Books

نیا استعمار پس چہ باید کرد

نئے سامراج کا یہ ایجنڈا کسی پردے کے بغیر اب سرعام پیش کیا جا رہا ہے اور اس پر عمل کرانے کے لیے پروپیگنڈے سے لے کر عسکری قوت تک ہر حربہ استعمال کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ امریکی سامراج کے یہ عزائم تو پہلے بھی تھے مگر حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ان عزائم کو نئی زندگی اور ان پر عمل کو نئے امکانات فراہم کر دیے ہیں ۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ کیا دہشت گردی کا آغاز ا استمبر سے ہوا؟ اور کیا افغانستان اور القاعدہ کی تباہی سے دہشت گردی روے زمین سے فنا ہو جائے گی؟ جسے بنیاد پرستی کہا جا رہا ہے کیا اس کا وجود صرف مسلم دنیا میں ہے یا خود امریکہ میں بنیاد پرستوں کی ایک نہیں درجنوں تحریکیں کارفرما ہیں؟ کیا خود جارج بش کی صدارت کے پیچھے امریکی بنیاد پرستوں کا کوئی کردار نہیں؟ کیا اسرائیل کی لیکود پارٹی اور وزیر اعظم شیرون صہیونی بنیاد پرستی کے بدترین مظاہر نہیں؟ کیا بھارت کی بی جے پی آرایس الیس اور وشوا پر یشد ہندو بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے سوا کچھ اور ہیں؟ کون سا ملک ہے جہاں انتہا پرستی موجود نہیں اور کون سا دور ہے جو انتہا پرستی سے پاک رہا
ہے۔
پھر دہشت گردی کے خلاف تو بہت کچھ بخار نکالا جا رہا ہے مگر اس کی کوئی فکر نہیں کہ وہ حقیقی اسباب کیا ہیں جن کے نتیجے میں امریکہ اور مغربی اقوام کے خلاف نفرت کے طوفان امنڈ رہے ہیں، سرمایہ داری کے خلاف لاوا پک رہا ہے، مظلوم انسانوں کی ایک تعداد مایوس ہو کر اپنی جان تک پر کھیلنے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ دہشت گردی ایک معمول کی کارروائی نہیں، ایک غیر معمولی رویے کی مظہر ہے اس کو نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ختم کیا جا سکتا ہے جب تک ان اسباب کا کھوج نہ لگایا جائے جن کے بطن سے یہ جنم لیتی ہے۔ ان کے تدارک کے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں۔ فلسطین ہو یا کشمیر، چیچنیا ہو یا فلپائن، اسپین ہو یا کیو بک (کینیڈا) ، آئر لینڈ ہو یا تھائی لینڈ سوڈان ہو یا صومالیہ کیوبا ہو یا نکا را کو فی جی (Fiji) ہو یا بیٹی، جاپان ہو یا کوسووا‘ جہاں بھی ظلم ہوگا ، اس کا رد عمل بھی رونما ہوگا جو جائز کے ساتھ ناجائز اور پر امن کے ساتھ خونی اور تشدد کے راستے بھی اختیا ر کر لیتا ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »