سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

 0

ترجمان القرآن، جنوری ۲۰۱۰ء
۲۱
اشارات
میں کود پڑے ہیں اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں اور اداروں کی کش مکش کا واویلا کر رہے ہیں۔
عالمیہ کے فیصلے پر اعتراضات
یہ بھی ایک عجب تماشا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کے ترجمانوں اور اس کے ہم نوا دانش وروں اور صحافیوں نے کھل کر تنقید کی ہے۔ بلاشبہ ہر فیصلے کا قانون اور سلمہ اصول ، انصاف کی روشنی میں جائزہ لیا جانا چاہیے، تاہم جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک سیاسی اعتراضات جن میں کہا گیا ہے عدالت نے مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا ہے اور فیصلے میں ایک سیاسی پیغام بھر دیا ہے۔ کچھ نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے کہ بیج انتقام لے رہے ہیں۔ کچھ تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ اسے بچوں اور فوجی مقتدرہ کی طرف سے جوابی حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ہماری نگاہ میں یہ تمام اعتراضات نہ صرف یہ کہ تھائی سے کوئی نسبت نہیں رکھتے ، بلکہ بہار وہ ہوں اور مجرم ضمیروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کی ۲۷ دسمبر ۲۰۰۹ ء کی توڈیرو کی تقریر بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی پوزیشن کو مزید کمزور کرنے کا باعث ہوئی ہے۔ کارا مشورہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت فرار اور تصادم کا یہ راستہ اختیار نہ کرے۔ اس میں ان کا اور ملک کا شمارہ ہے۔ حقائق کا سامنا کرے اور دستور اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا دفاع کرے۔ اس کے بغیر اسے نہ سند جواز حاصل ہو سکتی ہے اور نہ اعتباری بحال ہو سکتا ہے۔ رہے دوسرے اعتراضات، تو ان کا دلیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم شعر ان کا
جائزہ لیتے ہیں۔
ه اختیارات سے تجاوز پہلا اعتراض یہ ہے کہ سپریم کورٹ عدالتی فعالیت (judicial activism) کا راستہ اختیار کر رہی ہے اور یہ اس کا اپنے دائرہ کار سے باہر جانے اور
انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت کے مترادف ہے ہماری نگاہ میں عدالتی فعالیت اور عدالتی نظم وضبط دونوں کے حق میں مضبوط دلائل موجود ہیں اور دنیا کے مہذب اور جمہوری ممالک میں دونوں ہی کی مثالیں ملتی ہیں۔
ہماری دیانت دارانہ رائے ہے کہ مارچ ۲۰۰۹ ء میں عدلیہ کی بحالی کے بعد سے عدلیہ نے

SKU: 6849817303b2c8619f33cb30 Categories: , ,

ترجمان القرآن، جنوری ۲۰۱۰ء
۲۱
اشارات
میں کود پڑے ہیں اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں اور اداروں کی کش مکش کا واویلا کر رہے ہیں۔
عالمیہ کے فیصلے پر اعتراضات
یہ بھی ایک عجب تماشا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کے ترجمانوں اور اس کے ہم نوا دانش وروں اور صحافیوں نے کھل کر تنقید کی ہے۔ بلاشبہ ہر فیصلے کا قانون اور سلمہ اصول ، انصاف کی روشنی میں جائزہ لیا جانا چاہیے، تاہم جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک سیاسی اعتراضات جن میں کہا گیا ہے عدالت نے مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا ہے اور فیصلے میں ایک سیاسی پیغام بھر دیا ہے۔ کچھ نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے کہ بیج انتقام لے رہے ہیں۔ کچھ تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ اسے بچوں اور فوجی مقتدرہ کی طرف سے جوابی حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ہماری نگاہ میں یہ تمام اعتراضات نہ صرف یہ کہ تھائی سے کوئی نسبت نہیں رکھتے ، بلکہ بہار وہ ہوں اور مجرم ضمیروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کی ۲۷ دسمبر ۲۰۰۹ ء کی توڈیرو کی تقریر بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی پوزیشن کو مزید کمزور کرنے کا باعث ہوئی ہے۔ کارا مشورہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت فرار اور تصادم کا یہ راستہ اختیار نہ کرے۔ اس میں ان کا اور ملک کا شمارہ ہے۔ حقائق کا سامنا کرے اور دستور اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا دفاع کرے۔ اس کے بغیر اسے نہ سند جواز حاصل ہو سکتی ہے اور نہ اعتباری بحال ہو سکتا ہے۔ رہے دوسرے اعتراضات، تو ان کا دلیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم شعر ان کا
جائزہ لیتے ہیں۔
ه اختیارات سے تجاوز پہلا اعتراض یہ ہے کہ سپریم کورٹ عدالتی فعالیت (judicial activism) کا راستہ اختیار کر رہی ہے اور یہ اس کا اپنے دائرہ کار سے باہر جانے اور
انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت کے مترادف ہے ہماری نگاہ میں عدالتی فعالیت اور عدالتی نظم وضبط دونوں کے حق میں مضبوط دلائل موجود ہیں اور دنیا کے مہذب اور جمہوری ممالک میں دونوں ہی کی مثالیں ملتی ہیں۔
ہماری دیانت دارانہ رائے ہے کہ مارچ ۲۰۰۹ ء میں عدلیہ کی بحالی کے بعد سے عدلیہ نے

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »