۱۴ اگست یوم تشکر

ترجمان القرآن، اگست ۲۰۰۹ ء
۲۰
اشارات
میں ہولناک تشدد کے ایک بنیادی جائزے کی ضرورت ہے۔
ملی بینڈ کی نگاہ میں یہ جنگ صحیح نتائج سامنے نہیں لا سکتی اور جس نئی حکمت عملی کی ضرورت
ہے وہ سیاسی ہے۔
دہشت گردگروپوں کی بنیادوں سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلحے اور رقم کی فراہمی کے راستوں کو روک کر، ان کے دعووں کے کھو کھلے پن کو ظاہر کر کے، ان کے
پیرووں کو جمہوری سیاست میں لا کر دی گارڈین، ۱۵ جنوری ۲۰۰۹ ) امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلین آل برائٹ نے صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکی خارجہ پالیسی میں گہرا خلا قرار دیا ہے۔ گلوٹین کے مضمون نگار جیمز پینسلو نے ے جولائی ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنے مضمون ‘تاریخ نے ابھی فیصلہ نہیں دیا، میں کہا ہے کہ عراق پر امریکا کی فوج کشی ایک تاریخی تباہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک قوم تباہ ہو گئی اور اسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ امریکا کے سابق صدارتی امیدوار سینیٹر جان کیری اور کانگریس کے رکن گیری، یکر مین باربار اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں فوجی حل پر چینی حکمت عملی کام نہیں کر رہی اور اس پر از سر نو غور کی ضرورت ہے۔ گراہم فولر امریکا کے تھنک ٹینک، رینڈ کارپوریشن کا سابق سربراہ ہے، جو ایک زمانے میں افغانستان میں سی آئی اے کا ذمہ دار بھی رہا ہے اپنے ایک حالیہ مضمون میں انٹر نیشنل ہیرالڈ ٹربیوں میں لکھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ لندن گارڈین کا ایک اور مضمون نگار پیٹر پرنسٹن (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ ء ) اپنے مضمون بہت ہو چکا! افغانستان میں بے مقصد اور احمقانہ جنگ کو فور بند ہونا چاہیے میں لکھتا ہے که افغانستان میں نا تو افواج کی کامیابی کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔ تم جو کچھ کر رہے ہو،اگر وہ بالکل غلط ہو رہا ہو تو ہمیشہ ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اسے روک دو۔
وہ اپنی اور مانو اور امریکا کی قیادتوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ”سب سے زیادہ خونیں فریب یہ ہو سکتا ہے کہ ہلمند میں بڑھی ہوئی کارروائیوں کا حاصل مزید خون خرابے کے سوا کچھ اور
ہوسکتا ہے“۔
پیڈی اینڈرون بر طانیہ کے چوٹی کے سیاست دانوں میں شمار ہوتا ہے اور وہ یورپی یونین