فرائیڈے اسپیشل: مولانا مودودی کبھی مصلحت کا
شکار ہوئے؟
پروفیسر خورشید احمد مولانا مصلحت پسندی
کا شکار کبھی نہیں ہوئے جہاں اپنی دعوت، اپنے اصول اور اپنے موقف کو چھوڑنا پڑے۔ لیکن مولانا نے اپنے خیالات میں بھی حالات کے تقاضوں کی بنا پر کئی تبدیلیاں کیں، اور خاص طور سے جب ماچھی گوٹھ کا واقعہ ہوا جس میں ہمارے اپنے کچھ دوست مولانا پر تنقید کر رہے تھے کہ آپ نے اپنے موقف سے انحراف کیا ہے تو مولانا نے بتایا کہ میں نے انحراف نہیں کیا بلکہ بدلتے ہوئے حالات میں اصل مقصد حاصل کرنے کے لیے جہاں جس قسم کی تبدیلی کی ضرورت ہے ، ان حدود میں رہتے ہوئے جو دعوت کی حدود ہیں، تبدیلی کی ہے۔ آپ ایک طرف اپنے اصول سے وفادار ہیں لیکن دوسری طرف آپ بدلتے ہوئے حالات میں دعوت کی Relevance کو ثابت کریں۔ میری نگاہ میں یہ وہی چیز ہے جو اللہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں قرار دیتا ہے، ان میں پہلی چیز یہ ہے کہ اللہ کی کتاب، اس کی ہدایت جیسی آتی ہے دینے ہی لوگوں تک پہنچا دو۔ پھر ان کی تربیت کرو اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دو۔ یہ حکمت کی تعلیم کیا چیز ہے ” حکمت کی تعلیم مینوں چیزوں کو اپنے حالات کی مناسبت سے اختیار کرنا ہے۔ جس طرح ایک حکیم آنکھ بند کر کے ایک ہی دوا ہر کسی کو نہیں دیتا بلکہ مرض کی تصحیح تشخیص اور مرض ہی نہیں بلکہ مریض کی حالت ، اس کے مزاج اور اس کی استطاعت ان تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر دوا بھی دیتا ہے اور پر ہیز بھی تجویز کرتا ہے، اس طرح مولانا مودودی نے بھی ان بنیادوں پر استقامت کے ساتھ ان کی ایپلی کیشن، ان کی ایکسٹینشن، ان کی امپلی منٹیشن کی۔ یہ کام انہوں نے کیا اور اسے کبھی بھی اصول پر سمجھوتا نہیں کہا جا سکتا۔
تحریک تکمیل پاکستان مگر کیسے؟
₨ 0
فرائیڈے اسپیشل: مولانا مودودی کبھی مصلحت کا
شکار ہوئے؟
پروفیسر خورشید احمد مولانا مصلحت پسندی
کا شکار کبھی نہیں ہوئے جہاں اپنی دعوت، اپنے اصول اور اپنے موقف کو چھوڑنا پڑے۔ لیکن مولانا نے اپنے خیالات میں بھی حالات کے تقاضوں کی بنا پر کئی تبدیلیاں کیں، اور خاص طور سے جب ماچھی گوٹھ کا واقعہ ہوا جس میں ہمارے اپنے کچھ دوست مولانا پر تنقید کر رہے تھے کہ آپ نے اپنے موقف سے انحراف کیا ہے تو مولانا نے بتایا کہ میں نے انحراف نہیں کیا بلکہ بدلتے ہوئے حالات میں اصل مقصد حاصل کرنے کے لیے جہاں جس قسم کی تبدیلی کی ضرورت ہے ، ان حدود میں رہتے ہوئے جو دعوت کی حدود ہیں، تبدیلی کی ہے۔ آپ ایک طرف اپنے اصول سے وفادار ہیں لیکن دوسری طرف آپ بدلتے ہوئے حالات میں دعوت کی Relevance کو ثابت کریں۔ میری نگاہ میں یہ وہی چیز ہے جو اللہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں قرار دیتا ہے، ان میں پہلی چیز یہ ہے کہ اللہ کی کتاب، اس کی ہدایت جیسی آتی ہے دینے ہی لوگوں تک پہنچا دو۔ پھر ان کی تربیت کرو اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دو۔ یہ حکمت کی تعلیم کیا چیز ہے ” حکمت کی تعلیم مینوں چیزوں کو اپنے حالات کی مناسبت سے اختیار کرنا ہے۔ جس طرح ایک حکیم آنکھ بند کر کے ایک ہی دوا ہر کسی کو نہیں دیتا بلکہ مرض کی تصحیح تشخیص اور مرض ہی نہیں بلکہ مریض کی حالت ، اس کے مزاج اور اس کی استطاعت ان تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر دوا بھی دیتا ہے اور پر ہیز بھی تجویز کرتا ہے، اس طرح مولانا مودودی نے بھی ان بنیادوں پر استقامت کے ساتھ ان کی ایپلی کیشن، ان کی ایکسٹینشن، ان کی امپلی منٹیشن کی۔ یہ کام انہوں نے کیا اور اسے کبھی بھی اصول پر سمجھوتا نہیں کہا جا سکتا۔
Reviews
There are no reviews yet.