تعلیم میں بیرونی معاونت اور حقیقت بسندی

 0

تمام مالی، معدنی، زرعی، فنی اور افرادی وسائل کو استعمال کر سکیں، جو اللہ تعالٰی نے ہمیں اور انسانیت کو دیے ہیں۔
اسی طرح میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس انقلاب معکوس کو ذہنوں میں تازہ رکھیں جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ برطانیہ کا اقتدار جب اس ملک پر مسلط ہوا تو اس وقت مسلمان رو به زوال تھے۔ تقریباً پونے دو سو سال کا یہ عہد زوال تھا، جس کی وجہ سے برطانیہ یہاں پر حکمران رہا۔ ورنہ اس سے پہلے ہم اس علاقے میں ایک ریجنل پاور تھے۔ پہلی صدی ہجری سے لے کر بارہویں صدی تک مسلمان ایک عالمی قوت تھے۔ اٹھارہویں صدی تک بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یونیورسل لٹریسی (عمومی خواندگی) تھی۔ مسلمانوں کا کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جہاں مسجد اور مدرسہ موجود نہ ہو۔ بیرونی دنیا کے سیاح بھی اس بات کا برملا اعتراف کرتے تھے اور برطانوی سامراج کے اہل کار بھی یہی کہتے اور لکھتے تھے کہ مسلمانوں میں یونیورسل لٹریسی پائی جاتی ہے۔ پھر آخر یہ کیسے ہوا کہ برطانوی اقتدار کے پونے دو سو سال کے دوران میں ہمارا خواندگی کا تناسب سو فی صد سے پندرہ فیصد پر آ گرا۔ در حقیقت بیرونی حکمرانوں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ : مسلمانوں کو محکوم بنانے کا اصل راستہ محض سیاسی اعتبار سے ان کی فوجوں کو شکست دینا نہیں، بلکہ ان کی قوت کا اصل سر چشمہ ان کا اپنے دین سے تعلق ہے اور اس کے لیے تعلیم ان کا ہتھیار ہے، اس لیے ان کو اس سے محروم کر دیا
جائے۔
یہی وجہ تھی کہ انھوں نے دو بہت بڑے بنیادی اقدام کیے : ا تعلیمی نظام کو چلانے کے لیے وقف مسلمانوں کا وہ ادارہ تھا جس کے ذریعے، مسلمانوں نے بارہ سو سال تک سرکار سے کوئی مدد لیے بغیر یونیورسل لٹریسی ہی نہیں بلکہ یونیورسل ایجوکیشن کا نظام قائم کیا۔ ایسا نظام تعلیم جس میں استاد کو آزادی میسر تھی اور امیر و غریب کو تعلیم کے یکساں مواقع بھی حاصل تھے۔ انگریزی استعمار نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ “وقف” کے اس نظام کو ختم کر ڈالا۔ ایک درجن کے قریب
تعلیم، بیرونی معاونت اور حقیقت پسندی
۴۳۳

SKU: 6849817303b2c8619f33ca80 Categories: , ,

تمام مالی، معدنی، زرعی، فنی اور افرادی وسائل کو استعمال کر سکیں، جو اللہ تعالٰی نے ہمیں اور انسانیت کو دیے ہیں۔
اسی طرح میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس انقلاب معکوس کو ذہنوں میں تازہ رکھیں جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ برطانیہ کا اقتدار جب اس ملک پر مسلط ہوا تو اس وقت مسلمان رو به زوال تھے۔ تقریباً پونے دو سو سال کا یہ عہد زوال تھا، جس کی وجہ سے برطانیہ یہاں پر حکمران رہا۔ ورنہ اس سے پہلے ہم اس علاقے میں ایک ریجنل پاور تھے۔ پہلی صدی ہجری سے لے کر بارہویں صدی تک مسلمان ایک عالمی قوت تھے۔ اٹھارہویں صدی تک بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یونیورسل لٹریسی (عمومی خواندگی) تھی۔ مسلمانوں کا کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جہاں مسجد اور مدرسہ موجود نہ ہو۔ بیرونی دنیا کے سیاح بھی اس بات کا برملا اعتراف کرتے تھے اور برطانوی سامراج کے اہل کار بھی یہی کہتے اور لکھتے تھے کہ مسلمانوں میں یونیورسل لٹریسی پائی جاتی ہے۔ پھر آخر یہ کیسے ہوا کہ برطانوی اقتدار کے پونے دو سو سال کے دوران میں ہمارا خواندگی کا تناسب سو فی صد سے پندرہ فیصد پر آ گرا۔ در حقیقت بیرونی حکمرانوں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ : مسلمانوں کو محکوم بنانے کا اصل راستہ محض سیاسی اعتبار سے ان کی فوجوں کو شکست دینا نہیں، بلکہ ان کی قوت کا اصل سر چشمہ ان کا اپنے دین سے تعلق ہے اور اس کے لیے تعلیم ان کا ہتھیار ہے، اس لیے ان کو اس سے محروم کر دیا
جائے۔
یہی وجہ تھی کہ انھوں نے دو بہت بڑے بنیادی اقدام کیے : ا تعلیمی نظام کو چلانے کے لیے وقف مسلمانوں کا وہ ادارہ تھا جس کے ذریعے، مسلمانوں نے بارہ سو سال تک سرکار سے کوئی مدد لیے بغیر یونیورسل لٹریسی ہی نہیں بلکہ یونیورسل ایجوکیشن کا نظام قائم کیا۔ ایسا نظام تعلیم جس میں استاد کو آزادی میسر تھی اور امیر و غریب کو تعلیم کے یکساں مواقع بھی حاصل تھے۔ انگریزی استعمار نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ “وقف” کے اس نظام کو ختم کر ڈالا۔ ایک درجن کے قریب
تعلیم، بیرونی معاونت اور حقیقت پسندی
۴۳۳

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “تعلیم میں بیرونی معاونت اور حقیقت بسندی”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »