ایل ایف او، ادارتی استحکام اور اعتماد کا ووٹ

 0

مولانا مودودی نے جنرل محمد ایوب کو بھی متنبہ کیا تھا کہ انھوں نے فوجی انقلاب کا راستہ اختیار کر کے قوم کو بہت غلط راستے پر ڈالا ہے۔ اسی طرح عالم اسلامی میں فوج کے سیاسی کردار پر انتباہ کرتے ہوئے نھوں نے کہا تھا کہ ‘یا درکھیے جو تبدیلی بندوق کی نالی سے آتی ہے وہ بندوق کی نالی بنی سے تبدیلی کا خطرہ مول لیتی ہے۔ اس اصولی پوزیشن کی روشنی میں راولپنڈی کے واقعے کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے جو باتیں سامنے آتی ہیں ان میں سے چند پر ٹھنڈے غورو فکر کی ضرورت ہے۔ یہ غورو فکر قوم کے تمام
عناصر کے لیے بشمول اس ملک کی فوجی قیادت ضروری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم میں اصل استحکام اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اس میں اولاً مکمل طور پر دستور اور قانون کی حکمرانی ہو اور ثانیا افراد کے مقابلے میں اداروں کے استحکام کی فکر کی جائے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جو بات سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہی تھی وہ تاریخ کا روشن ترین سبق ہے۔ امت غم و اندوہ میں نے حال تھی اور حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی تک نے یہ کہہ دیا تھا کہ جو کہے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، اس کا سر قلم کر دوں گا، لیکن دین حق اور مزاج نبوت کے شنا سا حضرت ابو بکر نے قرآن کی آیات تلاوت کر کے یاد دلایا کہ کوئی انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتا حی و قیوم صرف اللہ کی ذات ہے اور جس نے اللہ کے دین کو تھاما وہ استحکام کی راہ پر گامزن ہوا۔ یہی بیات خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ عـليـكـم بسنتی وسنة خلفاء الراشدین، یعنی مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ اللہ کے رسول اور اس کے راشد خافا کی سنت کی پیروی ہے۔ گویا اللہ کا رسول اللہ کو پیارا ہوا لیکن اس کی سنت اور اس کے راستے پر چلنے والوں کی سنت ابدی ہے اور ستحکام اور تسلسل کی ضامن ۔
لہذا استحکام قانون کی حکمرانی اور اداروں کے دوام سے حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ خیر ہے جسے دنیا نے بھی تجربات سے سیکھا ہے۔ قومی معاملات میں استحکام اداروں کے مستحکم ہونے سے آتا ہے اور جہاں کسی نظام کا انحصار محض افراد پر ہوہ بہت ہی بو دا اور کمزور ہے۔ فرانس کے اس وزیر اعظم کا مشہور واقعہ ہے جس کی قیادت میں فرانس نے جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کی تھی کہ کوئی انسان با گز یہ نہیں ۔ جب کسی نے کہا: جناب وزیر اعظم ! آپ فرانس کے اقبال کے لیے نا گزیر ہیں، تو اس نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ قبرستان ناگزیر نسانوں سے بھرا پڑا ہے“۔ اور جب دوسری جنگ کے دوران ونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ فتح کے بارے میں تمھارے اعتماد کی بنیاد کیا ہے تو اس نے کہا کہ اگر انگلستان کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اداروں کے استحکام کو نظر انداز کیا ہے اور ہر مدعی نے یہی ڈھونگ چایا ہے کہ ملک کی سالمیت اور ترقی کا انحصار میری ذات پر ہے، میں ہی عقل کل اور ہر دستور اور قانون سے الا ہوں ۔ ملک غلام محمد نے بھی یہی کھیل کھیلا اور دستور ساز اسمبلی اور قانون کی حکمرانی کا تیا پانچہ کر ڈالا۔ جنرل ایوب خان نے بھی یہی کیا اور جب ان پر دل کا دورہ پڑا تو ٹی وی پر آکر چل پھر کر انھیں دکھانا پڑا کہ ہ زندہ ہیں ۔ ایوب کا اپنا بنایا ہو ا دستور ان کی زندگی میں ہی ان کا ساتھ نہ دے سکا اور خود انھوں نے قومی سمبلی کے اسپیکر کی جگہ مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحیی خاں ( مارچ ۱۹۶۹ء ) کو اقتدارسونپ دیا۔ یوب ہوں یا ئیکی ، ذو الفقار علی بھٹو ہوں یا نواز شریف جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف سب اس غالطے کا شکار اور اداروں کی کمزوری تباہی اور عدیم استحکام کے مجرم ہیں ۔ اس واقعے کا اصل سبق یہ ہے کہ ستور قانون او را داروں کی فکر کی جائے اور انھیں مستحکم کیا جائے۔

SKU: 6849817b03b2c8619f33cd2c Categories: , ,

مولانا مودودی نے جنرل محمد ایوب کو بھی متنبہ کیا تھا کہ انھوں نے فوجی انقلاب کا راستہ اختیار کر کے قوم کو بہت غلط راستے پر ڈالا ہے۔ اسی طرح عالم اسلامی میں فوج کے سیاسی کردار پر انتباہ کرتے ہوئے نھوں نے کہا تھا کہ ‘یا درکھیے جو تبدیلی بندوق کی نالی سے آتی ہے وہ بندوق کی نالی بنی سے تبدیلی کا خطرہ مول لیتی ہے۔ اس اصولی پوزیشن کی روشنی میں راولپنڈی کے واقعے کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے جو باتیں سامنے آتی ہیں ان میں سے چند پر ٹھنڈے غورو فکر کی ضرورت ہے۔ یہ غورو فکر قوم کے تمام
عناصر کے لیے بشمول اس ملک کی فوجی قیادت ضروری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم میں اصل استحکام اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اس میں اولاً مکمل طور پر دستور اور قانون کی حکمرانی ہو اور ثانیا افراد کے مقابلے میں اداروں کے استحکام کی فکر کی جائے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جو بات سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہی تھی وہ تاریخ کا روشن ترین سبق ہے۔ امت غم و اندوہ میں نے حال تھی اور حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی تک نے یہ کہہ دیا تھا کہ جو کہے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، اس کا سر قلم کر دوں گا، لیکن دین حق اور مزاج نبوت کے شنا سا حضرت ابو بکر نے قرآن کی آیات تلاوت کر کے یاد دلایا کہ کوئی انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتا حی و قیوم صرف اللہ کی ذات ہے اور جس نے اللہ کے دین کو تھاما وہ استحکام کی راہ پر گامزن ہوا۔ یہی بیات خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ عـليـكـم بسنتی وسنة خلفاء الراشدین، یعنی مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ اللہ کے رسول اور اس کے راشد خافا کی سنت کی پیروی ہے۔ گویا اللہ کا رسول اللہ کو پیارا ہوا لیکن اس کی سنت اور اس کے راستے پر چلنے والوں کی سنت ابدی ہے اور ستحکام اور تسلسل کی ضامن ۔
لہذا استحکام قانون کی حکمرانی اور اداروں کے دوام سے حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ خیر ہے جسے دنیا نے بھی تجربات سے سیکھا ہے۔ قومی معاملات میں استحکام اداروں کے مستحکم ہونے سے آتا ہے اور جہاں کسی نظام کا انحصار محض افراد پر ہوہ بہت ہی بو دا اور کمزور ہے۔ فرانس کے اس وزیر اعظم کا مشہور واقعہ ہے جس کی قیادت میں فرانس نے جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کی تھی کہ کوئی انسان با گز یہ نہیں ۔ جب کسی نے کہا: جناب وزیر اعظم ! آپ فرانس کے اقبال کے لیے نا گزیر ہیں، تو اس نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ قبرستان ناگزیر نسانوں سے بھرا پڑا ہے“۔ اور جب دوسری جنگ کے دوران ونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ فتح کے بارے میں تمھارے اعتماد کی بنیاد کیا ہے تو اس نے کہا کہ اگر انگلستان کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اداروں کے استحکام کو نظر انداز کیا ہے اور ہر مدعی نے یہی ڈھونگ چایا ہے کہ ملک کی سالمیت اور ترقی کا انحصار میری ذات پر ہے، میں ہی عقل کل اور ہر دستور اور قانون سے الا ہوں ۔ ملک غلام محمد نے بھی یہی کھیل کھیلا اور دستور ساز اسمبلی اور قانون کی حکمرانی کا تیا پانچہ کر ڈالا۔ جنرل ایوب خان نے بھی یہی کیا اور جب ان پر دل کا دورہ پڑا تو ٹی وی پر آکر چل پھر کر انھیں دکھانا پڑا کہ ہ زندہ ہیں ۔ ایوب کا اپنا بنایا ہو ا دستور ان کی زندگی میں ہی ان کا ساتھ نہ دے سکا اور خود انھوں نے قومی سمبلی کے اسپیکر کی جگہ مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحیی خاں ( مارچ ۱۹۶۹ء ) کو اقتدارسونپ دیا۔ یوب ہوں یا ئیکی ، ذو الفقار علی بھٹو ہوں یا نواز شریف جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف سب اس غالطے کا شکار اور اداروں کی کمزوری تباہی اور عدیم استحکام کے مجرم ہیں ۔ اس واقعے کا اصل سبق یہ ہے کہ ستور قانون او را داروں کی فکر کی جائے اور انھیں مستحکم کیا جائے۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “ایل ایف او، ادارتی استحکام اور اعتماد کا ووٹ”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »