تھرپار کر کا المیہ

 0

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، اپریل ۲۰۱۴ء
۲۱
شذرات
یہ وہ حکمران فرما رہے ہیں جو روٹی، کپڑا اور مکان” کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے اور غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے کے سب سے بڑے دعوے دار تھے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے پالیسی سازی کا بحران، بدترین حکمرانی اور کرپشن کے ساتھ ارباب اقتدار کی بے حسی اور غیر سنجیدگی نے بھی حالات کو بگاڑنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اصل مسئلہ خوراک کی عدم فراہمی نہیں، بدترین طرز حکمرانی ہے۔ ریلیف کی فوری کوششوں کے ساتھ واضح پالیسی کی تشکیل اور انتظامی مشینری اور خدمات کی فراہمی ، خصوصیت سے پہنچانے کے نظام کی اصلاح از بس ضروری ہے۔ محض فنڈز کی فراہمی سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ حکومت کی مشینری کی نا اہلی اور ناکامی کے ساتھ اگر ایک نظر غیر حکومتی خدمتی اداروں کی کارکردگی پر ڈالی جائے تو فرق صاف نظر آتا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن اپنے محدود وسائل کے ساتھ ۱۹۹۸ء سے اس علاقے میں پانی کی فراہمی، تعلیم اور ادویات کی فراہمی کے لیے ایک جامع منصوبے کے تحت کام کر رہی ہے۔ اس عرصے میں ۵۰۰ سے زیادہ کنویں کھودے گئے ہیں، جسے زم زم پرا جیکٹ کا عنوان دیا گیا ہے اور ہزاروں افراد کو پینے کا صاف پانی میسر آیا ہے۔ حالیہ بحران کے موقعے پر بھی الخدمت فاؤنڈیشن مؤثر خدمات انجام دے رہی ہے۔ اسی طرح جماعت الدعوۃ، پیار یلیف، ایدھی فاؤنڈیشن اور خود فوج کے دستوں نے بڑی مفید خدمات انجام دی ہیں۔ اگر یہ ادارے انسانی جانوں کو بچانے اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اتنا کچھ کر سکتے ہیں، تو پھر حکومت کیوں اپنے اربوں روپے کے ترقیاتی پروگراموں اور ہزاروں افسروں اور کارندوں کے لاؤلشکر کے باوجود کوئی مؤثر خدمت انجام نہیں دے سکی ؟ وقت آگیا ہے کہ جن کے ہاتھوں میں حکومت کی زمام کار ہے اور جو قوم کے وسائل کے استعمال پر مامور ہیں، ان کا پورا پورا احتساب کیا جائے اور قوم کے وسائل قوم کی بہبود کے لیے استعمال کیے جانے کا اہتمام کیا جائے۔

SKU: 6849817303b2c8619f33cc10 Categories: , ,

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، اپریل ۲۰۱۴ء
۲۱
شذرات
یہ وہ حکمران فرما رہے ہیں جو روٹی، کپڑا اور مکان” کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے اور غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے کے سب سے بڑے دعوے دار تھے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے پالیسی سازی کا بحران، بدترین حکمرانی اور کرپشن کے ساتھ ارباب اقتدار کی بے حسی اور غیر سنجیدگی نے بھی حالات کو بگاڑنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اصل مسئلہ خوراک کی عدم فراہمی نہیں، بدترین طرز حکمرانی ہے۔ ریلیف کی فوری کوششوں کے ساتھ واضح پالیسی کی تشکیل اور انتظامی مشینری اور خدمات کی فراہمی ، خصوصیت سے پہنچانے کے نظام کی اصلاح از بس ضروری ہے۔ محض فنڈز کی فراہمی سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ حکومت کی مشینری کی نا اہلی اور ناکامی کے ساتھ اگر ایک نظر غیر حکومتی خدمتی اداروں کی کارکردگی پر ڈالی جائے تو فرق صاف نظر آتا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن اپنے محدود وسائل کے ساتھ ۱۹۹۸ء سے اس علاقے میں پانی کی فراہمی، تعلیم اور ادویات کی فراہمی کے لیے ایک جامع منصوبے کے تحت کام کر رہی ہے۔ اس عرصے میں ۵۰۰ سے زیادہ کنویں کھودے گئے ہیں، جسے زم زم پرا جیکٹ کا عنوان دیا گیا ہے اور ہزاروں افراد کو پینے کا صاف پانی میسر آیا ہے۔ حالیہ بحران کے موقعے پر بھی الخدمت فاؤنڈیشن مؤثر خدمات انجام دے رہی ہے۔ اسی طرح جماعت الدعوۃ، پیار یلیف، ایدھی فاؤنڈیشن اور خود فوج کے دستوں نے بڑی مفید خدمات انجام دی ہیں۔ اگر یہ ادارے انسانی جانوں کو بچانے اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اتنا کچھ کر سکتے ہیں، تو پھر حکومت کیوں اپنے اربوں روپے کے ترقیاتی پروگراموں اور ہزاروں افسروں اور کارندوں کے لاؤلشکر کے باوجود کوئی مؤثر خدمت انجام نہیں دے سکی ؟ وقت آگیا ہے کہ جن کے ہاتھوں میں حکومت کی زمام کار ہے اور جو قوم کے وسائل کے استعمال پر مامور ہیں، ان کا پورا پورا احتساب کیا جائے اور قوم کے وسائل قوم کی بہبود کے لیے استعمال کیے جانے کا اہتمام کیا جائے۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “تھرپار کر کا المیہ”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »