امریکہ کے عالمی نظام میں بھارت کی حیثیت

جنگ راولبندی
25 MAY 2000
امریکہ کے عالمی نظام میں بھارت کی حیثیت
الطا مالی قوت کی حیثیت حیثیت سے سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد امریکہ نے جس نئے عالمی نظام کا خاکہ تیار کیا ہے اس کے چار اہم ستون ہیں۔ ان چاروں کا اصل مقصد یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں جب تک ممکن ہو امریکہ کو واحد سپر پاور کی حیثیت حاصل رہے اور کوئی متبادل قوت وجود میں نہ آنے پائے۔ اس سلسلے میں جن مفکرین نے اس حکمت عملی کو ٹکری بنیادیں فراہم کی ہیں ان میں فرانس فا کو یاما کا انتقام تاریخ (The end of History) کا فلسفہ سیموئیل ہانگلشن کا تہذیبوں کا تصادم Clash of) (Civilization کا نظریہ اور برزنسکی کی شطرنج کا عظیم بساط خصوصیت کی حامل The grand Chessboard ہیں۔ اس فریم ورک میں دسیوں تحقیقی مقالات اور تھنک ٹینک کی رپورٹیں اور سیاستدانوں کی عملی کارروائیاں ہیں جن کے مطالعے اور تجزئیے سے مستقل نقشے کے دروبست صاف نظر آتے ہیں۔ یہ چار نکاتی فارمولا کچھ اس طرح ہے۔
1 – عالم گیریت (Globalisation) جس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں ایک ایسا معاشی نظام قائم کیا جائے جس میں آزاد تجارت، سرمایہ کی آزاد حرکت اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ذریعے عالمی معیشت پر مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کے تسلط کو دائمی شکل دی جائے۔ اس طرح دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کو مستحکم کر لیا جائے جو سامراجی دور کی پیداوار ہیں اور جس کے نتیجے میں مغربی اقوام (یورپ اور امریکہ) جو 1800ء میں عالمی پیداوار کا صرف 27 فیصد پیدا کر رہی تھیں 1918ء میں ان کا یہ حصہ بڑھ کر 87 فیصد ہو گیا جبکہ ان کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا صرف 18 فیصد ہے۔ اس انتظام کو مستقل صورت اس وقت دی جاسکتی ہے جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنی معیشت کو خود انحصاری کی بنیاد پر ترقی نہ دے سکیں بلکہ اس نظام کا حصہ بن کر خام مال فراہم کرنے اور مصنوعات در آمد کرنے کا کام انجام دیں۔ اس طرح ترقی یافتہ ممالک کو نہ صرف مسلسل بالا دستی حاصل رہے بلکہ باقی دنیا ان کی محتاج رہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ آزاد تجارت اور آزادی نقل و حرکت کے یہ علمبردار انسانوں کی آزاد نقل و حرکت کے قائل نہیں ہیں اور انسانی آبادی کی حرکت پر کڑی پابندیاں رکھنا چاہتے ہیں تا کہ مغربی اقوام کی بالا دستی متاثر نہ ہو سکے۔ اگر آبادی کی کچھ حرکت ہو تو وہ بھی اس شکل میں کہ ترقی پذیر ممالک کے پڑھے لکھے اور دولت و ثروت کے مالک افراد مغربی ممالک میں داخل ہو سکیں اور مادی وسائل کے بہاؤ کے ساتھ اعلیٰ صلاحیت اور وسائل کا بہاؤ ہو تا رہے اور یہ ممالک ترقی یافتہ ممالک کی تقویت کا ذریعہ بنتے رہیں۔ اس سلسلے میں بنیادی معدنیات، توانائی کے سرچشموں خصوصیت سے تیل اور گیس پر مستقل قبضہ اور ان تک رسائی کے راستوں کی حفاظت کی جائے۔
اس نظام کا دوسرا ستون سیاسی ہے یعنی انفرادی آزادی
جمہوریت، حقوق انسانی کا تحفظ اور مذہبی رواداری کی ترویج اور اس کے پردے میں ان ممالک میں ایسے نظاموں کا قیام عمل میں لایا جائے جن میں جوڑ توڑ، مالی وسائل، معاشی مراعات اور ذرائع معلومات کے توسط سے ٹکری کنٹرول اور تہذیبی غلبے کے ذریعے یہ آسانی متاثر کیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت کے ان علمبرداروں کی جمہوریت کی تعبیر بڑی نرالی ہے۔ جمہوریت کے معنی تمام انسانوں کی مساوات نہیں اور نہ لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے عقائد، اقدار اور ترجیحات کی روشنی میں اپنا انتظام زندگی طے کریں۔ جمہوریت کی تعبیر یہ ہے کہ مغربی جمہوریت کو اس طرح پروان چڑھایا جائے کہ یہ ممالک مغرب کے رنگ میں رنگ جائیں اور ان پر ایسی قیاد تمیں مسلط رہیں جو مغربی تہذیب کی دلدادہ اور مغربی مفادات کی محافظ ہوں۔ نیٹو کو اب وسعت دے کر یورپ کی ان اقوام کو بھی ان کے چنگل میں پھانسا جارہا ہے جو الگ تبد یہیں وجود رکھتی ہیں اور کل کسی متبادل نظام کے لئے زمین فراہم کر سکتی ہیں۔ ترکی میں جمہوری تماشے کے باوجود پورا ملک سیکولر فوجی قیادت کی گرفت میں رہے۔ الجزائر میں عوام اپنی آزاد مرضی سے اگر اسلامی انتظام لاتا چاہتے ہیں تو ان کی پوری قیادت کو پابند طوق و سلاسل کیا جائے، ملک میں سول وار کی کیفیت پیدا کر دی جائے اور یہ سب جمہوریت کے نام پر ہو۔ جمہوریت تبدیوں اور انتظام زندگی کے تعدد کا ذریعہ نہ بنے بلکہ جمہوریت کے عنوان سے مغربی سیاسی اور معاشی ادارے پوری دنیا پر مسلط کئے جائیں اور ان کے ذریعے وہاں کی آبادیوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ جہاں کہیں حالات مغربی اقوام کی مرضی کے مطابق نہ ہوں وہاں انسانی بنیادوں پر مداخلت کے نام پر فوج کشی تک کا حق اپنے پاس محفوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں کسی عالمی ادارے کی اجازت بھی ضروری نہیں بلکہ یہ سب امریکہ اور اس کے ہم نوا ممالک کے دائرہ اختیار میں رکھا جائے۔
جمہوریت کے یہ علمبردار کسی بالا تر قانون اور کسی غیر جانبدار اتھارٹی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اقوام متحدہ کو ایک غیر مؤثر ادارہ بنا دیا گیا ہے۔ جنرل اسمبلی کے پاس کوئی اختیار نہیں اور سکیورٹی کو نسل جسے کارروائی کا اختیار ہے اس میں پانچ طاقتوں کو ویٹو کا حق حاصل ہے اور اگر اس حق میں توسیع کی بات ہو رہی ہے تو وہ بھی کسی جمہوری اصول پر نہیں بلکہ اپنے ہی طائفے کے کچھ دوسرے ارکان کو مسلط کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنگ جو اہم مالیاتی ادارے ہیں ان میں بھی انہی مالدار ممالک کو اکثریت حاصل ہے اور ان کے اشار وابرو کے بغیر وہ ذرا بھی جنبش نہیں کر سکتے۔ جمہوریت کے ان علمبرداروں کو اگر جمہوریت سے کوئی دلچسپی ہوتی تو سب سے پہلے ان اداروں کو جمہوری رنگ میں رکھنے کی فکر کرتے لیکن اس کا دور دور تک پتا نہیں۔ عالمی میڈیا اور انتظار میں ا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذرائع پر مغربی اقوام کا کنٹرول بھی اس لبرل آرڈر کا حصہ ہے۔ اس طرح عالم گیریت اور جمہوری آزاد روی اس نئے نظام کے ایک دوسرے کو مضبوط کر نیوالے دو جڑواں ستون ہیں۔
اس نظام کا تیسر استون ٹیکنالوجی ہے خصوصیت سے نیو کلیئر اور ہائی ٹیک کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مغربی اقوام کی اجارہ داری ہے۔ نئے دفاعی نظام کا بنیادی ستون امریکہ کی مستقل اور ناقابل چیلنج عسکری قوت کا استحکام اور اسے جہاں سے بھی کوئی خطرہ ہو (خواہ وہ کتنا ہی موجوم کیوں نہ ہو) اسے ختم کرنے کا حق ہے۔ سد جارحیت (Deterrance) کے معنی اس نظام میں یہ ہیں کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی قوت اور بالا دستی کو چیلنج کرنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ اپنی عدم پھیلاؤ کا مقصد دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا نہیں، مغرب کی نیو کلیئر بالا دستی کو دائمی بنانا اور ہر چیلنج کا راستہ روکنا ہے۔ کیمیائی اور گیس کے ہتھیاروں پر پابندی بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔ اسی طرح میزائل کے نظام کو لگام دینے کا پروگرام بھی اس عسکری بالادستی کا تحفظ ہے۔
و بشت گردی (terrorism) اس کے باب میں جو محاذ کھولا گیا ہے اس کا مقصد بھی دنیا میں انجر نے والی ہر متبادل قوت کو ایک قسم کا سوچے سمجھے تشدد کا نشانہ بناتا ہے جو خود انسانیت کے خلاف ایک سکین جرم ہے۔ کوئی صحیح العقل انسان دہشت گردی اور تشدد کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن مظلوم اگر ظالم کے خلاف ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہو جائے یا محکوم اقوام اپنی آزادی کے لئے سیاسی جدو جہد کی راہیں مسدود ہونے کی صورت میں ظالم حکمرانوں کے مراکز قوت پر ضرب لگائیں تو اسے دہشت گردی کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ اگر یہ دہشت گردی ہے تو دنیا کے موجودہ سیاسی نقشے کا 80 فیصد ایسی ہی جدوجہد کے نتیجے میں صورت پذیر ہوا ہے اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ اس کی سب سے قریبی مثال مشرقی تیمور ہے جہاں 20 سالہ عسکری جدو جہد کے بعد اقوام متحدہ کے زیر اہتمام استصواب ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مشرقی تیمور اپنے تیل کے ممکنہ ذخائر کی وجہ سے مغربی اقوام کی توجہ کا مرکز بنا ہے اور ایک مسلمان ملک کو کمزور کر کے ایک عیسائی ریاست کا قیام اس کا نتیجہ ہے۔ لیکن بات اصول کی ہے اور جس حق کے تحت اقوام متحدہ کے 130 ممالک آزاد ہوئے ہیں اسے محض اس لئے دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ کشمیر ، سودا، یہ بنیا اور منڈاناؤ میاس کا فائدہ مسلمانوں کو سنبھے گا۔
اس نظام کا چوتھا ستون نئی سیاسی حصار بندی ہے جسے بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے۔ اس میں نیٹو کی توسیع، مشرق وسطی میں اسرائیل کی عسکری بالا دستی کے قیام کے بعد اس کے معاشی نلبے کے لئے صلح کاری، وسط ایشیا میں ایک بار پھر روس اور مغرب سے منسلک ریاستوں کے مسلمان ریاستوں پر اثر انداز ہونے کے نظام کے درو بست بھارت کو ایک ایشیائی قوت کے طور پر آگے لانے کی کوشش اس دسار بندی کا اصل ہدف اب چین اور عالم اسلام اور خصوصیت سے عالم اسلام کے وہ ممالک ہیں جو کچھ بھی آزاد روی اختیار کر سکتے ہیں اور جن میں اسلامی تحریکات ایک غالب قوت بن سکتی ہیں۔ اولین ہدف چین کے ساتھ ایران افغانستان اور پاکستان ہیں۔ ترکی کو یورپی یونین میں نسم کرنے اور ترک کرد کشتاش کے ذریعے مستقل طور پر جنگ و جدل میں مصروف رکھنے کا پروگرام ہے۔ وسط ایشیا کی اسلامی تحریکات کو دہشت گردی کے نام پر قابو کرنے کا منصوبہ ہے۔ ایران اور افغانستان کو دبانے یا بدلنے کا ہدف ہے۔ پاکستان کو کمزور کرنے، چین کے ساتھ نماط فہمیاں پیدا کرنے اور اس کو ایران اور افغانستان کے قریب نہ ہونے دینے کی کوششیں ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان پر معاشی دباؤ کے ساتھ ساتھ اسے بھارت کی طرف سے عسکری خطرات سے بھی دو چار کرتا ہے۔ یہ اپنی روح اور مقاصد کے اختبارات سے اسی طرح کا ایک حصار بندی کا نظام ہے جیسا سرد جنگ کے زمانے میں روس، چین اور مشرقی یورپ کے خلاف قائم کیا گیا تھا کو نئے حالات کے پیش نظر اس کا اسلوب اور عنوانات مختلف ہیں۔ اس انتظام میں علاقے، ملک اور سیاسی ساتھیوں کے مقام اور تعلقات میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔
اس پس منظر میں اس بات کو اچھی طرح محسوس کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان امریکہ کا فطری حلیف نہیں رہا اور بھارت اس کا فطری “خلیف” اور “مسٹر یٹجک پار ٹرین کیا ہے خواہ بھارت میں حکومت اس پارٹی کے ہاتھوں میں ہو جو ہندوستان پرستی ) Hindu Chanvinsm پر چارک، سیکولرزم کے مقابلے میں ہندو دتا کی مبلغ مسلمانوں، عیسائیوں اور تمام اقلیتی گروہوں کے خون کی دشمن اور ان کے تبذ ہی قتل پر کار بند ہو۔ نیا نقشہ ، نئی دوستیوں اور پرانے تعلقات پر نظر ثانی کا متقاضی ہے جیسا کہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے کہا کہ عملی سیاست میں کوئی دوستی مستقل نہیں ہوتی، مستقل چیز تو صرف مفاد کا حصول ہے اور مفادات کی شکل اور نوعیت صحرا کی ریت کی طرح بدلتی رہتی ہے۔ اسی روشنی میں دوستوں اور مخالفین کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ ہمیں امریکہ کی نئی ترجیحات اور نئی راہوں کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں اپنے ں اپنے مقاصد اور مفادات کے تحفظ کے لئے کار بندی کی فکر کرتی چاہئے۔ محض پرانی دوستیوں کا گلہ یا ان کے بھال ہو جانے کے خواب دیکھنا حقیقت پسندی کیخلاف ہے۔ (جاری ہے۔
دوسری و آخری قسط
بھارت کے لئے امریکہ کی مختلف حکومتوں میں خصوصیت سے ڈیمو کریٹ صدور اور پارٹی لیڈر شپ میں ایک نرم گوشہ تو شروع ہی سے رہا ہے اور اس کے جغرافیائی محل وقوع، رقبے، آبادی، معاشی وسائل، مارکیٹ کی وسعت اور سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے اسے غیر فطری نہیں کہا جا سکتا البتہ جس طرح بھارت کی قیادت نے نبرو ن دور ہی سے خود کو سوشلسٹ نظام کا علمبردار، روس سے خصوصی تعلق اور غیر جانب تحریک کے رکن کی حیثیت سے پیش کیا، اس نے سرد جنگ کے دور میں اسے امریکہ سے دور رکھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد حالات بدلے۔ بھارت نے بھی سوشلسٹ نظام کو (جیسا کچھ بھی وہ تھا) ختم کر کے منڈی کی معیشت کا راستہ اختیار کیا اور تجارت میں بھی نسبتاً آزاد روی کی پالیسی اختیار کی۔ افغانستان کے بارے میں روس کا ساتھ دینے کے باوجود اس نے آہستہ آہستہ امریکہ سے سلسلہ جنبانی شروع کیا۔ 1995 ء تک ان روابط نے ایک واضح شکل اختیار کر لی جس میں معاشی تعاون، تجارت میں روز افزوں اضافہ ، امریکی سرمایہ کاری میں اضافہ ، سیاسی معاملات میں مفاہمت، عراق کے خلا بھنگ سے مواقع پر امریکی ہوائی جہازوں کو تیل کی سہولت اور بالاخر جنوری 1995ء میں امریکہ کے ڈیفنس سیکرٹری سے باقاعدہ معاہدے کے تحت بھارت اور امریکہ کے درمیان مشترک جنگی مشقوں کا آغاز ہوا۔
اس زمانے میں ایک اور اہم عنصر امریکہ میں بھارتی تاجروں، صنعت کاروں اور خصوصیت سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اداروں کا کردار ہے۔ امریکہ میں بھارتی نژاد لوگوں کی تعداد میں گزشتہ میں سال میں چار لاکھ کا اضافہ ہوا ہے جو 1980ء کی تعداد پر 66 فیصد اضافہ ہے۔ انڈین سوفٹ ویئر نے امریکی مارکیٹ میں اپنا مقام بنایا اور صرف یہ تجارت 1991ء میں 45 ملین سے بڑھ کر 1999ء میں 5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس وقت امریکہ کی سیلی کون ویلی میں ایک لاکھ 25 ہزار بھارتی سوفٹ ویئر انجینئر کام کر رہے ہیں۔ امریکہ کے لئے بھارت کی کل بر آمدات گزشتہ سال 10 بلین ڈالر سے متجاوز ہو گئی ہیں جو بھارت کی کل برآمدات کا تقریباً 22 فیصد ہے۔ اس طرح بھارت کی کل در آمدات کا تقریبا 9 فیصد امریکہ سے آرہا ہے۔ امریکہ سے بھارت کا توازن تجارت بھارت کے حق میں ہے ( تقریباً 6 بلین ڈالر سالانہ فاضل) اس لئے امریکہ کی مصنوعات کے لئے بھارت کی منڈیوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ بھارت میں امریکی سرمایہ کاری میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت بھارت میں کی جانے والی بیرونی سرمایہ کاری میں امریکہ کا حصہ تقریباً ایک چوتھائی ہے اور تقریباً ساڑھے چار سو امریکی کارپوریشنیں بھارت میں مصروف سرمایہ کار ہیں۔
پاکستان سے تقابلی صور تحال کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بھارت کی امریکہ کو سالانہ بر آمدات (10 بلین ڈالر) پاکستان کی کل برآمدات (ساڑھے آٹھ بلین ڈالر سے زیادہ ہیں اور بھارت میں کی جانے والی صرف امریکی سرمایہ کاری (456) بلین روپے بھارتی) پاکستان کے کل سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے۔ بھارت نے صرف وزارت خارجہ اور واشنگٹن اور نیو یارک میں اپنے سفارتخانوں پر تکیہ نہیں کیا بلکہ بھارت نواز تنظیموں کا ایک جال بچھا دیا ہے۔ سوا سو سے زیادہ امریکی ارکان کانگریس بھارتی لابی کا حصہ ہیں اور امریکہ میں لائی کا بھارت نژاد ووٹر اپنے پیسے اور سیاسی اثر ورسوخ کو بڑے موثر انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کردار اتنا اہم ہے کہ اہم ہے کہ ایک مشہور بھارتی ماہر معاشیات پروفیسر جگ دیش بھگوتی جو کو لمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہے، کہتا ہے ہمارا رسوخ جس حقیقت کی بنیاد پر ہے وہ یہ ہے کہ بھارتی کمیونٹی میرے کہنے کے مطابق امریکہ کے اگلے یہودی ہیں۔ بہت زیادہ کامیاب، علمی طور پر بلند، معاشی طور پر نمایاں، ان افراد کو وہ تمام فوائد حاصل ہیں جو میرٹ پر مبنی انفار میشن کا رجحان رکھنے والا معاشرہ جیسا کہ امریکہ ہے، دے سکتا ہے۔
اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ہمارے نمایاں دانشور، آرٹسٹ، سائنس دان، پالیسی ماہرین اور تحقیق کار بار سوخ امریکیوں کیسا تھ آزادانہ میل جول رکھتے ہیں۔ میڈیا میں ہمارے مضامین بھی اس رسوخ کی وجہ ہیں۔ ایک ایسے سیاسی نظام میں جو نقد عطیات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہو، ہمارا سیاسی اثر و رسوخ اس لئے بھی برابر بڑھ رہا ہے کہ ہمارے تاجر خصوصاً انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ان نئے ارب پتیوں میں سے ہیں جن کو جناب کلنٹن، گور اور بش محض لالچ کیوجہ سے نہایت احترام سے دیکھتے ہیں۔
بھارت نے اپنا ہوم ورک بڑی ہوشیاری، مہارت اور چابک دستی سے کیا ہے۔ جسونت سنگھ اور ٹالبوٹ کی دس ملاقاتوں نے امریکہ کے پالیسی سازوں کی سوچ کو متاثر کیا ہے۔ جسونت سنگھ کی کتاب Defending India میں غیر جانبدار تحریک پر بہت زیادہ تنقید کی گئی ہے اور اس پالیسی کے 40 سالوں کو گم شدہ سال قرار دیا گیا ہے اور امریکہ سے دوستی ہی نہیں معاہداتی اور اداراتی تعلق کی بنیاد کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔
رکھی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ دستاویز بصیرت (Document) of vision اس کے ذریعے بھارت اور امریکہ ویسے ہی رشتہ تحالف میں جڑ گئے ہیں جیسا بھارت نے مشرقی پاکستان پر یورش سے پہلے روس سے 1970ء میں کیا تھا۔
کلنٹن کے دورے سے پہلے خارجہ سیکرٹری میڈلین البرائٹ نے ایک بڑا اہم بیان دیا جس میں کہا کہ ہم بھارت سے ماضی کے پچاس سالوں میں بے توجہی کے لئے معذرت کرتے ہیں اور کارل انڈر فرتھ نے صاف لفظوں میں یہ تک کہہ دیا کہ :
بھارت سے ہمارے مجموعی تعلقات کسی دوسرے ملک سے ہمارے تعلقات کے یر غمال نہیں ہوں گے۔
امریہ کے چوٹی کے اکیس دانشوروں نے ایک ٹاسک فورس کی طرف سے جس کی سر براہی مشہور بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے نائب صدر، اس کے فارن پالیسی سٹڈیز کے ڈائریکٹر رچرڈ ہاس نے کی، ایک رپورٹ تیار کی جس میں کلنٹن کو مشورہ دیا گیا کہ سرد جنگ کے بعد دنیا میں بھارت کے کردار کو مرکزی اہمیت دی جائے اور پاک بھارت تنازع اور نیوکلیئر معاملات کو اس نئے تعلق کی راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے، کشمیر کو پس پشت ڈالا جائے اور دہشت گردی اور اسلامی تشدد پسندوں کے خطرات کو اہمیت دی جائے۔ اس ٹاسک فورس نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ پاکستانی عوام سے ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے براہ راست خطاب کیا جائے۔
صدر کلنٹن کے وفد میں ایک بڑی تعداد امریکی تاجروں ، صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور بھارت نژاد امریکی پروفیشنل افراد کی تھی۔ اس ساری کوشش کا ہدف بھارت اور امریکہ کو ایک نئے تخالف میں باندھنا اور مستقبل کے تعاون اور فیصلہ سازی کے لئے تعاون اور مکالمے کا ایک نظام بنانا تھا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ پاکستان اور ان ایشوز کو پس پشت ڈالا جائے جو پاکستان کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ جس کے بارے میں صدر کلنٹن نے اپنے پہلے جنرل اسمبلی کے خطاب میں تشویش کا اظہار کیا تھا ، 14 جولائی کے اعلانیہ میں ذاتی دلچسپی کا وعدہ کیا تھا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اپنی صدارت کے ختم ہونے سے پہلے کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کر لوں گا۔ اس دورے میں اور اس کے بعد ایک ضمنی اور صرف دو طرفہ معاملہ رہ گیا ہے۔ اصل مرکزی مسئلہ دہشت پسندی بن گیا اور وہ بھی پاکستان کی دراندازیوں کی پیداوار کی حیثیت سے۔ چشم زدن میں صدر کلنٹن اور ان کی ٹیم کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی بھول گئے جن کا ذکر خود ان کی تقریروں، خطوط اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹوں میں کیا جاتا رہا۔ کشمیر میں جنگ بندی کے وقت بھارت کی فوجی تعداد 12 ہزار تھی جسے مزید کم کرنے کی بات کی گئی تھی۔ آج وہ 7 لاکھ سے زیادہ ہے جو بھارت کی کل بری فوج کے نصف کے برابر ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں 70 ہزار کشمیری جوان، بوڑھے اور بچے شہید کئے جاچکے ہیں لیکن اس ریاستی دہشت گردی کی کوئی خلش بھی اس دوسرے دور کے بیانات میں نظر نہیں آتی اور ہر دستاویز بصیرت سے لے کر صدر کلنٹن اور ان کے رفتاء کی تقاریر کا تجزیہ کیجئے صاف نظر آتا ہے کہ ڈپلومیسی کی زبان میں وہ لگ بھنگ وہی بات کہہ رہے ہیں جو بھارت کہہ رہا ہے یا ان سے کہلوانا چاہتا ہے۔ بھارت کی جمہوریت کے قصیدے گائے جارہے ہیں اور بھارت میں اقلیتوں پر جو ظلم و ستم جاری ہے اس کا کوئی احساس موجود نہیں۔ بھارت میں اس وقت سترہ آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں لیکن کلنٹن صاحب کو وہاں نسلی، لسانی اور مذہبی رواداری آہنگی ہی نظر آتی ہے اور دبے لفظوں میں اور بڑی چابک دستی کے ساتھ خود نیو کلیئر پالیسی میں بھی تبدیلی کے بیچ رکھوائے گئے ہیں۔ بھارت نیو کلیئر اسلحہ سے دنیا کو پاک کرنے کے موقف سے ہٹ کر صرف عدم پھیلاؤ کی طرف آگیا ہے جبکہ امریکہ نے بھارت کے سکیورٹی خدشات کو بالواسطہ تسلیم کر لیا ہے اور اسے علاقے ہی میں نہیں عالمی سطح پر قیادت کی اشیر باد دیدی ہے۔ دستاویز بصیرت میں یہ “بصیرت افروز اعلان موجود ہے کہ آئندہ صدی میں بھارت اور امریکہ علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی یقینی بنانے کے لئے باہم ذمہ داری اور مشترک مفاد کی خاطر امن کے لئے ساتھی ہوں گے۔ ہم ایشیا اور اس سے ماورا سٹر یجک استحکام کے لئے مل جل کر کام کریں گے اور باقاعدہ مشاورت جاری رھیں گے۔ ہم علاقائی امن کو در پیش چیلنج اور دہشت گردی کا مقابلہ کر۔ کے لئے مشترک کوششوں میں اضافہ کریں گے۔
: