Books

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔۔۔۔۔ (آخری قسط)

ایسی ہی ایک کوشش غلام محمد صاحب نے بھی 1954ء میں کی تھی، لیکن فیڈرل کورٹ نے جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں اسے غیر قانونی قرار دیا تھا اور ان کے دستور یہ توڑنے کے اقدام کو سند جواز فراہم کرنے کے باوجود ان کے اس حق کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ فرد واحد ایک نیا دستوری یا قانونی نظام حتی کہ کوئی بھی نیا قانون ملک پر مسلط کر سکتا ہے۔ یہ صرف دستور ساز اسمبلی اور متفنہ کا کام ہے کہ وہ دستور اور قانون کے مطابق قانون سازی کرے۔ اور اگر دستوری انحراف کے دور میں بصورت مجبوری اور ضرورت کچھ قانون سازی کی بھی جاتی ہے تو اسے سند جواز صرف اس وقت مل سکتی ہے، جب نئی دستوریه / مقفنه ان قوانین کو قبول کر کے انہیں تحفظ دیدے۔ یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے اور فیڈرل کورٹ نے Usif Patel vs The Crown میں اس اصول کو اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔
گورنر جنرل دستور ساز اسمبلی کے قانون کی منظوری دے سکتا ہے یا روک سکتا ہے، لیکن وہ خود دستور ساز اسمبلی نہیں ہے اور اس کی غیر موجودگی میں وہ ان اختیارات کا دعوی نہیں کر سکتا جو اسے کبھی حاصل نہ تھے اور نہ اسمبلی کے اختیارات سنبھالنے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔” (پی ایل ڈی 1955، فیڈرل کورٹ (387)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »