Books

وزیر صاحب کے غلط رویہ پر بائیکاٹ

وزیر صاحب کے غلط رویہ پر بائیکاٹ
پارلیمانی روایات اور پارلیمانی نظام کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دو نوں ان آداب اور ان اصولوں کا لحاظ رکھیں جن کے بغیر کوئی بھی جمہوری اور مہذب نظام نہیں چل سکتا۔ نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو رویہ وزیر موصوف نے اس ایوان میں اختیار کیا اسے ہم نے برداشت کیا۔ چیئر مین اور سینٹروں سب کی طرف سے خوش اسلوبی کے ساتھ انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنے رویے کو تبدیل کریں۔ اختلاف اپنی جگہ ہے لیکن دوسروں کے لیے تحقیر آمیز انداز مہذب پارلیمانی اداروں کے منافی زبان کا استعمال اور منفی طرز عمل کا اظہار کسی طور بھی اس ادارے اور اس کے معیار کے شایان شان نہیں۔ اپوزیشن ان کے اس طرز کے رویے کو اب تک برداشت کرتی رہی ہے۔ لیکن کل جو واقعہ ہوا ہے اس سے ہم سب کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ایک مسلمان معاشرے کی پارلیمنٹ میں ایک موز بہن کے بارے میں اس قسم کے الفاظ استعمال کرنا اور فضا پیدا کرنا کسی طور قابل قبول نہیں۔ اور پھر اس کی جو تاویلیں پیش کی گئیں کہ یہ گویا مارشل لاء لانے والے ہیں جو یہ باتیں کر رہے ہیں یہ تمام کا تمام کھیل کھیلا جا رہا ہے، وغیرہ وغیرہ، بڑی ہی شرمناک ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ بات پوری طرح قوم کے سامنے آئے کہ یہ حضرات جس کردار جس اسلوب اور جس انداز کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ناقابل برداشت ہے۔ اپوزیشن اس فرد کا سماجی بائیکاٹ کرے گی۔ ہم ان سے کوئی کلام نہیں کریں گے۔ ہم ان سے کوئی جواب بھی نہیں چاہتے۔ حکومت کو اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ اگر حکومت اپنا رویہ نہیں بدلتی تو سمجھ لینا چاہیے کہ برداشت کی کچھ حدود ہوتی ہیں، ہم ان حدود سے آگے جانے کے لیے تیار نہیں۔
(دیگر حضرات کے بعد)
سینٹ کے ارکان نے کبھی بھی ایسا رویہ اختیار نہیں کیا کہ ہم جذبات میں بہہ گئے ہوں یا ہم نے کوئی یک رضہ طریقہ اختیار کیا ہو۔ اس وقت ہم ایک غیر معمولی صورت حال سے دوچار ہیں۔
۲۹۵

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »