روشن خیال اعتدال پسندی

 0

عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعُذْرِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُو لُهُ يَتَّقُونَ عَنْهُ تَحْرِيفَ الْقَالِينَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِينَ وَتَأْوِيلَ الْجَاهِلِينَ (مشكوة) اس علم کے حامل ہرسل میں وہ لوگ ہوں گے جو دیانت و تقویٰ سے متصف ہوں گے وہ اس دین کی غلو پسندوں کی تحریف اہل باطل کی غلط نسبت و انتساب اور جاہلوں کی تاویلات سے حفاظت
فرمائیں۔ ی ہے اسلام کی کھلی شاہراہ۔ لیکن جس لبرلزم ماڈرنزم، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی بات امریکی دانش ور اور پالیسی ساز کر رہے ہیں اور جس کی بازگشت خود ہمارے کچھ حکمرانوں اور دانش وروں کی تحریروں اور تقریروں میں سنی جاسکتی ہے اُس میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
چراغ مصطفوی سے جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی رونما ہوتی ہے وہ شریعت اسلامی کے بے کم و کاست اتباع سے عبارت ہے۔ اس کے مقابلے میں شرار بو بسی کا جو تقاضا اور مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی جاہد اور بالا دست قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے دین، اقدار اور تصویر زندگی کو قبول کیا جائے ان کے تصور ترقی کو اختیار کیا جائے ان کے رنگ میں اپنے کو رنگ لیا جائے اور ان کے دیے ہوئے معیار کے مطابق اور ان کے پسندیدہ پیانوں میں اللہ کے دین کو ڈھال دیا جائے ۔ گویا جس طرح اکبر بادشاہ نے اپنے دور کے باغیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک دین الہی بنانے کی جسارت کی تھی، اسی طرح آج امریکہ اور مغرب کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا اسلام وضع کیا جائے جو اُمت کے مرکز سے ہٹ کر ملک اور مقامی مفادات کو مرکز بنائے اور جس کا اصل ہدف شریعت کو عملا معطل کر کے دین و دنیا کی تفریق اور ماڈرنائزیشن کے نام پر مغربیت کے لیے راہ ہموار کرے۔ اس طرح اسلام کا نام باقی رکھ کر ایک سیکولر نظام زندگی پروان چڑھایا جائے تا کہ اسے امریکہ اور مغرب کے حکمران اور دانش ور روشن خیال اور اعتدال پسند تسلیم کریں، جس کو وہ فنڈ ا معلوم اور انتہا پسندی قرار نہ دیں بلکہ اس اسلام میں وہ اپنی تہذیبیں
اقدار اور عادات و اطوار کی جھلک دیکھ سکیں اور اس پر ترقی پسندی کی مہر لگا سکیں۔ چراغ مصطفوی، اور شرار یونیسی، کی دائی شیزہ کاری اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام اور اکبری دین الہی کی پرکار کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ انمبر کے بعد مسلم دنیا اور خصوصیت سے پاکستان پر امریکی اثرات بلکہ تسلط کا جو آغاز عسکری تعاون اور سیاسی تابع داری سے ہوا تھا وہ اب نظریاتی تو تعلیمی اور ثقافتی غلامی کے دائروں تک وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اب اس کے لیے ایک تصوراتی خاکہ (conceptual framework) بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی خصوصی سعادت ہمارے جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہو رہی ہے۔ پہلے انھوں نے اپنی تقریروں میں اور اپنے مختلف سیاسی حلیفوں سے ملاقاتوں میں ایک نئے وژن اور ایک تصوراتی ہیولا کی طرف اشارے کیئے پھر او آئی سی کے کو لالپور میں منعقد ہونے والے سر براہی اجلاس میں اس ادارے کی تشکیل نو کے عنوان سے اُمت مسلمہ کے لیے روشن خیال اعتدال پسندی کی ایک حکمت عملی پیش کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور اب ۲ جون ۲۰۰۴ ء کو امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کی شکل میں اپنے اس نے فلسفے کو غالب اپنی پہلی تحریر کے طور پر پیش کیا ہے جسے پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ او آئی سی کے وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ استنبول میں ان کی پیش کردہ حکمت عملی ( روشن خیال اعتدال پسندی۔
Enlightened Moderation ) کو خود او آئی سی کے ہدف کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔

SKU: 6849817303b2c8619f33ca44 Categories: , ,

عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعُذْرِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُو لُهُ يَتَّقُونَ عَنْهُ تَحْرِيفَ الْقَالِينَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِينَ وَتَأْوِيلَ الْجَاهِلِينَ (مشكوة) اس علم کے حامل ہرسل میں وہ لوگ ہوں گے جو دیانت و تقویٰ سے متصف ہوں گے وہ اس دین کی غلو پسندوں کی تحریف اہل باطل کی غلط نسبت و انتساب اور جاہلوں کی تاویلات سے حفاظت
فرمائیں۔ ی ہے اسلام کی کھلی شاہراہ۔ لیکن جس لبرلزم ماڈرنزم، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی بات امریکی دانش ور اور پالیسی ساز کر رہے ہیں اور جس کی بازگشت خود ہمارے کچھ حکمرانوں اور دانش وروں کی تحریروں اور تقریروں میں سنی جاسکتی ہے اُس میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
چراغ مصطفوی سے جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی رونما ہوتی ہے وہ شریعت اسلامی کے بے کم و کاست اتباع سے عبارت ہے۔ اس کے مقابلے میں شرار بو بسی کا جو تقاضا اور مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی جاہد اور بالا دست قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے دین، اقدار اور تصویر زندگی کو قبول کیا جائے ان کے تصور ترقی کو اختیار کیا جائے ان کے رنگ میں اپنے کو رنگ لیا جائے اور ان کے دیے ہوئے معیار کے مطابق اور ان کے پسندیدہ پیانوں میں اللہ کے دین کو ڈھال دیا جائے ۔ گویا جس طرح اکبر بادشاہ نے اپنے دور کے باغیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک دین الہی بنانے کی جسارت کی تھی، اسی طرح آج امریکہ اور مغرب کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا اسلام وضع کیا جائے جو اُمت کے مرکز سے ہٹ کر ملک اور مقامی مفادات کو مرکز بنائے اور جس کا اصل ہدف شریعت کو عملا معطل کر کے دین و دنیا کی تفریق اور ماڈرنائزیشن کے نام پر مغربیت کے لیے راہ ہموار کرے۔ اس طرح اسلام کا نام باقی رکھ کر ایک سیکولر نظام زندگی پروان چڑھایا جائے تا کہ اسے امریکہ اور مغرب کے حکمران اور دانش ور روشن خیال اور اعتدال پسند تسلیم کریں، جس کو وہ فنڈ ا معلوم اور انتہا پسندی قرار نہ دیں بلکہ اس اسلام میں وہ اپنی تہذیبیں
اقدار اور عادات و اطوار کی جھلک دیکھ سکیں اور اس پر ترقی پسندی کی مہر لگا سکیں۔ چراغ مصطفوی، اور شرار یونیسی، کی دائی شیزہ کاری اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام اور اکبری دین الہی کی پرکار کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ انمبر کے بعد مسلم دنیا اور خصوصیت سے پاکستان پر امریکی اثرات بلکہ تسلط کا جو آغاز عسکری تعاون اور سیاسی تابع داری سے ہوا تھا وہ اب نظریاتی تو تعلیمی اور ثقافتی غلامی کے دائروں تک وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اب اس کے لیے ایک تصوراتی خاکہ (conceptual framework) بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی خصوصی سعادت ہمارے جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہو رہی ہے۔ پہلے انھوں نے اپنی تقریروں میں اور اپنے مختلف سیاسی حلیفوں سے ملاقاتوں میں ایک نئے وژن اور ایک تصوراتی ہیولا کی طرف اشارے کیئے پھر او آئی سی کے کو لالپور میں منعقد ہونے والے سر براہی اجلاس میں اس ادارے کی تشکیل نو کے عنوان سے اُمت مسلمہ کے لیے روشن خیال اعتدال پسندی کی ایک حکمت عملی پیش کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور اب ۲ جون ۲۰۰۴ ء کو امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کی شکل میں اپنے اس نے فلسفے کو غالب اپنی پہلی تحریر کے طور پر پیش کیا ہے جسے پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ او آئی سی کے وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ استنبول میں ان کی پیش کردہ حکمت عملی ( روشن خیال اعتدال پسندی۔
Enlightened Moderation ) کو خود او آئی سی کے ہدف کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “روشن خیال اعتدال پسندی”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »