امریکی ڈرون حملے، سپلائی لائن کی بیدش اور پاکستان کی سلامتی

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، دسمبر ۲۰۱۳ء
اشارات
حفاظت کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ اپنی آزادی، مفادات اور عزت کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور پالیسی تبدیل کرنے کے لیے حکومت پر مؤثر سیاسی دباؤ ڈالے۔
امریکی اور نائو افواج کے لیے پاکستان کی سرزمین کے راستے رسد جانے کو روکنا خود مطلوب نہیں بلکہ اصل ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک مؤثر ، پرامن اور قابل عمل ذریعہ ہے، تا کہ نہ صرف یہ کہ ہماری ملکی سرحدات کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر مؤثر اقدامات کیے جاسکیں ، بلکہ امریکا کی اس جنگ سے ہم نکل سکیں اور توجہ کا مرکز ، مسائل کا سیاسی حل بن سکے ۔ اس کے نتیجے میں راہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے گا اور ملک میں امن وامان کی وہ کیفیت پیدا کی جاسکے گی جس میں عوام سکھ کا سانس لے سکیں ، معیشت رُو بہ ترقی ہو سکے اور ۱۲ سال سے جس آگ میں ملک جل رہا ہے اس سے نجات پائی جاسکے۔
اصل ہدف امریکی جنگ سے نکلنا، اس جنگ کو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پورے علاقے میں ختم کرنے کی راہ ہموار کرنا، ڈرون حملوں کو فوری طور پر بند کروانا اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ یہ تمام امور اس طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں کہ ان سے الگ الگ پنجہ آزما نہیں ہوا جا سکتا۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور قوم میں بھی اس مصلحت کے بارے میں مناسب اور مؤثر انداز میں تفہیم کا اہتمام کرنا چاہیے کہ سپلائی لائن کو روکنے کی کوشش ایک ذریعہ ہے، تا کہ ایک طرف عوام کو متحرک کیا جا سکے، تو دوسری طرف مرکزی حکومت اور عالمی رائے عامہ کو ڈرون حملوں کو رکوانے ، دہشت گردی کے خلاف اس ۱۲ سالہ جنگ کی ناکامی کو الم نشرح کرنے ، اور مسئلے کے حل کے لیے متبادل حکمت عملی پر فی الفور اور سرگرمی سے کوشش کو ممکن بنایا جائے۔
ڈرون حملے خود اپنی جگہ ایک ظلم، ایک جرم اور تباہی کا سبب ہیں اور اس کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنیادی حکمت عملی کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ بظاہر امریکا کو یہ ایک آسان راستہ نظر آیا ہے کہ اپنی فوجوں کو جانی نقصان سے بچانے کے لیے جدید ٹکنا لوجی کے ذریعے انسانوں کا قتل عام کرے اور سمجھے کہ اس طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس ظلم کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے اور بلا نام کے ایک دہشت گرد کی ہلاکت کے نتیجے میں دسیوں نئے دہشت گرد پیدا ہور ہے ہیں، اور پوری پوری آبادیاں اپنے پیاروں سے محروم ہو کر غم و غصے اور بیجان میں مبتلا ہی نہیں ہورہیں بلکہ نفرت اور انتقام کی آگ میں بھی جل رہی ہیں ۔ اس طرح یہ حملے بگاڑ اور خطرات