اختساب اور صحیح قومی ترجیحات کا چیلنج

ماهنامه ترجمان القرآن مارچ ۱۹۹۷
اشارات
مرقوم حقوق کے حصول کو آسان بنانے کی ضرورت ہے وہیں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ سیاسی جماعتیں، سماجی ادارے ، بار ایسوسی ایشنیں اور با ضمیر عوامی کارکن مظلوموں کے حقوق کی حفاظت اور قومی دولت کے لوٹنے والوں کے محاسبے کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں۔ اس کے لیے عوامی کمیٹیاں بنائی جائیں، وکلا اور سماجی کارکنوں کی تنظیمیں متحرک ہوں۔ کاروباری افراد جن کو لوٹا گیا ہے، آگے بڑھ کر لوٹنے والوں کا پردہ چاک کریں اور اس طرح اجتماعی زندگی میں احتساب کے عمل کو ایک حقیقت بنا دیں۔
حکومت پارلیمنٹ ، عدالتیں ، سیاسی جماعتیں اور سماجی کارکن سب ہی کو اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر کمربستہ ہو جانا چاہیے۔ یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ جہاں ہر ایک کو اس عمل کا آغاز خود احتسابی سے کرنا چاہیے وہیں اس کے ساتھ اجتماعی احتساب کے نظام کو موثر انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ احتساب مالی اور سیاسی بد عنوانی اور کرپشن کے ذمہ دار افراد کا بھی ہونا چاہیے اور حکومتوں کی پالیسیوں اور پاکستان کی قسمت اور اس کے حقیقی مفادات سے کھیلنے والوں کا بھی۔ یہ احتساب عوامی سطح پر ہونا چاہیے ، پارلیمینٹ اور اسمبلیوں کے فورم پر ہونا چاہیے۔ اور قانون اور انصاف قائم کرنے والی عدالتوں اور احتسابی کورٹس کے ذریعے ہونا چاہیے۔ اس کے لیے کھلی حکومت، آزاد صحافت اور عوامی مباحثہ بھی
ضروری ہیں۔
وقت کا دوسرا تقاضا انداز حکمرانی کی تبدیلی ہے۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اپنی زندگی کے پہلے پچاس سال میں اس تصور اور اس مقصد سے بہت دور چلا گیا ہے جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے اس ملک کے قیام کے لیے جدوجہد کی تھی اور بیش بہا قربانیاں پیش کی تھیں۔ آج عالم یہ ہے کہ پوری قوم ایک ایسے استحصالی نظام کی گرفت میں ہے جس میں چند ہزار طاقتور اور زور آور افراد ملک کے وسائل پر قابض ہیں اور دستور قانون اور انتخابی سیاست کے علی الرغم انھوں نے ملک کے عوام کو اپنا مزارع اور اس کے وسائل کو اپنی ذاتی جاگیر بنا ڈالا ہے۔ اس استحصالی نظام کا دوسرا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب اس استحصالی طبقہ اور مغربی اقوام اور اداروں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان اور اہل پاکستان کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی آزادی کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ ملک کا بجٹ اور معاشی پالیسیاں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق اور اب تو اس کے اپنے فرستادہ ماہرین کے ہاتھوں بن رہی ہیں۔ سیاسی امور میں بھی فیصلہ کن حیثیت واشنگٹن کو حاصل ہو گئی ہے! مسئلہ خواہ کشمیر کا ہو یا افغانستان کا ایران سے تعلقات ہوں یا ہندستان سے نیو کلیر پالیسی ہو یا فوجی مشقوں کا معاملہ سب کے سلسلے میں واشنگٹن کے اشارہ چشم و ابرو کو دیکھا جاتا ہے اور ارباب اقتدار لرزہ براندام رہتے ہیں کہ کہیں انھیں بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کا سرپرست نہ قرار دے دیا
جائے!
نظریاتی اعتبار سے بھی صورت حال بڑی تشویش ناک ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسلامی نظام کے قیام کی