ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

سپریم کورٹ نے ان مقاصد کی تحدید بھی واضح الفاظ میں جنرل پرویز مشرف کے ۱۳ اور ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بیانات کی صورت میں کر دی۔ نیز یہ وضاحت بھی کر
دی کہ اس عبوری دور میں بھی نظام حکومت ۱۹۷۳ء کے دستور کے قریب قریب چلا یا جائے گا اور اگر کسی مشکل کو رفع کرنے کے لیے کوئی ترمیم دستور میں ضروری سمجھی گئی تو وہ بھی لازماً ایسی ہوگی جو اس کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہ کرے بنیادی حقوق کو متاثر نہ کرے عدالتوں کے نظام کو کمزور نہ کرے اور فوجی حکومت کے تمام اقدامات اور احکام عدالتی جائزے (judicial review) کے حق
سکے تابع ہوں ۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فوجی حکومت کا دور بھی نہ صرف یہ کہ دستور سے مستعفی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ اسے دستور کے مکمل احبابر بھی منتج ہوتا تھا۔ اس پس منظر میں یہ بات سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا میر زمانہ ۱۹۷۳ء کے دستور سے انحراف کے عبوری دور کے بعد ۱۹۷۳ ء کے دستور کی طرف مراجعت کے سوا کوئی دوسری سمت اختیار کرنے کا مجاز نہیں ۔
صدر کا غیر آئینی تقرر جنرل پرویز مشرف کے دور کا ہم ماضی میں بھی جائزہ لے چکے ہیں اور آئندہ بھی اس پر نقد و احتساب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت دستوری مسئلے کے پس منظر میں ہم ان کے تین اقدامات پر توجہ کو مرکوز کرنا چاہتے ہیں ۔
پہلی چیز ۳۰ اپریل ۲۰۰۲ کو منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے ذریعے دستور کے مطے کردہ طریق کار کے خلاف اور صدر کے لیے دستور کی متعین کردہ شرائط کے علی الرغم اقومی اسمبلی کے وجود میں آنے کی تاریخ سے ۵ سال کے لیے صدر بن جانے کا اقدام ہے۔ اول تو جس طرح صدر رفیق تارڑ صاحب کو رخصت کیا گیا اور صدارت پر قبضہ کیا گیا وہ بجائے خود نہایت معیوب تھا لیکن رہی سہی کسر ا پریل
۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے پوری ہوگئی ۔