ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ اس ضمن میں اندرون ملک اور بیرون ملک اب تک کی گئی کوششیں غیر موافق اور ناسازگار ماحول میں کی گئی ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی حالت ابتر ہے۔ قانونی ڈھانچہ مخالف ہے۔ ٹیکس کا نظام سود کے لیے موافق ہے اور منافع میں شراکت کے نظام کا مخالف ہے۔ اسلامی بنک کاری اور روایتی بنک کاری کے درمیان مقابلے کی صورت میں صاحب حیثیت لوگ اسلامی نظام کے مخالف ہیں۔ ان معروضی حالات میں اب تک کی گئی کوششیں بہرطور قابل تعریف ہیں۔ یہ کوششیں اسلامی بنک کاری کی طرف پہلا قدم ہیں۔
موجودہ اسلامی بنکوں کا بہت زیادہ انحصار ان جائز مالیاتی آلات پر ہے جو کہ روایتی معاشی نظام کے بہت زیادہ قریب ہیں مثلاً مرابحه (mark-up) اور اجاره (leasing) تقریباً ۸۰ تا ۹۰ فی صد قرضہ جات میں انھی آلات کو استعمال کیا گیا ہے جب کہ مضاربہ اور مشارکہ جیسے حقیقی متبادلات کو بہت ہی محدود پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے۔ اخلاقی و سماجی مقاصد کو بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق ہیں۔ امانتوں کو حرکت میں لانے کے حوالے سے سب سے زیادہ پیش رفت ہوئی ہے اور خاص طور پر بہت سے نئے وسائل حاصل کیے گئے ہیں لیکن ان وسائل کو معاشرتی طور پر فائدہ مند اور ترقیاتی اور فلاحی مقاصد کے لیے بہت کم استعمال کیا گیا۔ روزگار کی فراہمی اور معاشرے کے نچلے اور متوسط طبقات کی طرف وسائل کے بہاؤ کی طرف، خاص طور پر دیسی سطح پر جہاں بہت زیادہ امکانات کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے چیلنج در پیش آتے ہیں توجہ نہیں دی گئی۔ اسی طرح وسائل کے بہترین طریق پر استعمال کا معاملہ ہے۔ اسلامی بنک کاری کی سکیم کو اس محدود اور جزوی تجربے کی بنیاد پر کامیابی و ناکامی کی کسوٹی پر جانچتا نا انصافی ہو گا۔ ابھی تو بہت سا سفر طے کرنا ہے نظام کے نمایاں پہلووں کو اجاگر کرتا ہے، اس کے بعد ہی اس تجربے کے بارے میں کوئی حقیقی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ تاہم عملی تجربات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ اسلامی بنکوں کی طرف سے دیے جانے والے منافع کی شرح روایتی بنکوں کی نسبت کم ہے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی بنک پیداواری سرگرمیوں کی نسبت تجارتی سرگرمیوں، عرصہ طویل کے مقابلے میں عرصہ قلیل کے منافعوں، سماجی فائدوں کے مقابلے میں نجی فائدوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ قلیل مدتی اثاثوں کے ارتکاز نے اسلامی بنکوں کی سرمایہ کاری کے استحکام کو کم کر دیا ہے اور بنکوں کے خطر میں اضافہ کر دیا ہے۔ عملی طور پر قرضہ جاتی سرمایہ حاصل کرنے والے نفع و نقصان میں شراکت کے مقابلے میں مرابحه (mark-up) کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقی شرح منافع (افراط زر کے مطابق) اگر منفی نہیں تو عام طور پر کم ہے جب کہ بنک کاری کے قرضوں پر یہ لازماً مثبت ہوتی ہے۔ ان تمام اندرونی چیلنجوں، اور بیرونی
اسلامی بنک کاری: اکیسویں صدی کا چیلنج
₨ 0
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ اس ضمن میں اندرون ملک اور بیرون ملک اب تک کی گئی کوششیں غیر موافق اور ناسازگار ماحول میں کی گئی ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی حالت ابتر ہے۔ قانونی ڈھانچہ مخالف ہے۔ ٹیکس کا نظام سود کے لیے موافق ہے اور منافع میں شراکت کے نظام کا مخالف ہے۔ اسلامی بنک کاری اور روایتی بنک کاری کے درمیان مقابلے کی صورت میں صاحب حیثیت لوگ اسلامی نظام کے مخالف ہیں۔ ان معروضی حالات میں اب تک کی گئی کوششیں بہرطور قابل تعریف ہیں۔ یہ کوششیں اسلامی بنک کاری کی طرف پہلا قدم ہیں۔
موجودہ اسلامی بنکوں کا بہت زیادہ انحصار ان جائز مالیاتی آلات پر ہے جو کہ روایتی معاشی نظام کے بہت زیادہ قریب ہیں مثلاً مرابحه (mark-up) اور اجاره (leasing) تقریباً ۸۰ تا ۹۰ فی صد قرضہ جات میں انھی آلات کو استعمال کیا گیا ہے جب کہ مضاربہ اور مشارکہ جیسے حقیقی متبادلات کو بہت ہی محدود پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے۔ اخلاقی و سماجی مقاصد کو بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق ہیں۔ امانتوں کو حرکت میں لانے کے حوالے سے سب سے زیادہ پیش رفت ہوئی ہے اور خاص طور پر بہت سے نئے وسائل حاصل کیے گئے ہیں لیکن ان وسائل کو معاشرتی طور پر فائدہ مند اور ترقیاتی اور فلاحی مقاصد کے لیے بہت کم استعمال کیا گیا۔ روزگار کی فراہمی اور معاشرے کے نچلے اور متوسط طبقات کی طرف وسائل کے بہاؤ کی طرف، خاص طور پر دیسی سطح پر جہاں بہت زیادہ امکانات کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے چیلنج در پیش آتے ہیں توجہ نہیں دی گئی۔ اسی طرح وسائل کے بہترین طریق پر استعمال کا معاملہ ہے۔ اسلامی بنک کاری کی سکیم کو اس محدود اور جزوی تجربے کی بنیاد پر کامیابی و ناکامی کی کسوٹی پر جانچتا نا انصافی ہو گا۔ ابھی تو بہت سا سفر طے کرنا ہے نظام کے نمایاں پہلووں کو اجاگر کرتا ہے، اس کے بعد ہی اس تجربے کے بارے میں کوئی حقیقی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ تاہم عملی تجربات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ اسلامی بنکوں کی طرف سے دیے جانے والے منافع کی شرح روایتی بنکوں کی نسبت کم ہے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی بنک پیداواری سرگرمیوں کی نسبت تجارتی سرگرمیوں، عرصہ طویل کے مقابلے میں عرصہ قلیل کے منافعوں، سماجی فائدوں کے مقابلے میں نجی فائدوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ قلیل مدتی اثاثوں کے ارتکاز نے اسلامی بنکوں کی سرمایہ کاری کے استحکام کو کم کر دیا ہے اور بنکوں کے خطر میں اضافہ کر دیا ہے۔ عملی طور پر قرضہ جاتی سرمایہ حاصل کرنے والے نفع و نقصان میں شراکت کے مقابلے میں مرابحه (mark-up) کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقی شرح منافع (افراط زر کے مطابق) اگر منفی نہیں تو عام طور پر کم ہے جب کہ بنک کاری کے قرضوں پر یہ لازماً مثبت ہوتی ہے۔ ان تمام اندرونی چیلنجوں، اور بیرونی
Reviews
There are no reviews yet.