جموں و کشمیر سے دست برداری

 0

اور ہم اس جنگ میں ان کے حلیف اور شریک ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینی تہذیبی، معاشی، سیاسی، جغرافیائی ہر اعتبار سے ہمارا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جدوجہد میں جموں و کشمیر کے مسلمان برابر کے شریک تھے اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے اجتماع میں انھوں نے قائم ہونے والے پاکستان کے حصے کے طور پر شرکت کی تھی اور ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام سے قبل انھوں نے اور ان کے منتخب نمائندوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا اور اس اعلان کے تحت انھوں نے لڑ کر جموں و کشمیر کا ایک حصہ عملاً آزاد کروایا جو آج آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی شکل میں پاکستان سے متعلق ہے جسے ہم آزاد کشمیر کی حکومت کہتے ہیں۔ یہ محض ان علاقوں کی حکومت نہیں جو بھارت کے چنگل سے ۴۹ – ۱۹۴۷ء میں آزاد کرا لیے گئے تھے بلکہ در اصل پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے جس کے تصور سے اب جنرل صاحب اور ان کے حواری تو بہ کر رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے کشمیر بنے گا پاکستان اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کبھی نہیں کہا۔ یہ کہ اٹوٹ انگ ایک بھارتی واہمہ ہے اور ہم نے بھارت کے قبضے کو ہر سطح ر چیلنج کیا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر؟ کیا یہ بنیاد اس کے سوا کوئی اور تھی کہ ہندستان کی تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی بنا پر جموں و کشمیر پاکستان کا حق ہے۔ پاکستان کے الفاظ تک میں ‘ک’ کا تعلق کشمیر سے ہے قرار داد پاکستان میں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ الحاق پاکستان کی قرارداد سے پاکستان اور کشمیر ایک جسم بن چکے ہیں اور قائد اعظم نے اسی بنیاد پر اسے پاکستان کی شہ رگ کہا۔ اس بنیاد پر جہاد آزادی کا آغاز ڈوگرہ راج کے خلاف ہوا جو آج تک جاری ہے۔ جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے کبھی اپنے کو پاکستان سے جدا تصور نہیں کیا۔ ان کی گھڑیاں پاکستان کی گھڑیوں کے مطابق وقت بتاتی ہیں، پاکستان کی ہر خوشی پر وہ خوش ہر کامیابی پر وہ نازاں اور ہر مشکل پر وہ دل گرفتہ ہیں۔ انھوں نے بھارت کے تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا اور بڑی سے بڑی قربانی دے کر اس کے استبداد کا مقابلہ کیا۔ ۱۴ اگست کو وہ یوم آزادی مناتے ہیں اور ۱۵اگست کو یوم سیاہ۔ بلاشبہ تکمیل پاکستان کی اس جدوجہد کے لیے ہم نے بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرتے ہوئے استصواب راے کے قانونی عمل کی بات کی اور جو بھی حق پسند ہوگا وہ اس کا اعتراف کرے گا جیسا کہ امریکا کی قیادت کی وقتی مفادات پر مبنی قلابازیوں کے باوجود امریکا کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین آل برائٹ نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ء کوخود دیلی کی سرزمین پر بر ملا کہا تھا کہ: “کشمیری عوام کی خواہشات معلوم کرنے کا واحد راستہ استصواب رائے عامہ
ہے۔
ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کے لیے جان دے دیں، جموں وکشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں، ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی

SKU: 6849817b03b2c8619f33ccec Categories: , ,

اور ہم اس جنگ میں ان کے حلیف اور شریک ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینی تہذیبی، معاشی، سیاسی، جغرافیائی ہر اعتبار سے ہمارا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جدوجہد میں جموں و کشمیر کے مسلمان برابر کے شریک تھے اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے اجتماع میں انھوں نے قائم ہونے والے پاکستان کے حصے کے طور پر شرکت کی تھی اور ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام سے قبل انھوں نے اور ان کے منتخب نمائندوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا اور اس اعلان کے تحت انھوں نے لڑ کر جموں و کشمیر کا ایک حصہ عملاً آزاد کروایا جو آج آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی شکل میں پاکستان سے متعلق ہے جسے ہم آزاد کشمیر کی حکومت کہتے ہیں۔ یہ محض ان علاقوں کی حکومت نہیں جو بھارت کے چنگل سے ۴۹ – ۱۹۴۷ء میں آزاد کرا لیے گئے تھے بلکہ در اصل پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے جس کے تصور سے اب جنرل صاحب اور ان کے حواری تو بہ کر رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے کشمیر بنے گا پاکستان اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کبھی نہیں کہا۔ یہ کہ اٹوٹ انگ ایک بھارتی واہمہ ہے اور ہم نے بھارت کے قبضے کو ہر سطح ر چیلنج کیا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر؟ کیا یہ بنیاد اس کے سوا کوئی اور تھی کہ ہندستان کی تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی بنا پر جموں و کشمیر پاکستان کا حق ہے۔ پاکستان کے الفاظ تک میں ‘ک’ کا تعلق کشمیر سے ہے قرار داد پاکستان میں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ الحاق پاکستان کی قرارداد سے پاکستان اور کشمیر ایک جسم بن چکے ہیں اور قائد اعظم نے اسی بنیاد پر اسے پاکستان کی شہ رگ کہا۔ اس بنیاد پر جہاد آزادی کا آغاز ڈوگرہ راج کے خلاف ہوا جو آج تک جاری ہے۔ جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے کبھی اپنے کو پاکستان سے جدا تصور نہیں کیا۔ ان کی گھڑیاں پاکستان کی گھڑیوں کے مطابق وقت بتاتی ہیں، پاکستان کی ہر خوشی پر وہ خوش ہر کامیابی پر وہ نازاں اور ہر مشکل پر وہ دل گرفتہ ہیں۔ انھوں نے بھارت کے تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا اور بڑی سے بڑی قربانی دے کر اس کے استبداد کا مقابلہ کیا۔ ۱۴ اگست کو وہ یوم آزادی مناتے ہیں اور ۱۵اگست کو یوم سیاہ۔ بلاشبہ تکمیل پاکستان کی اس جدوجہد کے لیے ہم نے بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرتے ہوئے استصواب راے کے قانونی عمل کی بات کی اور جو بھی حق پسند ہوگا وہ اس کا اعتراف کرے گا جیسا کہ امریکا کی قیادت کی وقتی مفادات پر مبنی قلابازیوں کے باوجود امریکا کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین آل برائٹ نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ء کوخود دیلی کی سرزمین پر بر ملا کہا تھا کہ: “کشمیری عوام کی خواہشات معلوم کرنے کا واحد راستہ استصواب رائے عامہ
ہے۔
ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کے لیے جان دے دیں، جموں وکشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں، ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “جموں و کشمیر سے دست برداری”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »