ماہنامہ ترجمان القرآن
اشارات
انسانی نفسیات کی سب سے بڑی کمزور کی عجلت پسندی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے نصب العین، مقاصد مفادات اور اہداف کے حصول کے لیے ہمیشہ مختصر راستوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو جب سیاسی آزادی ملی تو اپنی اقتصادی اور سماجی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے ان کی تڑپ بجا طور پر بڑھ گئی۔ مغرب سے موازنہ کرتے ہوئے ان ممالک کو اپنی اتھاہ غربت اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کا احساس بہت زیادہ ستانے لگا۔ نو آبادیاتی تسلط کے دوران تیسری دنیا نے مغربی ترقی کی فتح مندیوں کی کئی داستانیں سنی تھیں۔ آزادی کی نعمت ملی تو ترقی کی نیلم پری کی خاطر انھیں مغرب کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دی گئی۔ ان کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اقتصادی ترقی میں دکھایا گیا۔
ترقی کی جستجو میں خوش حالی کا موثر ترین ذریعہ صنعت کاری نظر آئی۔ اس کے لیے تشکیل زر (capital formation) کو کلید بتایا گیا۔ بچت اور ادائیگی میں فرق کو ختم کرنے کا علاج، مغربی ٹکنالوجی کی در آمد اور غیر ملکی امداد کے سہارے کو سمجھا گیا۔ ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے در آمدات کے متبادل تلاش کرنے اور کسی حد تک برآمدات میں اضافہ کرنے کی پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ اقتصادی ترقی کا مغربی ماڈل“ وہ ”نیا دیو تا” تھا جس کی قربان گاہ پر باقی سب کچھ لٹایا گیا: اخلاقی اقدار ، ثقافتی ورثے، سماجی طور طریقے قومی رسوم، دین، غرض سبھی کچھ اس کے بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ فرض کر لیا گیا کہ قومی آمدنی (GNP) میں اضافہ ہو، تب ہی خوش حالی اور ترقی کا نیا دور شروع ہو گا۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے نقش قدم پر چل کر ہی انسانیت، خوش حالی کے نئے دور میں داخل ہو سکے گی۔ صورت حال کی یہ مختصر تصویر اگرچہ بہت تشنہ ہے، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ترقیاتی حکمت عملی کے جو مغربی ماڈل تھے، انھیں جن خوش رنگ نعروں میں پیش کیا گیا تھا، ان میں سادگی اور رواداری کا بھی چرچا تھا۔ خوب صورت اصطلاحات کی بھرمار نے انھیں زرق برق پیرہن میں ڈھانپ رکھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے باطن سے مغربی طرز حیات کی برتری کا متکبرانہ اظہار لازماً ہوتا رہتا تھا۔ مغربی ماڈل کو قبول کرنے کے لیے اس مختصر مراعات یافتہ طبقے کی طرف سے بڑے اشتیاق اور جوش و جذبے کا اظہار ہوا، جس کی تعلیم و تربیت مغرب میں ہوئی، جو نو آبادیاتی پالنے میں پروان چڑھا اور جسے واپس جاتے ہوئے سفید فام آقاؤں نے مقامی اقتدار سونپا تھا۔ لیکن قوت و اقتدار سے سرشار اس دیسی طبقے اور مغرب کا باہمی بندھن، آج سخت دباؤ سے دو چار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ترقیاتی حکمت عملی کو کامیاب کرنے کے لیے ان دو گروہوں نے شعبدہ بازی سے ” ترقی و خوش حالی کا خواب دکھایا تھا وہ مطلوبہ نتائج دکھانے میں ناکام رہا ہے۔ قریب قریب ہر ترقی پذیر ملک میں ایسی قابل لحاظ مقامی قوتیں موجود ہیں، جو مغربی ماڈل سے چنداں متاثر نہیں اور مسلسل
معاشی ترقی کا نصب العین
₨ 0
ماہنامہ ترجمان القرآن
اشارات
انسانی نفسیات کی سب سے بڑی کمزور کی عجلت پسندی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے نصب العین، مقاصد مفادات اور اہداف کے حصول کے لیے ہمیشہ مختصر راستوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو جب سیاسی آزادی ملی تو اپنی اقتصادی اور سماجی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے ان کی تڑپ بجا طور پر بڑھ گئی۔ مغرب سے موازنہ کرتے ہوئے ان ممالک کو اپنی اتھاہ غربت اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کا احساس بہت زیادہ ستانے لگا۔ نو آبادیاتی تسلط کے دوران تیسری دنیا نے مغربی ترقی کی فتح مندیوں کی کئی داستانیں سنی تھیں۔ آزادی کی نعمت ملی تو ترقی کی نیلم پری کی خاطر انھیں مغرب کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دی گئی۔ ان کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اقتصادی ترقی میں دکھایا گیا۔
ترقی کی جستجو میں خوش حالی کا موثر ترین ذریعہ صنعت کاری نظر آئی۔ اس کے لیے تشکیل زر (capital formation) کو کلید بتایا گیا۔ بچت اور ادائیگی میں فرق کو ختم کرنے کا علاج، مغربی ٹکنالوجی کی در آمد اور غیر ملکی امداد کے سہارے کو سمجھا گیا۔ ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے در آمدات کے متبادل تلاش کرنے اور کسی حد تک برآمدات میں اضافہ کرنے کی پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ اقتصادی ترقی کا مغربی ماڈل“ وہ ”نیا دیو تا” تھا جس کی قربان گاہ پر باقی سب کچھ لٹایا گیا: اخلاقی اقدار ، ثقافتی ورثے، سماجی طور طریقے قومی رسوم، دین، غرض سبھی کچھ اس کے بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ فرض کر لیا گیا کہ قومی آمدنی (GNP) میں اضافہ ہو، تب ہی خوش حالی اور ترقی کا نیا دور شروع ہو گا۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے نقش قدم پر چل کر ہی انسانیت، خوش حالی کے نئے دور میں داخل ہو سکے گی۔ صورت حال کی یہ مختصر تصویر اگرچہ بہت تشنہ ہے، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ترقیاتی حکمت عملی کے جو مغربی ماڈل تھے، انھیں جن خوش رنگ نعروں میں پیش کیا گیا تھا، ان میں سادگی اور رواداری کا بھی چرچا تھا۔ خوب صورت اصطلاحات کی بھرمار نے انھیں زرق برق پیرہن میں ڈھانپ رکھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے باطن سے مغربی طرز حیات کی برتری کا متکبرانہ اظہار لازماً ہوتا رہتا تھا۔ مغربی ماڈل کو قبول کرنے کے لیے اس مختصر مراعات یافتہ طبقے کی طرف سے بڑے اشتیاق اور جوش و جذبے کا اظہار ہوا، جس کی تعلیم و تربیت مغرب میں ہوئی، جو نو آبادیاتی پالنے میں پروان چڑھا اور جسے واپس جاتے ہوئے سفید فام آقاؤں نے مقامی اقتدار سونپا تھا۔ لیکن قوت و اقتدار سے سرشار اس دیسی طبقے اور مغرب کا باہمی بندھن، آج سخت دباؤ سے دو چار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ترقیاتی حکمت عملی کو کامیاب کرنے کے لیے ان دو گروہوں نے شعبدہ بازی سے ” ترقی و خوش حالی کا خواب دکھایا تھا وہ مطلوبہ نتائج دکھانے میں ناکام رہا ہے۔ قریب قریب ہر ترقی پذیر ملک میں ایسی قابل لحاظ مقامی قوتیں موجود ہیں، جو مغربی ماڈل سے چنداں متاثر نہیں اور مسلسل
Reviews
There are no reviews yet.