ماهنامه ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۹۷
۱۴
اشارات
قانون کے بارے میں یہ طے کرنا کہ اس میں لاقانونیت (illegality) کا کوئی عنصر ہے، یا وہ غیر عقلی (irrationality) ہے یا صحیح طریقے سے وجود میں نہیں آیا (procedural impropriety)- ہم نے برطانیہ کے قانونی نظام سے یہ مثال صرف اس لیے دی ہے کہ ہمارے حکمران بار بار پارلیمانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں ورنہ امریکہ اور دوسرے تحریری دستور رکھنے والے ممالک، بشمول بھارت کے بارے میں تو یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عدالت کا ادارہ نہ صرف یہ کہ ایک مکمل طور پر خود مختار اور آزاد ادارہ ہے بلکہ اسے جوڈ – شیل ریویو کا اختیار حاصل ہے اور اس جوڑ – شیل ریویو کا دائرہ صرف قانون تک محدود نہیں بلکہ مختلف ممالک میں وہ دستوری ترامیم تک جو دستور کے بنیادی ڈھانچے سے ہم آہنگ نہ ہوں اس کی زد میں آتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم مثال خود بھارت کی ہے جہاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۳ کے مشہور مقدمے (Kesavananda Vs. Kerala) میں جسے عرف عام میں بنیادی حقوق کا مقدمہ کہا جاتا ہے AIR) (1461 SC 1973 یہ اصول طے کیا کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم کوئی دستوری ترمیم بھی کرنے کا اختیار پارلیمینٹ کو نہیں، اس لیے کہ پارلیمنٹ دستور ساز ادارہ نہیں بلکہ دستور ساز ادارے کے بنائے ہوئے دستور میں صرف ترمیم کا اختیار رکھتی ہے۔ اس لیے کوئی ترمیم جو دستور کا حلیہ بگاڑ دے ترمیم نہیں، نئی دستور سازی ہے جس کا اسے اختیار نہیں (ہمارے وزیر اعظم صاحب کی تقریر میں جس طرح پارلیمنٹ کو دستور کا خالق” قرار دیا گیا ہے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے)۔ اس کی مزید وضاحت اندرا گاندھی بنام راج نرائن کے مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کی (2294 AIR 1973 SC) اور صاف الفاظ میں کہا کہ دستور بنانے والوں کا مقصد یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ دستوری ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم کو ایک مشرقی آمر مطلق” (an oriental despot بنا دیا جائے۔ پارلیمنٹ کا ترمیم دستور کا اختیار (آرٹیکل (۳۶۸) اپنی ظاہری سانی وسعت کے باوجود صرف محدود اختیار دیتا ہے، مطلق نہیں۔ جب اندرا گاندھی نے اس فیصلے کا توڑ کرنے کے لیے دستور میں ترمیم کے آرٹیکل ۳۶۸ میں دو ترامیم (دفعہ ۴ اور (۵) کا اضافہ کیا اور عدالت کے اس اختیار کو ختم کر دیا کہ وہ کسی دستوری ترمیم کو خلاف دستور قرار دے تو سپریم کورٹ نے ۱۹۸۰ میں مائی نروامل کیس 1989 AIR 1980 SC) میں اس ترمیم (یعنی ۴۲ ویں ترمیم) کو منسوخ کر دیا اور اس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ پارلیمنٹ کے اس دعوے کو کالعدم کر دیا کہ اس کو ترمیم دستور کا غیر محدود اختیار ہے بلکہ اس کے اس حق کو بھی ماننے سے انکار کر دیا کہ دستوری ترمیم کے ذریعے عدالت کے اختیار کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہے جمہوری پارلیمانی نظام میں عدالت کی حیثیت۔ اسلام اور جمہوریت میں عدالت کے مقام اور اختیار کی اس بحث کی روشنی میں ذرا جناب وزیر اعظم صاحب کی تقریر کا تجزیہ کیجیے جس میں ہر پارلیمنٹ کو دستو ساز” قرار دیا جا رہا ہے، سب پر بالاد بالادست”
حکومت عدلیہ کشمکش اور جمہوریت کا مستقبل
₨ 0
ماهنامه ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۹۷
۱۴
اشارات
قانون کے بارے میں یہ طے کرنا کہ اس میں لاقانونیت (illegality) کا کوئی عنصر ہے، یا وہ غیر عقلی (irrationality) ہے یا صحیح طریقے سے وجود میں نہیں آیا (procedural impropriety)- ہم نے برطانیہ کے قانونی نظام سے یہ مثال صرف اس لیے دی ہے کہ ہمارے حکمران بار بار پارلیمانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں ورنہ امریکہ اور دوسرے تحریری دستور رکھنے والے ممالک، بشمول بھارت کے بارے میں تو یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عدالت کا ادارہ نہ صرف یہ کہ ایک مکمل طور پر خود مختار اور آزاد ادارہ ہے بلکہ اسے جوڈ – شیل ریویو کا اختیار حاصل ہے اور اس جوڑ – شیل ریویو کا دائرہ صرف قانون تک محدود نہیں بلکہ مختلف ممالک میں وہ دستوری ترامیم تک جو دستور کے بنیادی ڈھانچے سے ہم آہنگ نہ ہوں اس کی زد میں آتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم مثال خود بھارت کی ہے جہاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۳ کے مشہور مقدمے (Kesavananda Vs. Kerala) میں جسے عرف عام میں بنیادی حقوق کا مقدمہ کہا جاتا ہے AIR) (1461 SC 1973 یہ اصول طے کیا کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم کوئی دستوری ترمیم بھی کرنے کا اختیار پارلیمینٹ کو نہیں، اس لیے کہ پارلیمنٹ دستور ساز ادارہ نہیں بلکہ دستور ساز ادارے کے بنائے ہوئے دستور میں صرف ترمیم کا اختیار رکھتی ہے۔ اس لیے کوئی ترمیم جو دستور کا حلیہ بگاڑ دے ترمیم نہیں، نئی دستور سازی ہے جس کا اسے اختیار نہیں (ہمارے وزیر اعظم صاحب کی تقریر میں جس طرح پارلیمنٹ کو دستور کا خالق” قرار دیا گیا ہے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے)۔ اس کی مزید وضاحت اندرا گاندھی بنام راج نرائن کے مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کی (2294 AIR 1973 SC) اور صاف الفاظ میں کہا کہ دستور بنانے والوں کا مقصد یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ دستوری ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم کو ایک مشرقی آمر مطلق” (an oriental despot بنا دیا جائے۔ پارلیمنٹ کا ترمیم دستور کا اختیار (آرٹیکل (۳۶۸) اپنی ظاہری سانی وسعت کے باوجود صرف محدود اختیار دیتا ہے، مطلق نہیں۔ جب اندرا گاندھی نے اس فیصلے کا توڑ کرنے کے لیے دستور میں ترمیم کے آرٹیکل ۳۶۸ میں دو ترامیم (دفعہ ۴ اور (۵) کا اضافہ کیا اور عدالت کے اس اختیار کو ختم کر دیا کہ وہ کسی دستوری ترمیم کو خلاف دستور قرار دے تو سپریم کورٹ نے ۱۹۸۰ میں مائی نروامل کیس 1989 AIR 1980 SC) میں اس ترمیم (یعنی ۴۲ ویں ترمیم) کو منسوخ کر دیا اور اس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ پارلیمنٹ کے اس دعوے کو کالعدم کر دیا کہ اس کو ترمیم دستور کا غیر محدود اختیار ہے بلکہ اس کے اس حق کو بھی ماننے سے انکار کر دیا کہ دستوری ترمیم کے ذریعے عدالت کے اختیار کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہے جمہوری پارلیمانی نظام میں عدالت کی حیثیت۔ اسلام اور جمہوریت میں عدالت کے مقام اور اختیار کی اس بحث کی روشنی میں ذرا جناب وزیر اعظم صاحب کی تقریر کا تجزیہ کیجیے جس میں ہر پارلیمنٹ کو دستو ساز” قرار دیا جا رہا ہے، سب پر بالاد بالادست”
Reviews
There are no reviews yet.