معاشیات کی تشکیل جدید اور مولانا مودودی کی رہنمائی

بسم الله الرحمن الرحیم
اشارات
معاشیات کی تشکیل جدید اور مولانا مودودی کی رہنمائی
اور
پروفیسر خورشید احمد
اسلامی معاشیات ایک ارتقا پذیر سماجی علم ہے۔ یہ اقتصادیات کے اصولوں ، اقدار، اداروں اور اسلامی تعلیمات کو یکجا کرنے اور نظام کار تشکیل دینے کی ایک کوشش ہے، تا کہ ایک نیا اقتصادی نظریہ فروغ پاسکے۔ اس کا مقصد عصری اقتصادی سائنس میں محض ایک شاخ یا ذیلی شعبہ کا اضافہ نہیں بلکہ جوہری بنیادوں پر علم الاقتصاد کی تعمیر وتشکیل ہے۔
مغرب میں آدم اسمتھ کے زمانے سے آج تک معاشی علوم کی تعمیر کے لیے نت نئی کوششیں اور تجربے کیے جارہے ہیں ۔ یہ کوششیں فلاحی معاشیات (Welfare Economics)، رویوں کی معاشیات (Behavioral Economics)، ارتقائی معاشیات (Evolutionary Economics)، گھریلو معاشیات (Home Economics) ، سیاسی معاشیات (Political Economy)، مارکسی معاشیات (Marxist Economics) اور ماحولیاتی معاشیات (Environmental Economics) وغیرہ جیسے علوم کی صورت میں کی گئی ہیں۔
عصری اقتصادیات کا سارا تانا بانا سائنس کو اخلاقیات اور مذہب سے الگ کرنے کے تصور کے ارد گرد بھا گیا ہے۔ اس طرح معاشیات کو سماجی سائنس، ہونے کے باوجود ایک فطری سائنس (Natural Science) کے سانچے میں ڈھالنے کی منظم کوشش کی گئی ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے نہ صرف بنیادی طور پر تجرید اور انتخاب پر انحصار کیا بلکہ رفتہ رفتہ خود کو معاشرے اور انسانیت سے بھی دُور کر لیا۔ نتیجتاً سارے ہی معاشی امور کے بارے میں فیصلہ سازی میں منڈی نے مرکزی حیثیت حاصل کر لی ۔ پوری معاشی فکر انسان کے ایک یک جہتی (unidimensional ) تصور کے گرد منڈلا ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۰۲۲
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ستمبر ۲۰۲۲ء
Λ
اشارات
رہی ہے، جس کا محرک مفاد پرستی اور منافع کا حصول بن گیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بے رحم اور سفا کا نہ صورتِ حال نے جنم لیا، کیونکہ ایک طرف مغرب نے پیداوار اور دولت کی تخلیق میں شان دار ترقی کی تو دوسری طرف ایک ایسی معیشت اور معاشرہ تخلیق کیا، جہاں دولت کی وسیع پیمانے پر غیر مساویانہ تقسیم اور بڑے پیمانے پر معاشی استحصال پایا جاتا ہے۔
اس عمل نے معاشرے کو وسائل رکھنے اور وسائل پر دسترس نہ رکھنے والوں میں تقسیم کر دیا اور یوں طبقاتی تقسیم پیدا ہوئی۔ اس کے نتیجے میں انسان، قومیں اور ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہو گئے ، جس سے انسانیت کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا۔
اقوام متحدہ کی غذا کے بارے میں چوٹی کی کانفرنس (۲۳ ستمبر ۲۰۲۱ء) کے مطابق ۲۰۲۰ء میں دنیا کے ۷۶۸ ملین افراد بھوک اور افلاس کا سامنا کر رہے تھے، جن کی تعداد میں پچھلے سال اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔ دنیا بھر میں تقریبا ۲۷۴ ملین افراد کو زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کی ہنگامی امداد کی ضرورت ہے، جب کہ دنیا کے امیر ترین ایک فی صد لوگوں کے پاس دُنیا کے تقریباً ۷ را رب لوگوں سے دوگنی زیادہ دولت ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں تین امیر ترین افراد کے پاس ۱۶۰ ملین افراد کی دولت کے برابر دولت ہے۔
امریکا اس وقت دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے ۔ دُنیا کی ۵ فی صد آبادی کے ساتھ یہ دنیا کی مجموعی پیداوار کے ۲۰ فی صد کا حامل ہے۔ اس کے باوجود خود ۲۰ فی صد امریکی خاندانوں کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ ۳۷ فی صد سیاہ فام امریکی خاندانوں کی صورتِ حال ابتر ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ امریکا میں ایک مڈل ایگزیکٹو اور اعلی کارپوریٹ ایگزیکٹو کی تنخواہوں کے درمیان فرق ۱۹۵۰ء میں ۲۰ گنا تھا لیکن اب یہ بڑھ کر ۴۰۰ گنا ہو گیا ہے۔ عالمی وبائی مرض کو رونا نے مزید تباہی مچادی ہے ۔ تقریباً ۸۹ ملین امریکی ملازمتیں کھو چکے ہیں ۔کورونا وائرس سے ۴۴۶۹ ملین سے زائد افراد بیمار ہو چکے ہیں اور سے لاکھ ۲۴ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ارب پتی، خاص طور پر وہ لوگ جو دواسازی کی صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، لالچ کے امیر اور عام انسانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ عالمی تباہی کے ان دو برسوں کے دوران ۴۵ ر ارب پتیوں کی دولت میں ۲۶۱ ٹریلین ڈالر کا
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۲۲ء
۹
اشارات
اضافہ ہوا۔ امریکی فار ٹیکس فیئرنس (AFT) اور انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز پروگرام آن ان ایکویٹی کے تجزیہ کردہ فوربس ( Forbes) کے اعداد و شمار کے مطابق ، ان کی اجتماعی دولت میں ۷۰ فی صد اضافہ ہوا۔ ۱۸ مارچ ۲۰۲۰ء کو کو رونا وبا کے آغاز میں ان کی دولت ۳ ٹریلین ڈالر تھی، جو ۱۵/اکتوبر ۲۰۲۱ ء تک بڑھ کر ۵ ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگئی۔
معاشی بحران اور علمِ معاشیات کابحران حقیقت یہ ہے کہ آج عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشیات کی سائنس دونوں ہی بحران کا شکار ہیں ۔ پروفیسر ابھیجیت ولی بیرجی (Abhijit . Banerjee) اور ایستھرڈ فلو ( Esther Dufly) نے اپنی کتاب: Good Economics for Hard Times (۲۰۱۹ء) میں عصری معاشیات پر نہایت جامع تنقید کی ہے۔ انھوں نے اچھی معاشیات اور فاسد معاشیات ( Bad Economics) کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے ، اس عدم اعتماد پر افسوس کا اظہار کیا ہے، جو عام آدمی معاشیات کے بارے میں رکھتا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح معاشیات اور اخلاقیات کے درمیان علیحدگی ایک ایسے معاشرے کی پیدائش کا باعث بنی ہے، جس میں انصاف اور اس کے تمام ارکان کی فلاح و بہبود کا فقدان ہے۔ ان مصنفین کے مطابق ایسا اس وجہ سے ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر فاسد معاشیات
کا دور دورہ ہے۔
مصنفین، مغرب میں معاشیات کے ناقص نقطہ آغاز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے معاشیات کی ناکامی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : ” معاشی ماہرین کا رجحان فلاح و بہبود کے تصور کو اپنانے کی طرف ہے، جو اکثر بہت محدود ہوتا ہے، آمدنی یا مواد کی کھپت کے کچھ حصے کی حد تک۔ پھر ہم سب کو ایک مکمل زندگی گزارنے کے لیے برادری کے احترام، خاندان اور دوستوں کی راحت، وقار، خوشی اور سہل زندگی سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے ۔ صرف آمدنی پر توجہ ایک آسان راستہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسخ کرنے والی عینک ہے، جس نے اکثر ذہین ماہرین اقتصادیات کو گمراہ کیا ہے، پالیسی سازوں کو غلط فیصلوں اور ہم میں سے اکثر پر غلط تصورات کو مسلط کیا ہے ۔ جدید معاشیات کے بارے میں ان کی تنقید بہت باوزن ہے: ” فاسد معاشیات نے
•
اشارات
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ستمبر ۲۰۲۲ء معیشت کی تمام چابیاں اور وسائل امیروں کے حوالے کر دیئے، پھر عوام کے لیے فلاحی پروگراموں کو کم کرنے پر زور دیا۔ اس تصور کو غالب کر دیا کہ ریاست کمزور اور بدعنوان ہے اور غریب شست ہیں۔ یہ وہ حکمت عملی تھی، جس نے عدم مساوات اور عوامی سطح پر جمود اور تلخی کو جنم دیا، جس سے تصادم کی فضا رونما ہوئی ہے۔ نظریں خیرہ کرنے والی اس معیشت نے ہمیں بتایا کہ تجارت سب کے لیے اچھی ہے اور تیز تر ترقی ہی انسانیت کی معراج ہے۔ اندھی معیشت نے پوری دنیا میں عدم مساوات کے خوفناک دھما کے اور اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے سماجی مسائل، اور سر پر کھڑی ماحولیاتی تباہی کو نظرانداز کر دیا“۔ (Good Economics for Hard Times ، پینگوئن بکس، برطانیہ، ۲۰۱۹ء) اچھی معاشیات کی تلاش وقت کی پکار ہے۔ اسلامی معاشیات کو ترقی دینے کی کوشش اس سمت میں ایک مثبت کردار ہے۔ اس سلسلے میں جن اہل علم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی [ ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء] اور پھر باقر الصدر [ یکم مارچ ۱۹۳۵ ۹ را پریل ۱۹۸۰ء ] کا نام نمایاں ہے۔ مولانا مودودی نے نہ صرف علم معیشت کے تمام دائروں کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کو واضح الفاظ میں بیان کیا، اور ان کی علمی اور عملی فوقیت پر موثر دلائل دیے، بلکہ پورے معاشی مسئلے کو دیکھنے اور حل کرنے کے لیے جس نے نقطۂ نظر کی ضرورت ہے، اسے بڑی گرفت کے ساتھ واضح کیا۔ اس طرح معاشیات کے علم کی تشکیل جدید کی تحریک، بیسویں صدی کی ایک موثر تحریک بن گئی۔
اسلامی معاشیات کی اساس
معاشی حوالوں سے سید مودودی کی تحریریں پانچ بڑے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں: اولین اور اہم ترین تو سید مودودی کا معیشت کا وہ تصور ہے جوانسان دوست، عادلانہ
اور ثمر بار ہے اور انسانی معاشرے کے تمام ارکان کی ضرورت اور فلاح کو یقینی بناتا ہے۔ اسلامی معاشیات پر ان کی تحریروں کی اصل بنیاد، اخلاقی اقدار، سماجی انصاف اور معاشی توازن ہیں۔ یہ سید مودودی کا منفرد کارنامہ ہے۔ امر واقعہ ہے کہ کسی بھی شعبہ علم کی روح اور اس کا جو ہر اس کے مجموعی تصور ( vision) میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے نہ صرف پوری وضاحت سے اسلامی معیشت اور
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ستمبر ۲۰۲۲ء
اشارات
معاشرت کا تصور بیان کیا ہے، بلکہ تفصیل سے یہ بھی بتایا ہے کہ اس تصور کے وہ کون سے امتیازات ہیں، جو روایتی معاشیات اور اس کی مختلف شکلوں سے اسے مختلف بناتے ہوئے امتیازی مقام عطا کرتے ہیں ۔ معاشی تجزیے کو معیشت، معاشرے اور تہذیب کے جامع تصور کی بنیاد پر استوار کرنے کی مناسبت سے ان کی تجاویز فی الحقیقت ذہن کشا ہیں۔
ہمارے نزدیک تصویر اور تجزیے میں پیدا کردہ تفریق ہی روایتی معاشیات کی ناکامی کی اصل وجہ ہے۔ اسی لیے سید مودودی نے زور دے کر یہ سمجھایا ہے کہ اسلام کے تصور حیات ، اخلاقی ضابطے اور انفرادی و اجتماعی تنظیم کا، معاشی نظریے، معاشی زندگی اور فیصلہ سازی سے لازمی ربط ہے۔ اگر اس میں سے کوئی ایک اکائی غائب ہے یا نظر انداز ہے، تو اس کو اپنی جگہ فعال اور بحال ہونا چاہیے ۔ مراد یہ ہے کہ معاشیات کی اسلامی تشکیل کی نمایاں ترین خصوصیت معاشی تجزیے اور پالیسی سازی میں بھی اخلاقی اقدار کی کارفرمائی کا کلیدی کردار ہے۔
مولانا مودودی نے معاشیات کے اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کیسے ایک انسان دوست معیشت، مربوط طرز فکر کے ذریعے معاشرے کے تمام افراد کے لیے اچھی زندگی کے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔ ایک صحت مند معاشیات وہ ہوگی ، جس میں معاشیات اور اخلاقیات کا ناتا ٹوٹا ہوا نہ ہو ۔ مولانا نے معاشی زندگی اور اس کی انجام دہی کے مختلف پہلوؤں پر اس مربوط طرز فکر کے اثرات کو نمایاں کیا ہے۔
ثانیاً: مولانا مودودی نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور معاشرے کے باہم تعلق کو واضح کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے عمرانی علوم کے ہر شعبہ علم کو خود اپنے ہی دائرے میں محدود کرتے ہوئے مکمل سمجھنے کے فاسد طرز فکر کے برعکس ، مختلف شعبہ ہائے علم کے باہم ربط پر مبنی طرز فکر کی ضرورت پر زور دیا۔ مولانا مودودی بر ملا کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی کا ہر پہلو دیگر تمام پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بلا شبہ تخصص کا ایک کردار موجود ہے، لیکن زندگی کو ایسے جدا جدا خانوں میں تقسیم کر دینا غیر حقیقت پسندانہ اور انتہائی نقصان دہ ہے، جن میں ہر شعبہ علم انسانی زندگی کے کسی پہلو کو ایک الگ دنیا میں زیر مطالعہ لاتا ہو۔ گذشتہ دوصدیوں کے دوران
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲
۲۰۲۲ء
۱۲
اشارات
معاشیات کو جس طرح ایک جدا اور اپنے آپ میں مکمل علم کے طور پر پروان چڑھایا گیا ہے، اس نے ایسے یک رنے علم کی تشکیل کی ہے، جس کی ساری توجہ ذاتی مفاد، نفع اندوزی اور مال جمع کرنے کی دوڑ میں ایک نہ ختم ہونے والے مقابلے پر ہے ۔
اس مفاد پرستانہ ذوق شکم وزر کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی مفاد کا حصول ہی تمام انسانی کوششوں کا مدار ٹھیرا ۔ دروغ گوئی ، جعل سازی ، اشتہار بازی اور نا انصافی کا بازار گرم ہوا، جو آج کے معاشی حقائق ہیں۔ معاشرے کا مفہوم مجرد معیشت سمجھ لیا گیا اور معیشت کو منڈی تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آغاز تو مادی ضروریات کے لیے اخلاقی فلسفے کے پھیلاؤ سے ہوا تھا، لیکن اس نے محدود ہوتے ہوتے مالی فوائد و نقصانات کی حساب بندی کی شکل اختیار کر لی۔ پھر معاشیات کا تعلق مذہب اور اخلاقیات سے توڑنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اسے رفتہ رفتہ فلسفے، سیاسیات، عمرانیات ، نفسیات، تاریخ سمیت دیگر شعبہ ہائے علم سے بھی جدا کر دیا گیا ۔ اگر انسانی مسائل کا حل واقعی درکار ہے تو زندگی سے متعلق تمام شعبہ ہائے فکر سے معاشیات کے تعلق کو بحال کر کے مضبوط کرنا ہوگا ۔ اس نئے آغاز کے لیے مختلف شعبہ ہائے علم سے استفادہ ناگزیر ہے۔
. ثالثاً : فعالیت (Effeciency) ہے۔ یہ گذشتہ برسوں کے دوران ماہرین معیشت کی توجہ کا مرکز ہے۔ وسائل کا با شمر استعمال ، معاشی تجزیے اور فیصلہ سازی میں حقیقی ہدف بن چکا ہے۔ لیکن اس استعمال کے دوران ایک اور ناتا بھی ٹوٹ گیا ہے، یعنی شمر انگیزی کا ناتا عدل و انصاف سے کٹ گیا، جو معیشت کے لیے بھی اور معاشرت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ اس میں مولانا مودودی کا زور اس پہلو پر ہے کہ مرکزی ہدف، عدل کو رہنا چاہیے ۔ اس طرح مطلوب شمر انگیزی وہ آلہ ہے ، جس کے ذریعے انصاف اور فلاح کا حصول ممکن ہو گا، لیکن یہ بجائے خود کوئی ہدف نہیں ہے۔ اس ٹوٹے ہوئے تعلق کو بھی جوڑنا ہوگا تا کہ ذاتی مفاد کے ساتھ سماجی ذمہ داری بھی پیش نظر رہے ۔ دولت کا حصول اس کے مؤثر استعمال اور مزید وسائل کی تخلیق کے ساتھ جڑ جائے۔ دولت کے حصول اور صرف میں حلال اور حرام ، اور مطلوب اور نامطلوب میں فرق کیا جائے ، اور محض ہر فرد ذاتی نفع کو بڑھوتری ( maximize) دے کر ساری معاشی جدو جہد کا مرکز ومحور نہ بن جائے۔ مغرب کے معاشی ترقی کے کردار اور طبقاتی وجود کے مقابلے میں پورے معاشرے پر ہمہ جہت
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲
۲۰۲۲ء
الله
اشارات
معاشی ترقی (Inclusive development) کے نتیجے میں وسائل اور مواقع کی عادلانہ تقسیم اور اجتماعی فلاح کا حصول ممکن ہو۔ محض نفع اندوزی اور وہ بھی بڑی حد تک سرمایہ دار طبقے کی توکوئی اعلیٰ مقصد نہیں ہو سکتا۔ اسے انصاف، بھلائی ، تحفظ اور عوامی بہبود کے مقاصد کے ذریعے اعتدال بخشنا ہوگا۔ اگر چہ منڈی (مارکیٹ ) کی حرکیات، فیصلہ سازی کے لیے مناسب بنیاد ہیں، لیکن خود منڈی کو واضح طور پر طے شدہ اخلاقی، قانونی اور سماجی دائروں میں کام کرنا چاہیے۔ انسانوں کا اپنا مرکزی کردار ہے، لیکن اداروں کا بھی اپنا خاص مقام ہے، جو بعض صورتوں میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ عمل تخلیق میں مقابلہ آرائی تو لازم ہے، لیکن معیشت و معاشرت کی حرکیات میں باہم تعاون اور درد مندی بھی اہم تر ہے۔ ریاست خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی اور نہ اسے لاتعلق ہونا چاہیے۔ اسے تنظیم اور اصلاح کا کام کرتے رہنا چاہیے، تا کہ معاشرتی اہداف کا حصول ممکن ہو۔ سید مودودی کہتے ہیں کہ تمام دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ریاست اور افراد معاشرہ کو بھی اپنا اپنا مثبت کردارادا کرنا ہوگا ، تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ماجی ترقی ، معاشرے کے تمام ارکان کے لیے عدل و فلاح کی ضامن ہو۔
. رابعاً: یہ امتیاز مولانا مودودی کو حاصل ہے کہ انھوں نے بعض بنیادی اسلامی تصورات اور افکار کی، دور جدید کے حالات اور مسائل سے مناسبت کو نمایاں طور پر پیش کیا۔ انھوں نے گذشتہ دوصدیوں سے رائج معاشی نظریات اور نظاموں کا تنقیدی مطالعہ کرتے ہوئے ، معاشی سرگرمی کے لیے اسلام کے عطا کردہ اہداف کو ٹھوس انداز میں بیان کیا۔ اسلامی نظام معیشت کا ڈھانچا اور تفصیلات فراہم کرتے ہوئے انھوں نے موجودہ تناظر میں اسلامی نظام معیشت کو اوّلا مسلم ممالک میں اور اس کے بعد ممکنہ طور پر دوسروں کے لیے بطور ایک مثال متعارف کرانے کے امکان اور نتائج پر بحث کی ہے۔ اس مقصد کے لیے مولانا مودودی نے قرآن وسنت سے براہ راست رہنمائی حاصل کرنے ، فقہ کے ذخیرے میں موجود تفصیل کا از سر نو جائزہ لینے، مقاصد شریعت پر غور کر کے جدید افکار و خیالات پروان چڑھانے اور موجودہ معاشی احکامات اور تعلیمات کی ضابطہ بندی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ . خامساً: سید مودودی نے وضاحت سے یہ اصول اُجاگر کیا ہے کہ دولت کا معیشت میں
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۲۲ء
۱۴
اشارات
کردار صرف ایک وسیلے کا ہے، نہ کہ بجائے خود ایک ہدف اور اصل مقصود کا ۔ معاشی سرگرمی کا مقصد ہمیشہ حقیقی وسائل کی ترقی ہونا چاہیے، یعنی اشیا اور خدمات کی تیاری، ان کی عادلانہ تقسیم اور
معاشرے میں فلاح وسکون کے فروغ کے لیے ان کا بہتر استعمال پیش نظر ہونا چاہیے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ کاج کا ایک بڑا المیہ مالی معیشت اور حقیقی معیشت میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ آج کی دنیا حقیقی اور معنوی رقوم کے سیلاب کی لپیٹ میں ہے جس میں اضافی قدر پیدا کرنے کا ٹھوس عمل ، عالمی انسانی برادری کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسی خود مختار فضا قائم کر دی گئی ہے، جس میں دولت کو دولت پہنچتی ہے، لیکن حقیقی معیشت میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی ۔ اُدھار کو حقیقی دولت پیدا کرنے کے لیے صرف استعمال ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ خود ایک الگ معیشت بن گئی ہے۔ گھروں، کاروباری اداروں اور ریاستوں سمیت ہر سطح پر گویا سودی قرض کے پھیلاؤ کی ایک دھماکا خیز صورت حال ہے، جس سے پیدا ہونے والے بلبلے پھیل بھی رہے ہیں اور بڑھ بھی رہے ہیں، لیکن مصنوعات اور خدمات کی حقیقی فراہمی ، جو انسانی ضروریات اور سہولیات کا باعث بنیں، ان میں اضافہ نہیں ہو رہا۔
مولانا مودودی اسلامی معاشیات کے چلن سے اقتصادی میدان میں حقیقی وسائل کے درمیان ربط کو بحال کرنے کی دعوت پیش کرتے ہیں۔ سابق امریکی صدر اوباما بھی ایک تقریر میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ دنیا کو معاشی انجینئر نگ سے زیادہ حقیقی انجینئر نگ کی ضرورت ہے۔ دنیا کی معیشت کی موجودہ صورت حال سخت تشویش ناک ہے، جس میں بیرونی زرمبادلہ کی
روزانه خریدوفروخت اشیا و خدمات کی حقیقی بین الاقوامی تجارت سے تقریباً پچاس گنا زیادہ ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی معاشیات کی بنیادی خصوصیت، حقیقی معیشت اور اثاثہ جات کی پیداوار کا باہم تعلق ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے ذمہ دار عوامل میں ربا (سود)، میسر ( تخمینے کی بنا پر خرید و فروخت) اور غرر ( تلون اور ابہام ) شامل ہیں ۔ اسلام ان سب کو حرام قرار دیتا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ ( ۱۱۸F) کے ایک قرطاس عمل (ایکشن پلان ) میں یہ دلچسپ تبصرہ موجود ہے: ”اسلامی بنکوں کی کار کردگی کا عالمی سطح پر روایتی بنکوں سے موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں معاشی بحران کے نتیجے میں روایتی بنکوں کو جو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے،
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ستمبر ۲۰۲۲ء
۱۵
اشارات
اس کے پیش نظر اسلامی بنکوں کی کار کردگی بہتر رہی ہے”۔
اسلامی معاشیات پر نظری اور عملی حوالوں سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا اثر کم از کم تین سمتوں میں واضح نظر آتا ہے:
اول: یہ کہ انھوں نے نہ صرف قرآن اور سنت کی معاشی تعلیمات کو پوری وضاحت اور اس مضمون پر پوری گرفت کے ساتھ بیان کیا بلکہ اسلامی معاشیات کی ایک الگ شعبہ علم کے طور پر تشکیل کا عملی آغاز بھی کیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے معاشیات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق میں گذشتہ پچاس برس کے دوران نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس مقصد کے لیے متعدد تحقیقی ادارے قائم ہوئے ہیں۔ درجنوں بین الاقوامی کانفرنسوں اور لاتعداد سیمی ناروں اور مباحثوں کے ذریعے اس جدید اور اُبھرتے ہوئے شعبہ علم کو مختلف پہلوؤں سے پروان چڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مسلم دنیا میں الگ سے اور اس سے باہر ڈیڑھ سو سے زائد یونی ورسٹیوں
میں اسلامی معاشیات کو ایک تدریسی شعبہ علم کے طور پر الگ سے شامل کیا جاچکا ہے۔ اس پیش قدمی میں سید مودودی کا کر دار نمایاں ہے۔
دوم : سید کہ مولانا مودودی محض ایک کتابی مفکر نہ تھے۔ اسلام، تبدیلی چاہتا ہے اور مولانا مودودی نے مرد و خواتین کی روحانی اور اخلاقی قلب ماہیت کے لیے اور اسلام کے طے کردہ معیارات، اقدار اور اصولوں پر مبنی ایک نئے سماجی نظام کے قیام کے لیے عالمی تحریک کی تشکیل اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا مودودی کا اصل مقصد اسلامی نظام کو اس کی مکمل شکل میں قائم کرنا تھا۔ گویا ان کا پیغام یہ تھا کہ اسلامی معیشت ، سماجی تبدیلی کے بغیر نمونہیں پاسکتی۔ لہذا، اسلامی معاشیات کے تین پہلو ایک دوسرے سے وابستہ بلکہ باہم پیوست ہیں، یعنی: اس کا اخلاقی و معیاری
پہلو، ایجابی یا تجزیاتی پہلو، اور معیشت و معاشرت میں تبدیلی کے لیے اس کا تغییراتی کردار۔ اسلامی معاشیات کو عملی شکل دینے کے لیے مولانا مودودی نے فرد اور معاشرے کے طور پر بھی اور سماج اور ریاست کی سطح پر بھی مسلمانوں کی معاشی زندگی کی تشکیل نو پر بھی مسلسل زور دیا۔ اسلامی معیشت، بنکاری اور انشورنس کے لیے عالمی تحریک کا ظہور پذیر ہونا پیش نظر رہنا چاہیے۔ دیگر حوالوں سے ہونے والی پیش رفت میں زکوۃ، صدقات اور انفاق سے متعلق تعلیمات کو باقاعدہ
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۲۲ء
۱۶
اشارات
شکل دینے کے لیے تنظیموں کا قیام اہم ہے۔ یہ پیش رفت اسلام کی عصری تشکیل کے معاشی پہلو کی آئینہ دار ہے۔ تاہم ، مولانا مودودی زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ ساری کوششیں ایک بڑی تبدیلی،
یعنی سماجی، معاشی اور سیاسی منظر نامے کی جامع تبدیلی کے لیے محض ایک نقطۂ آغاز ہیں۔ پھر مولانا مودودی کا اثر پالیسی سازی کے میدان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے معاشی فیصلہ سازی کے ہر مرحلے پر فرد، کاروباری اداروں ، معاشرے اور ریاست کے حوالے سے پورے منظر نامے کو نئے سرے سے تشکیل دینے پر زور دیا ہے۔ ان سب کا مقصد ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہونا چاہیے۔ مسلم ممالک کے وہ دساتیر جو مولانا مودودی کے اصل عرصه تصنیف وتحقیق سے قبل لکھے گئے تھے، ان کا موازنہ اسلامی احیا کی تحریکوں کے زیر اثر بننے والے دساتیر سے کیا جائے تو حیرت انگیز مشاہدات سامنے آئیں گے۔ اگر صرف تین مثالیں مقصود ہوں تو پاکستان، ایران اور سوڈان کے دساتیر میں ریاستی پالیسی کے لیے وضع کردہ رہنما اصول، اسلام کے کاجی و معاشرتی معیارات اور احکام پر مبنی اس نئی معاشی فکر کے اثرات واضح طور پر
دیکھے جا سکتے ہیں۔
زکوۃ معاشی کفالت کا نظام
زکوۃ اور اس کے انتظام کی صورت جو اسلام نے تجویز کی ہے، وہ یہ ہے کہ اسے [ امت مسلمہ] کے مشترکہ خزانہ میں جمع کیا جائے ، اور خزانہ ان تمام لوگوں کی ضروریات کا کفیل بن جائے جو مدد کے حاجت مند ہیں۔ یہ دراصل سو سائٹی کے لیے انشورنس کی بہترین صورت ہے، اور ان تمام خرابیوں کا استیصال کرتی ہے جو اجتماعی امداد و معاونت کا کوئی با قاعدہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں …..
بیت المال ہر وقت آپ کی پشت پر ایک مددگار کی حیثیت سے موجود ہے۔ آپ کو فکر فردا کی ضرورت نہیں۔ جب آپ حاجت مند ہوں بیت المال میں جائیے اور اپنا حق لے آئیے، پھر بنک ڈیپازٹ اور انشورنس پالیسی کی کیا ضرورت؟ آپ اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر باطمینان تمام دنیا سے رخصت ہو سکتے ہیں۔ آپ کے پیچھے جماعت کا خزانہ اُن کا کفیل ہے۔ بیماری، بڑھاپے، آفاتِ ارضی و سماوی، ہر صورت حال میں بیت المال وہ دائمی مددگار ہے جس کی طرف آپ رجوع کر سکتے ہیں۔ سرمایہ دار آپ کو مجبور نہیں کر سکتا کہ آپ اُسی کی شرائط پر کام کرنا قبول کریں۔ بیت المال کی موجودگی میں آپ کے لیے فاقے اور برہنگی اور بے سائیگی کا کوئی خطرہ نہیں۔ پھر بیت المال سوسائٹی کے تمام اُن لوگوں کو اشیائے ضرورت خریدنے کے قابل بنادیتا ہے جو دولت پیدا کرنے کے بالکل قابل نہ ہوں یا کم پیدا کر رہے ہوں ۔ اس طرح مال کی تیاری اور اس کی کھپت کا توازن قائم رہتا ہے …. اگر آزاد تحقیق کی نگاہ سے اسلام کے معاشی نظام کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بھی معقول و منصف مزاج آدمی ایسا نہ ملے گا جو انسان کی معاشی فلاح کے لیے اس نظام کو سب سے زیادہ مفید، صحیح اور معقول تسلیم نہ کرے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی
عطیہ اشتہار : صوفی بابا
(انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل )