور قیمت کی گرانی دو طرفہ شکنجے کی گرفت میں ہیں۔ آٹا جو پچھلے سال تک ۱۵ روپے کلو تھا، آج ۳۰ روپے کلو ہے اور پھر بھی نایاب۔ یوٹیلیٹی اسٹوروں کی بڑی دھوم ہے لیکن وہ آبادی کے ۵ فی صد سے زیادہ کی ضرورت پوری نہیں کر سکتے اور اس میں امیر غریب کی کوئی تفریق نہیں بلکہ زیادہ تر یوٹیلٹی اسٹور غریبوں کی بستیوں اور شہروں کی کچی آبادیوں میں نہیں ہمتمول طبقات کے رہائشی علاقوں میں قائم ہیں۔ عوام اب احتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور حکومت اپنی مسلسل ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی
ناکام کوششوں کے بعد، اب اپنے نیم حکیموں کے پیش کردہ ایک نادر نسخے کا سہارا لے رہی ہے، یعنی راشن کارڈ کا اجرا اور ان کے ذریعے یوٹیلیٹی اسٹوروں سے غریب اور متوسط طبقات کو اشیاے ضرورت خصوصیت سے آئے اور دالوں کی مناسب قیمت پر فراہمی۔ بظاہر یہ ایک دام تزویر (gimmic) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود چند ضروری پہلوؤں پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آٹے کی یہ قلت کیوں رونما ہوئی اور اس کی اصل ذمہ داری کس پر ہے؟ بظا ہر گندم کی پیداوار بہت اچھی تھی ۔حکومت کا دعوئی تھا کہ اس سال ۲۳۳ ملین ٹن پیداوار ہوئی ہے، جب کہ ملک میں گل