احسان مندی اور محسن شناسی

ترجمان القرآن کی زیر نظر خصوصی اشاعت کی ترتیب میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ یادداشتوں اور تاثرات پر مبنی حصہ قدرے زیادہ ہو بیحوں کی رم جھم کے نتیجے میں رفتہ رفتہ وہ چراغ بجھتے جارہے ہیں جو ظلمت شب میں اس مردِحق میں کے قافلے کے دوش بدوش تھے۔ قبل اس سے کہ ان چمہ اغوں کی لو بجھ جائے ان کی گواہی ریکارڈ کرلی جائے کہ دین حق کے اس خادم کی رفاقت میں آپ نے دانش و عمل کے کون کون سے گوہر مراد پائے؟ حقیق کار تحقیق کرتے رہیں گے، تجزیہ نگار، تجزیاتی فارمولوں پر پسند و ناپسند اور تعصب و عقیدت کے پردے چڑھاتے رہیں گے لیکن گواہ چلے گئے اور دیکھنے والی آنکھوں کا نور بجھ گیا تو اس کارواں کی کتنی کڑیاں گم ہو جائیں گی۔ بالیقین جب دوسرا سوواں سال ہو گا تو ہم نہیں ہوں گے ۔ اس لیے اپنے عہد کی
گواہی کو آنے والے کل کے سپرد کرنا ضروری سمجھتے ہیں بے اک روشنی کے بات میں ہے روشنی کا ہات! ان تحریروں کے قاری مطالعے کے دوران فرد سے زیادہ مقصد قافلے اور منزل رضاے الہی سے وابستگی محسوس کریں گے کہ اس اشاعت سے یہی مطلوب ہے۔ فرد کا ذکر تو محض ایک حوالہ ہے۔ مولانا مودودی کا اس دنیا میں کیا مقام تھا، اس سوال سے نہ مولا نا محترم کو دل چسپی تھی اور نہ تھیں اس معاملے میں کوئی فکرمندی ہے کہ مشک کی مہک اپنے وجود کی خود دلیل ہوتی ہے۔ بلاشبہہ مولانا مودودی کی احیای طرز فکر کے ہمہ گیر اثرات آج اپنے فکری مفہوم کے ساتھ دنیا کے الہیاتی اور حر کی ادب میں پائے جاتے ہیں ۔ تا ہم ہمیں دل چسپی اگر ہے تو صرف اس بات سے کہ قرآن و سنت کا جو بھولا ہوا سبق مولانا مودودی رحمہ اللہ نے یاد دلایا ہے وہ کس قد روسعت اور قبولیت پا رہا ہے؟ اس میں کہیں کمی ہے تو اس کا سبب کیا ہے اور اسے دُور
اس اشاعت میں شامل تحریروں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب اسی شمارے کے لیے لکھی گئی ہیں۔ مختلف کاموں میں جن احباب کا تعاون حاصل رہا، اُن میں محترم عبد الغفار عزیز ملک محمد نواز اعوان، عبدالمجید ساجد اور دوسرے رفقا شامل ہیں ۔ ترجمان کے ادارتی اور انتظامی عملے نے خصوصی تعاون کیا ۔ اللہ تعالیٰ ان کاوشوں کو خیر کا باعث بنائے اور بہترین اجر سے نوازے۔ سلیم منصور خالد