ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۱۹ء
12
اشارات
(بھارت کا انسداد دہشت گردی کا قانون ) پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ٹاڈا کے مقاصد کے لیے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے ، وہ سیاسی عسکریت ہے۔ سیاسی اور اجتماعی عسکریت میں دہشت کا ایک عنصر، جوضروری نہیں کہ کم ہو، شامل ہے لیکن یہ اصل بات نہیں ہے۔ اصل چیز جو اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں ہے۔ (ص ۲۱۱۵) بالا گوپال نے سیاسی عسکریت کو مجرمانہ دہشت گردی سے ممیز کیا ہے اور بھارتی قیادت کو
متنبہ کیا ہے کہ:
اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈ میں عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت، دیانت داری سے یہ مجھتی ہے کہ ”ہم بھارتی نہیں ہیں اور ہم کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو بھارتی سمجھیں“۔ یقیناً یہ بہت ہی نا مناسب ہے کہ اس وسیع البنیا د عوامی احساس پر انھیں سزا دی جائے۔
(ص۲۱۲۲)
موصوف کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ بھارت میں تشکیل کردہ اور نافذ شدہ قوانین جو ظالمانه، استبدادی ذہنیت کے عکاس ہیں، کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابل قبول ہیں ۔ وہ سیاسی عسکریت کا مداوا نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے۔ اس پس منظر میں اب یہ آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ کشمیر میں عسکریت ظلم کی پیداوار ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف ان کو محض بندوق کی گولی کی قوت پر زیر دست رکھنا ممکن نہیں ۔ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں ایک مشہور صحافی گوتم ناولکھا (Gautam Navalakha ) نے لکھا ہے: یہ قابلِ ذکر ہے کہ عسکریت بھارتی [ مقبوضہ ] کشمیر میں شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا جو لوگوں کے ہتھیار اُٹھانے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا، اور ایسا جب ہوا تھا جب قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر ہر جمہوری راستے کو بند کر دیا گیا۔ اختلاف کو کچلا گیا۔ مطالبات مسترد کر دیے گئے ۔ حکومت کی فوجی کارروائیاں کشمیری عوام کو مغلوب کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ فدائیوں کے حملے روکنے کے لیے سیکورٹی فورسز کچھ زیادہ نہیں کرسکتی
تحریک آزادی کشمیر
₨ 0
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۱۹ء
12
اشارات
(بھارت کا انسداد دہشت گردی کا قانون ) پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ٹاڈا کے مقاصد کے لیے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے ، وہ سیاسی عسکریت ہے۔ سیاسی اور اجتماعی عسکریت میں دہشت کا ایک عنصر، جوضروری نہیں کہ کم ہو، شامل ہے لیکن یہ اصل بات نہیں ہے۔ اصل چیز جو اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں ہے۔ (ص ۲۱۱۵) بالا گوپال نے سیاسی عسکریت کو مجرمانہ دہشت گردی سے ممیز کیا ہے اور بھارتی قیادت کو
متنبہ کیا ہے کہ:
اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈ میں عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت، دیانت داری سے یہ مجھتی ہے کہ ”ہم بھارتی نہیں ہیں اور ہم کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو بھارتی سمجھیں“۔ یقیناً یہ بہت ہی نا مناسب ہے کہ اس وسیع البنیا د عوامی احساس پر انھیں سزا دی جائے۔
(ص۲۱۲۲)
موصوف کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ بھارت میں تشکیل کردہ اور نافذ شدہ قوانین جو ظالمانه، استبدادی ذہنیت کے عکاس ہیں، کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابل قبول ہیں ۔ وہ سیاسی عسکریت کا مداوا نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے۔ اس پس منظر میں اب یہ آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ کشمیر میں عسکریت ظلم کی پیداوار ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف ان کو محض بندوق کی گولی کی قوت پر زیر دست رکھنا ممکن نہیں ۔ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں ایک مشہور صحافی گوتم ناولکھا (Gautam Navalakha ) نے لکھا ہے: یہ قابلِ ذکر ہے کہ عسکریت بھارتی [ مقبوضہ ] کشمیر میں شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا جو لوگوں کے ہتھیار اُٹھانے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا، اور ایسا جب ہوا تھا جب قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر ہر جمہوری راستے کو بند کر دیا گیا۔ اختلاف کو کچلا گیا۔ مطالبات مسترد کر دیے گئے ۔ حکومت کی فوجی کارروائیاں کشمیری عوام کو مغلوب کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ فدائیوں کے حملے روکنے کے لیے سیکورٹی فورسز کچھ زیادہ نہیں کرسکتی
Reviews
There are no reviews yet.