بلوچستان سلگتے مسائل، غافل قیادت

 0

جائے۔
پنجم : نیز صوبے میں تعلیم، صحت پانی کی فراہمی، بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ملازمتوں پر مقامی آبادی اور صوبے کے لوگوں کو ترجیح دی جائے اور یہ سب کام میرٹ کی بنیاد پر انجام دینے کے لیے مقامی آبادی کی تعلیم پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھانے کا انتظام کیا جائے۔
ششم: فرنیٹر کور اور کوٹل گارڈ کو صرف ساحلی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جائے اور ان کا سول کردار ختم کیا جائے۔ نیز اسمگلنگ روکنے کے نام پر جو ۵۰۰ سے زیادہ چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں، ان کو ختم کیا جائے۔ اسمگلنگ روکنے کا کام فرنٹیر کانسٹیلری اور کوسٹل گارڈ سے نہ لیا جائے بلکہ یہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو۔ اسی طرح فوجی چھاؤنیوں کا معاملہ سیاسی بحث و مناقشے کا حصہ نہ ہو اور صرف دفاعی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔ فی الحال ان کے قیام کو ملتوی کر دیا جائے تا کہ بہتر فضا میں صیح فیصلے ہوسکیں۔ ہفتم گوادر پورٹ کی اتھارٹی کو فوری طور پر کراچی سے گوادر میں منتقل کیا جائے ۔ اس میں صوبے کو مناسب نمایندگی دی جائے اس کی ترقی کے پورے پروگرام میں صوبے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا
جائے کہ علاقے کے لوگوں کو ان کا حق ملنے زمینوں پر باہر والے قبضہ کر کے علاقے کی شناخت کو تبدیل نہ کر دیں اور جو متاثرین ہیں ان کو قریب ترین علاقے میں آباد کیا جائے۔ نیز اراضی کے بڑے بڑے قطعے جس طرح فوج نیوی اور دوسرے بااثر افراد اور اداروں نے ہتھیا لیے ہیں ان کو تختی سے روکا جائے اور انصاف پر مبنی شفاف انداز میں پورے علاقے کا ماسٹر پلان از سر نو تیار کیا جائے۔ ہشتم: بلوچستان میں بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے تمام علاقوں اور باسیوں کی منصفانہ اور متوازن ترقی کے تقاضے بہر صورت پورے ہونے چاہیں ۔ خصوصیت سے خشک سالی کی بنا پر جو علاقے گذشتہ آٹھ برس سے متاثر ہیں ان کی ترقی اور تلافی کا اہتمام کیا جائے۔
نہم: بلوچستان میں نظم و نسق کے روایتی انتظام کو جس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت مقامی لیوی کو حاصل ہے برقرار رکھا جائے اور اس کی ترقی کا اہتمام کیا جائے نہ کہ اس کو ختم کر کے پولیس کے نظام کو ان پر مسلط کیا جائے جو اس علاقے میں بھی نا کام ہے جہاں اس وقت اسے قدرت حاصل ہے۔ ہمارا مقصد کمیٹی کی مکمل سوچ کا احاطہ اور اس کی تمام سفارشات کا بیان نہیں۔ ہم سوچ کے اس رخ کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو پارلیمنٹ کی اس کمیٹی نے پیش کیا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچستان ہی نہیں ، تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں، عوام کے مشورے سے ہوں۔ مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے مخصوص مفادات اور فوجی اور سول مقتدر military – civil establishmene) کی گرفت کو ختم کیا جائے اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔

SKU: 6849817303b2c8619f33cab8 Categories: , ,

جائے۔
پنجم : نیز صوبے میں تعلیم، صحت پانی کی فراہمی، بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ملازمتوں پر مقامی آبادی اور صوبے کے لوگوں کو ترجیح دی جائے اور یہ سب کام میرٹ کی بنیاد پر انجام دینے کے لیے مقامی آبادی کی تعلیم پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھانے کا انتظام کیا جائے۔
ششم: فرنیٹر کور اور کوٹل گارڈ کو صرف ساحلی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جائے اور ان کا سول کردار ختم کیا جائے۔ نیز اسمگلنگ روکنے کے نام پر جو ۵۰۰ سے زیادہ چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں، ان کو ختم کیا جائے۔ اسمگلنگ روکنے کا کام فرنٹیر کانسٹیلری اور کوسٹل گارڈ سے نہ لیا جائے بلکہ یہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو۔ اسی طرح فوجی چھاؤنیوں کا معاملہ سیاسی بحث و مناقشے کا حصہ نہ ہو اور صرف دفاعی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔ فی الحال ان کے قیام کو ملتوی کر دیا جائے تا کہ بہتر فضا میں صیح فیصلے ہوسکیں۔ ہفتم گوادر پورٹ کی اتھارٹی کو فوری طور پر کراچی سے گوادر میں منتقل کیا جائے ۔ اس میں صوبے کو مناسب نمایندگی دی جائے اس کی ترقی کے پورے پروگرام میں صوبے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا
جائے کہ علاقے کے لوگوں کو ان کا حق ملنے زمینوں پر باہر والے قبضہ کر کے علاقے کی شناخت کو تبدیل نہ کر دیں اور جو متاثرین ہیں ان کو قریب ترین علاقے میں آباد کیا جائے۔ نیز اراضی کے بڑے بڑے قطعے جس طرح فوج نیوی اور دوسرے بااثر افراد اور اداروں نے ہتھیا لیے ہیں ان کو تختی سے روکا جائے اور انصاف پر مبنی شفاف انداز میں پورے علاقے کا ماسٹر پلان از سر نو تیار کیا جائے۔ ہشتم: بلوچستان میں بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے تمام علاقوں اور باسیوں کی منصفانہ اور متوازن ترقی کے تقاضے بہر صورت پورے ہونے چاہیں ۔ خصوصیت سے خشک سالی کی بنا پر جو علاقے گذشتہ آٹھ برس سے متاثر ہیں ان کی ترقی اور تلافی کا اہتمام کیا جائے۔
نہم: بلوچستان میں نظم و نسق کے روایتی انتظام کو جس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت مقامی لیوی کو حاصل ہے برقرار رکھا جائے اور اس کی ترقی کا اہتمام کیا جائے نہ کہ اس کو ختم کر کے پولیس کے نظام کو ان پر مسلط کیا جائے جو اس علاقے میں بھی نا کام ہے جہاں اس وقت اسے قدرت حاصل ہے۔ ہمارا مقصد کمیٹی کی مکمل سوچ کا احاطہ اور اس کی تمام سفارشات کا بیان نہیں۔ ہم سوچ کے اس رخ کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو پارلیمنٹ کی اس کمیٹی نے پیش کیا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچستان ہی نہیں ، تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں، عوام کے مشورے سے ہوں۔ مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے مخصوص مفادات اور فوجی اور سول مقتدر military – civil establishmene) کی گرفت کو ختم کیا جائے اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “بلوچستان سلگتے مسائل، غافل قیادت”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »