بحالی جمہوریت ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

اور گو یہ بات آئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے میں نہیں کی گئی لیکن یہ ایک دستوری مسلمہ ہے اور خود پاکستان کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ خواہ ایوب خاں اور نیکی خاں کے مارشل
لا کا دور ہو یا ضیا الحق اور پرویز مشرف کے دستوری انحراف والی فوجی حکومت کا— ان تمام ادوار میں جو بھی قوانین لاگو کیے گئے ہیں بھائی جمہوریت کے بعد دستور میں ان کو indemnity ( تحفظ ) دیے بغیر ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو سکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں دفعہ ۲۷۰۲۶۹ اور۰ ۲۷ اسے با قاعدہ دستور کی تدوین یا دستور کی ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے جادوگروں نے دستور پر حملہ آور ہوکر بزور شمشیر اپنی ترامیم کو دستور کا حصہ بنانے کی جسارت کی ہے جو دستور کے ساتھ دراز دستی کی شرمناک مثال ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش غلام محمد صاحب نے بھی ۱۹۵۴ء میں کی تھی لیکن فیڈرل کورٹ
نے جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں اسے غیر قانونی قرار دیا تھا اور ان کے دستور یہ توڑنے کے اقدام کو سند جواز فراہم کرنے کے باوجود ان کے اس حق کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ فرد واحد ایک نیا دستوری یا قانونی نظام، حتی کہ کوئی بھی نیا قانون ملک پر مسلط کر سکتا ہے۔ یہ صرف دستور ساز اسمبلی اور مقننہ کا کام ہے کہ وہ دستور اور قانون کے مطابق قانون سازی کرے۔ اور اگر دستوری انحراف کے دور میں یہ صورت مجبوری او رضرورت کچھ قانون سازی کی بھی جاتی ہے تو اسے سند جواز صرف اس وقت مل سکتی ہے جب نئی دستور یہ مقننہ ان قوانین کو قبول کر کے انھیں تحفظ (indemnity) دے دے۔ یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے اور فیڈرل کورٹ نے Usif Patel vs. The Crown میں اس اصول کو اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔