بنک کا سود از ڈاکٹر محمد علی القری

بنگ کا سود
اقتصادی اور شرعی نقطہ نظر
Y DM
L RS
ڈاکٹر محمد علی القری
جملہ حقوق محفوظ طبع اول ۱۹۹۶ء
بنگ کا سود ڈاکٹر محمد علی القری
عتیق الظفر
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز
بلاک ۱۹ ، مرکز ایف سیون اسلام آباد فون : ۸۱۸۲۳۰ فیکس : ۸۲۴۷۰۴
۹۶۹-۴۴۸-۰۴۵-۰
شرکت پر نٹنگ پریس نسبت روڈ، لاہور
یک پروموٹرز، جناح سپر مارکیٹ بلاک ۱۹، مرکز ایف سیون اسلام آباد
فون : ۸۲۳۰۹۴
Islamabad
Acc. No……
Sal
:
:
:
:
:
:
:
مؤلف
ترجمه
اہتمام
آئی ایس بی این
طالع
تقسیم کننده
قیمت
ابتدائیہ
مسلمان ممالک پر مغربی سامراج کا دو سو سالہ تسلط تو اب الحمد اللہ تقریباً ختم ہو گیا ہے اور وسط ایشیا کے مسلم مملک کی حالیہ آزادی کے بعد بڑی حد تک، مسلم ممالک اپنی سیاسی قسمت کے خود ذمہ دار ہو گئے ہیں، لیکن سامراج کے فکری، تہذیبی، تعلیمی، اخلاقی اور معاشی اثرات نہ صرف یہ کہ باقی ہیں بلکہ عالمی طاقتیں تمام ممکنہ وسائل کے ساتھ، ان غیر سیاسی زنجیروں کی گرفت کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی غلامی کا جو سب سے قبیح اور مہلک اثر ہے، وہ ذہنوں کی تبدیلی اور اقدار کے بدل جانے کی صورت میں رونما ہوا کرتا ہے اور علامہ اقبال نے اس کی بڑے واضح الفاظ میں نشاندہی کی تھی کہ
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
ان بد نما اثرات کو زندگی کے تقریباً تمام میدانوں میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن میری کے تقریباً جاسکتا نگاہ میں اس کی ایک نمایاں ترین مثال سود کے باب میں دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ بات بلاخوف و تردید کھی جا سکتی ہے کہ ایک عام مسلمان اپنی پوری تاریخ میں جن برائیوں سے نفرت کرتا رہا ہے، ان میں شراب، خنزیر، زنا اور سود سب سے نمایاں ہیں۔ عالم یا عامی، تعلیم یافتہ یا ان پڑھ، امیر یا غریب جس سے بھی آپ بات کریں، ان کی حرمت کے بارے میں سب کو یک زبان پائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی استعمار کے غلبہ اور اس کے تحت بنکاری کے نظام کے عمومی فروغ کے باوجود عام مسلمان رہا، سود، یورری، انٹرسٹ یا بیاج اسے کسی بھی نام سے پکاریں، اس سے پناہ مانگتا ہے اور اگر کسی وجہ
بنک کا سود
سے اس میں ملوث ہوا ہے تو اسے گناہ سمجھتا ہے۔ یہ ہے امت کا اجتماعی ضمیر اور الحمد اللہ اسے بگاڑا نہیں جا سکا ہے۔ البتہ اقتدار کے حلقوں اور اہل ثروت کے دائروں میں سود کے جواز کے لیے کوئی نہ کوئی چور دروازہ نکالنے کی کوششیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں، خصوصیت سے وہ طبقے جو مغربی اقدار اور اداروں کو ذہنا اور عملاً قبول کر چکے ہیں یا جن کا مفاد مغرب کے سودی نظام سے وابستہ ہے ، وہ مسلسل ایسی بحثوں کو ہوا دیتے رہے ہیں جن کے نتیجہ میں سود کی حرمت کو مشتبہ بنایا جاسکے اور کسی نہ کسی شکل میں اس کا حلالہ کیا جا سکے۔ علمائے حق اور خود مسلمان ذہن رکنے والے ماہرین معاشیات و بشکاری نے اس مذموم مساعی کا سینہ سپر ہو کر دلیل اور جرات سے مقابلہ کیا ہے اور جب بھی اس نوعیت کا کوئی فتنہ اٹھایا گیا ہے اس کا سر توڑنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں مکہ مکرمہ میں مسلمان علما اور ماہرین معاشیات کی پہلی عالمی معاشی کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں ساری دنیا سے تین سو سے زیادہ ماہرین معاشیات (Professional Economists) نے شرکت کی، اور علما نے یک زبان ہو کر اس امر کا اعلان کیا کہ سود یا انٹرسٹ ایسی ہر صورت میں حرام ہے، اور رہا کے مفہوم میں ہر وہ سود بھی شامل ہے جو خواہ صرفی مقاصد کے لیے لیے گئے قرضوں پر لیا یا دیا جائے یا کاروباری، صنعتی اور نفع آرا مقاصد کے لیے۔ اس طرح قرض خواہ فرد (مثلاً ساہوکار) سے حاصل کیا جائے یا اداروں سے، جیسے بنگ، انوسٹمنٹ کمپنیاں، کارپوریشن وغیرہ ہو یا خود حکومت اور حکومتی ادارے اگر قرض پر زمانی میزان میں کوئی طے شدہ اضافہ، معاملے کا حصہ ہے تو وہ سود ہے اور اسی سود کو قرآن نے رہا قرار دیا ہے اور یہ حرام ہے۔ یہی وہ پوزیشن ہے جس پر علما اور ماہرین معاشیات کا تقریباً اجماع ہے اور اس کی توثیق و تائید تمام ہی علمی اداروں اور کانفرنسوں نے کی ہے۔ مثلاً مجمع البحوث الاسلامیہ (قاہرہ) کی متی ۱۹۷۵ء کی قراردادی اسلامی فقہ کونسل کی دسمبر ۱۹۸۵ء کی قرارداد جو قاہرہ میں موتمر اسلامی کے موقع پر منظور کی گئی، مجمع فقہ الاسلامی کا فیصلہ، اس کی اعلیٰ کونسل کے اجلاس جو رجب ۱۴۲۰۶ھ (مکہ مکرمہ میں ہوا، الازہر کی فتوی کمیٹی کا فتوئی جو ۲۸ فروری ۱۹۸۸ء کو جاری کیا گیا، اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی اسلامی فقہ اکیڈمی کی دسمبر ۱۹۸۵ء کی قرار داد، مجمع فقہ الاسلامی ہندوستان کی ۱۹۸۹ء کی کانفرنس اور اس کے فیصلے، نیز پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کی
بنک کا سود
Y
رپورٹ ۱۹۸۰ء اور وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ (دسمبر ۱۹۹۱ء)۔ یہ اشارات صرف بطور مثال کیے جارہے ہیں مقصود ان تمام اداروں اور کانفرنسوں کا مکمل احاطہ نہیں جن کا متفقہ موقف ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور جسے اب چند حلقے چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے نہ کبھی ماضی میں دلیل سے بات کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے اور نہ آج کرتے ہیں۔ افسوس وہاں ہوتا ہے جہاں خاصے پڑھے لکھے افراد بھی دلیل کی بجائے مفاد اور مصلحت کا سہارا لے کر دین کے مثبت احکام میں تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ راستہ حق و دیانت کا راستہ نہیں ہے اور ایسی ہر کوشش کا ماضی میں بھی مقابلہ کیا گیا ہے اور آج بھی کیا جا رہا ہے۔ الحمد اللہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد اور دوسرے علمی اور تحقیق اداروں نے گذشته ۲۰ سال میں درجنوں کی تعداد میں ایسی علمی اور تحقیقی کتب و مقالات کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے جن میں اسلام کے معاشی نظام کے مختلف پہلوؤں اور خصوصیت سے رہا اور مالیاتی و بنکاری نظام پر گفتگو کی ہے اور اسلامی بنیادوں پر سود کے بغیر ایک جدید مالیاتی نظام کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ میرے عزیز دوست اور ساتھی ڈاکٹر محمد علی القری جامعہ ملک عبد العزیز میں معاشیات کے پروفیسر ہیں اور اس جامعہ کے مشہور مرکز بحوث الاقتصادی الاسلامی کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا زیر ترجمه مقاله، اسلامی معاشیات کے لٹریچر میں ایک مفید اور قابل قدر اضافہ ہے۔ ڈاکٹر القری کی نظر شریعت اسلامی اور جدید معاشیات پر یکساں ہیں، اس طرح وہ صرف ایک نظری استاد ہی نہیں بلکہ سعودی عرب کے سب سے بڑے پرائیوٹ بنگ، نیشنل کمرشل بنگ کے اسلامی معاشی امور پر مشیر بھی ہیں۔ اس مختصر کتاب میں انھوں نے زیر بحث موضوع کے تمام ہی اہم پہلوؤں کا بڑی خوبی کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔ اس میں تاریخی اور نظریاتی بحثوں کو بھی اختصار کے ساتھ سمیٹ لیا گیا ہے اور ان تمام دلائل کا بھی مسکت جواب دیا گیا ہے جو بیکاری کے سود کو رہا کے دائرہ سے باہر کرنے والے اہل قلم وقتاً فوقتاً دیتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر القری نے ان حدود کو بھی واضح کر دیا ہے جن کا احترام ضروری ہے اور ان استثنائی حالات کی بھی نشان دہی کر دی ہے جو شریعت کی نگاہ میں گوارا ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر القری کا اسلوب نہ جارحانہ ہے اور نہ معذرت خواہانہ انھوں نے نہایت ٹھنڈے اور خالص علمی
بنک کا سود
L
انداز سے ایک ایک پہلو پر بحث کی ہے اور ان تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے جو بحث کے لیے بار بار اٹھائے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں افراط زر اور اس کے نتیجہ میں قدر رز میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی انھوں نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ اور جہاں اصل مسئلہ کے حل کی طرف توجہ دلائی ہے، وہیں اس سے سود کے جواز کے استدلال کی کمزوری بھی واضح کر دی ہے۔ اسی طرح متبادل نظام پر کیے جانے والے اعتراضات کا بھی انھوں نے بخوبی احاطہ کر لیا ہے۔ میں اس مختصر کتاب کو مسئلہ زیر بحث کی تنقیح و تقسیم کے لیے ایک نہایت مفید اور قیمتی کاوش سمجھتا ہوں۔ مصنف محترم کے لیے بہترین اجر کی دعا کرتا ہوں اور معاشیات، بنکاری کے محققوں، پالیسی سازوں اور علما کو اس سے استفادہ کی مادہ کی دعوت دیتا
ہوں۔
خورشید احمد ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۵ء
اسلام آباد
بنک کا سود