ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، مارچ ۲۰۲۲ء
اشارات
ساتھ سماجی ترقی بھی اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا بنیادی عنصر ہے۔ صحت، تعلیم ، مہارت میں فروغ اور جدو جہد کے لیے سرگرم جذبہ ترقی کے فروغ کے لیے اہم عناصر ہیں۔ لہذا، نیا مثالیہ جس کی سفارش کی جارہی ہے، یہ trickle-down ماڈل سے نمایاں فرق ظاہر کرتا ہے اور سماجی ترقی کو معاشی ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مرکز بنا دیتا ہے۔ قومی خود انحصاری کا حصول اس بحث کا مرکزی پہلو ہے۔ خودانحصاری کا مطلب معاشی خود کفالت نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو بیرونی قوتوں اور بیرونی اداروں اور حکومتوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کو اپنے قومی مقاصد اور اغراض کے پیش نظر اپنی ترجیحات اور پروگراموں کا تعین کرنا چاہیے۔ دوسروں پر انحصار کرنے کے مختلف پہلو ہیں جن میں فہم و دانش، سیاسی، اقتصادی، ٹکنالوجی اور ثقافتی پہلو شامل ہیں۔ یہ تمام پہلو آپس میں مربوط ہیں ۔ عالم گیریت کا مطلب لازماً خود انحصاری کا نقصان یا نظریاتی اور ثقافتی تشخص سے محرومی نہیں ہے۔ یہ مکمل خود انحصاری کے ساتھ ایک ملک کا عالم گیریت کے اثرات سے مستفید ہونا اور اس کے مضر اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔ بیرونی سرمایے پر بہت زیادہ انحصار اور بڑے پیمانے پر بیرونی قرضوں کا حصول ، خود انحصاری سے مطابقت نہیں رکھتا۔
پاکستان کے پاس ایک بہت اہم اثاثہ (resource) ہے، جسے قومی اقتصادی ترقی کے لیے پوری طرح سے استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ اثاثہ بیرون ملک موجود پاکستانی ماہرین، پاکستانی ذہانت ( Intellect) اور جو ہر قابل ہے۔ اس طرح بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ( Remittences) ایک بہت قیمتی مالیاتی سرمایہ ہیں، جو بد قسمتی سے بڑی حد تک روزمرہ مصرف کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں ۔ حالانکہ ان کا ایک قابل ذکر حصہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہونا چاہیے ، تا کہ بیرونِ ملک کام کرنے والوں اور ان کے خاندان کے لیے ایک مستقل آمدن کا ذریعہ بن سکے، اور ملک کی معاشی ترقی میں بیرونی قرض کی جگہ اپنے لوگوں کے وسائل استعمال ہو سکیں۔ ان خدا داد اور قیمتی ذرائع سے موثر اور مفید انداز میں استفادے کے لیے مناسب حکمت عملی کی تیاری ایک بڑا چیلنج بھی ہے اور ایک تاریخ ساز موقع بھی۔
معاشی ترقی کی حکمت عملی اور نظریہ پاکستان
₨ 0
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، مارچ ۲۰۲۲ء
اشارات
ساتھ سماجی ترقی بھی اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا بنیادی عنصر ہے۔ صحت، تعلیم ، مہارت میں فروغ اور جدو جہد کے لیے سرگرم جذبہ ترقی کے فروغ کے لیے اہم عناصر ہیں۔ لہذا، نیا مثالیہ جس کی سفارش کی جارہی ہے، یہ trickle-down ماڈل سے نمایاں فرق ظاہر کرتا ہے اور سماجی ترقی کو معاشی ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مرکز بنا دیتا ہے۔ قومی خود انحصاری کا حصول اس بحث کا مرکزی پہلو ہے۔ خودانحصاری کا مطلب معاشی خود کفالت نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو بیرونی قوتوں اور بیرونی اداروں اور حکومتوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کو اپنے قومی مقاصد اور اغراض کے پیش نظر اپنی ترجیحات اور پروگراموں کا تعین کرنا چاہیے۔ دوسروں پر انحصار کرنے کے مختلف پہلو ہیں جن میں فہم و دانش، سیاسی، اقتصادی، ٹکنالوجی اور ثقافتی پہلو شامل ہیں۔ یہ تمام پہلو آپس میں مربوط ہیں ۔ عالم گیریت کا مطلب لازماً خود انحصاری کا نقصان یا نظریاتی اور ثقافتی تشخص سے محرومی نہیں ہے۔ یہ مکمل خود انحصاری کے ساتھ ایک ملک کا عالم گیریت کے اثرات سے مستفید ہونا اور اس کے مضر اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔ بیرونی سرمایے پر بہت زیادہ انحصار اور بڑے پیمانے پر بیرونی قرضوں کا حصول ، خود انحصاری سے مطابقت نہیں رکھتا۔
پاکستان کے پاس ایک بہت اہم اثاثہ (resource) ہے، جسے قومی اقتصادی ترقی کے لیے پوری طرح سے استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ اثاثہ بیرون ملک موجود پاکستانی ماہرین، پاکستانی ذہانت ( Intellect) اور جو ہر قابل ہے۔ اس طرح بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ( Remittences) ایک بہت قیمتی مالیاتی سرمایہ ہیں، جو بد قسمتی سے بڑی حد تک روزمرہ مصرف کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں ۔ حالانکہ ان کا ایک قابل ذکر حصہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہونا چاہیے ، تا کہ بیرونِ ملک کام کرنے والوں اور ان کے خاندان کے لیے ایک مستقل آمدن کا ذریعہ بن سکے، اور ملک کی معاشی ترقی میں بیرونی قرض کی جگہ اپنے لوگوں کے وسائل استعمال ہو سکیں۔ ان خدا داد اور قیمتی ذرائع سے موثر اور مفید انداز میں استفادے کے لیے مناسب حکمت عملی کی تیاری ایک بڑا چیلنج بھی ہے اور ایک تاریخ ساز موقع بھی۔
Reviews
There are no reviews yet.