ماهنامه ترجمان القرآن، مئی ۱۹۹۸
۱۰
اشارات
پہلے سے قائم ہیں بشمول یوپی کی حکومت، جس کی قیادت میں بابری مسجد شہید کی گئی اور اب یہ پارٹی مرکزی حکومت کی قیادت کر رہی ہے۔ اس طرح یہ ایک ہی سلسلہ ہے جو کم از کم ۱۹۲۵ سے آج تک جاری ہے۔ اب اس کے فکری اور سیاسی موقف کی بنیادوں پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں۔ فلسفیانہ سطح پر یہ ہندو تصور کائنات پر مبنی ہے اور نامیاتی وحدت organic unity) کا قائل ہے۔ سیاسی اعتبار سے اس کے چار بنیادی اصول اور اہداف ہیں جن کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔
پہلی چیز جو سب سے بنیادی ہے وہ اس کا تصور قومیت و اجتماعیت ہے جسے سلور کر کے خیالات کے خلاصے کے طور پر تحریک کے مفکر گولوالکر (M.S. Golwalkar) نے اپنی کتاب We, Our Nationhood Defined میں پیش کیا ہے اور جو آج بھی بی جے پی کا منشور اور اس کی حکمت عملی کی
رویه
روح ہے۔ ایک ملک ایک قوم اور ایک کلچر اس کا مرکزی تصور ہے۔ گولوالکر کہتا ہے: ہندستان کے غیر ہندو لوگوں کو ہندو کلچر اور زبان اختیار کرنا چاہیے، ہندو مذہب کا احترام کرنا اور اسے مقدس سمجھنا سیکھنا چاہیے، ہندو نسل اور کلچر کی عظمت کے علاوہ کوئی خیال انھیں نہ آنا چاہیے یعنی انھیں اس زمین اور اس کی قدیم روایات کے لیے نہ صرف اپنا عدم رواداری اور ناشکری کا ترک کر دینا چاہیے بلکہ اس کے بجائے محبت اور وابستگی کا مثبت رویہ پرورش کرنا چاہیے۔ ایک لفظ میں کہا جائے تو انھیں غیر ملکی نہیں رہنا چاہیے۔ اس ملک میں ہندو قوم کی مکمل ماتحتی میں رہنا چاہیے۔ کسی دعوے کے بغیر کسی استحقاق کے بغیر کجا یہ کہ کوئی ترجیحی سلوک ہو ، حتی کہ شہری حقوق بھی نہیں۔ (مہادیو سوداٹر گولوالکر We, Our Nationhood Defined ناگپور، بھارت پر کاش ۱۹۳۹ ۱۹۴۷ ص ۴۴-۵۴) گولوالکر اور اس مکتب فکر کی پوری قیادت مسلمانوں (اور اسی طرح عیسائیوں) کو غیر ملکی (foreigner) قرار دیتی ہے اور ان کے لیے زندہ رہنے کا واحد راستہ اپنے کو ہندوو تا کے رنگ میں رنگنے اور اس میں ضم ہو
جانے میں قرار دیتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حالیہ فتح پر لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کے نامہ نگار پیٹر پوچھام Peter)
(Popham نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذہن کی ترجمانی اس طرح کی ہے: بی جے پی دوسری پارٹیوں کی طرح پارٹی نہیں ہے۔ یہ ۷۳ سال قبل قائم ہونے والی نیم فوجی تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کا سیاسی بازو ہے۔ آر ایس ایس اپنی بہت اہمیت سمجھتی ہے۔ برطانوی دور کے آخری عشروں میں اس کا نشو نما ہندوؤں کے لیے وہ کچھ کرنے کی کوشش تھی جو اٹلی اور جرمنی کے لیے مسولینی اور ہٹلر کر رہے تھے: قومی استحکام اور نسل کو خالص رکھنے (purity) کے سنہرے
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
₨ 0
ماهنامه ترجمان القرآن، مئی ۱۹۹۸
۱۰
اشارات
پہلے سے قائم ہیں بشمول یوپی کی حکومت، جس کی قیادت میں بابری مسجد شہید کی گئی اور اب یہ پارٹی مرکزی حکومت کی قیادت کر رہی ہے۔ اس طرح یہ ایک ہی سلسلہ ہے جو کم از کم ۱۹۲۵ سے آج تک جاری ہے۔ اب اس کے فکری اور سیاسی موقف کی بنیادوں پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں۔ فلسفیانہ سطح پر یہ ہندو تصور کائنات پر مبنی ہے اور نامیاتی وحدت organic unity) کا قائل ہے۔ سیاسی اعتبار سے اس کے چار بنیادی اصول اور اہداف ہیں جن کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔
پہلی چیز جو سب سے بنیادی ہے وہ اس کا تصور قومیت و اجتماعیت ہے جسے سلور کر کے خیالات کے خلاصے کے طور پر تحریک کے مفکر گولوالکر (M.S. Golwalkar) نے اپنی کتاب We, Our Nationhood Defined میں پیش کیا ہے اور جو آج بھی بی جے پی کا منشور اور اس کی حکمت عملی کی
رویه
روح ہے۔ ایک ملک ایک قوم اور ایک کلچر اس کا مرکزی تصور ہے۔ گولوالکر کہتا ہے: ہندستان کے غیر ہندو لوگوں کو ہندو کلچر اور زبان اختیار کرنا چاہیے، ہندو مذہب کا احترام کرنا اور اسے مقدس سمجھنا سیکھنا چاہیے، ہندو نسل اور کلچر کی عظمت کے علاوہ کوئی خیال انھیں نہ آنا چاہیے یعنی انھیں اس زمین اور اس کی قدیم روایات کے لیے نہ صرف اپنا عدم رواداری اور ناشکری کا ترک کر دینا چاہیے بلکہ اس کے بجائے محبت اور وابستگی کا مثبت رویہ پرورش کرنا چاہیے۔ ایک لفظ میں کہا جائے تو انھیں غیر ملکی نہیں رہنا چاہیے۔ اس ملک میں ہندو قوم کی مکمل ماتحتی میں رہنا چاہیے۔ کسی دعوے کے بغیر کسی استحقاق کے بغیر کجا یہ کہ کوئی ترجیحی سلوک ہو ، حتی کہ شہری حقوق بھی نہیں۔ (مہادیو سوداٹر گولوالکر We, Our Nationhood Defined ناگپور، بھارت پر کاش ۱۹۳۹ ۱۹۴۷ ص ۴۴-۵۴) گولوالکر اور اس مکتب فکر کی پوری قیادت مسلمانوں (اور اسی طرح عیسائیوں) کو غیر ملکی (foreigner) قرار دیتی ہے اور ان کے لیے زندہ رہنے کا واحد راستہ اپنے کو ہندوو تا کے رنگ میں رنگنے اور اس میں ضم ہو
جانے میں قرار دیتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حالیہ فتح پر لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کے نامہ نگار پیٹر پوچھام Peter)
(Popham نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذہن کی ترجمانی اس طرح کی ہے: بی جے پی دوسری پارٹیوں کی طرح پارٹی نہیں ہے۔ یہ ۷۳ سال قبل قائم ہونے والی نیم فوجی تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کا سیاسی بازو ہے۔ آر ایس ایس اپنی بہت اہمیت سمجھتی ہے۔ برطانوی دور کے آخری عشروں میں اس کا نشو نما ہندوؤں کے لیے وہ کچھ کرنے کی کوشش تھی جو اٹلی اور جرمنی کے لیے مسولینی اور ہٹلر کر رہے تھے: قومی استحکام اور نسل کو خالص رکھنے (purity) کے سنہرے
Reviews
There are no reviews yet.