معاشی ترقی کا نصب العین

بسم الله الرحمن الرحیم
اشارات
معاشی ترقی کا نصب العین؟
خورشید احمد
111
ہماری، خصوصاً پاکستانی حکمرانوں کی ساری تگ و دو کا منتہائے مقصود بالعموم ”معاشی ترقی” رہا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اپنی ترجیح اول یہی بتاتی ہے کہ ملک معاشی طور پر زیادہ سے زیادہ اور تیز رفتاری کے ساتھ “ترقی” کرے تاکہ ہمارا شمار بھی دنیا کی ترقی یافتہ خوش حال اور متمدن اقوام کی صف میں ہونے لگے۔۔۔ بہ ظاہر اس معصوم کی خواہش میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی ، مگر ایک لمحے کے لیے رک کر ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ صورت حال پر غور کر لینا چاہیے۔ آج کی دنیا میں یہ دو سوال بنیادی اہمیت اختیار کر چکے ہیں اور ان کا جواب مسلم دنیا کے مفکرین کے ذمے انسانیت کا قرض ہے: گذشتہ چالیس پچاس سال سے ترقی کا سفر خاص طور پر مسلم دنیا میں اور عموماً تیسری دنیا میں، قابل ذکر خوش حالی اور فلاح و بہبود کی منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے، تو کیا اس کے حصول کا کوئی
دوسرا طریقہ ہے؟
۲۔ سرمایہ داری اور اشتراکیت نے انسانیت کو جس بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے کیا اس سے نکلنے کا بھی
کوئی راستہ ہے؟ مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس متبادل راستہ موجود ہے۔ اسلام محض ایک مذہب نہیں جو بندے اور خدا کے درمیان ذاتی تعلق کا ذریعہ ہو، بلکہ یہ انسانیت کے جملہ مسائل بہ شمول معاشی امور میں رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ اس کی پیروی سے نہ صرف دنیا میں خوش حالی کی منزل حاصل ہوتی ہے بلکہ اخروی فلاح بھی یقینی ہوتی ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۹۸
۴
اشارات
اقتصادی طور پر خوشحال اور سیاسی طور پر غالب مغرب ہو یا ایشیا اور افریقہ کے غربت زدہ وہ نو آزاد ممالک ہوں، جن پر چند عشروں پہلے تک مغربی ممالک کا نو آبادیاتی تسلط تھا، دوسری جنگ عظیم کے بعد کے عہد میں ہر جگہ جس دیوتا کی پرستش کی گئی اس کا نام “ترقی” تجویز کیا گیا۔
تلط
c
جرمن سکالر وولف گینگ ساش کہتے ہیں: گذشتہ چالیس برس کو ترقی کا زمانہ کہا جا سکتا ہے….. روشنی کا وہ سر بفلک مینار جو ملاحوں کو ساحل کا نشان منزل دیتا ہے۔ “ترقی” ہی وہ تصور تھا جس نے ابھرنے والی اقوام کا جنگ کے بعد کا تاریخی سفر متعین کیا۔ جمہوریت ہو یا آمریت جنوب کے ممالک نے نو آبادیاتی ، آزادی کے بعد ترقی کو اپنی امنگوں اور آرزوؤں کا محور ٹھیرایا۔ چار عشروں کے بعد بھی دنیا کی کم و بیش تمام حکومتوں اور عوام کی نظریں اسی مینارہ نور” پر جمی ہوئی ہیں، حالانکہ وہ اب بھی ان کی پہنچ سے اتنا ہی دور ہے جتنا پہلے دن تھا۔ ہر چند کہ ترقی کے حصول کے لیے جتنی کوشش کی جائے اور جو قربانی دی جائے اس کا جواز یقیناً موجود ہے، لیکن نگاہیں جس روشنی پر مرکوز ہیں وہ بتدریج اندھیرے میں گم ہوا چاہتی ہے…… تب سے شمال اور جنوب کے تعلقات اسی پس منظر میں تشکیل پاتے رہے ہیں۔ “ترقی” نے ہی اس حوالے سے وہ بنیادی سانچا مہیا کیا جو دراصل فیاضی، رشوت اور استعماری غلبے کا مرکب ہے۔ یہی ہدف ترقی یافتہ شمال کی غیر ترقی یافتہ جنوب کے لیے مرتب کردہ پالیسیوں کی پہچان ہے۔ آدھی صدی ہونے کو آ رہی
ہے اور روئے زمیں پر اچھی ہمسائیگی کو اسی ترقی کی روشنی میں دیکھنے سمجھنے کی کوشش ہو رہی ہے”۔ لیکن یہ منظر اب تبدیل ہو رہا ہے۔ وولف گینگ ساش ہی کے بقول: “آج اس روشنی کے مینار میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور یہ دھڑام سے گرنے والا ہے۔ دانشوروں کے نزدیک یہ نام نہاد ترقی ایک ویرانہ ہے”۔ اور حقیقت میں اس دور کا اختتام قریب ہے اور اس کا مرضیہ لکھنے کا وقت آگیا ہے”۔
Wolfgang Sachs ed “The Development Dictionary: A Guide to Knowledge as Power,
(لندن، ریڈ بکس لمیٹڈ ۱۹۹۲ ص ۱۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایسے مرثیے منظر عام پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پہلا عالم گیر انقلاب” انجمن روم کی کونسل کی رپورٹ ہے جو عالمی سطح کے دانش وروں کی طرف سے اسی طرح کا ایک مرتبہ ہے۔ اسی تسلسل میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ ۱۹۹۲ ایک اور نوحہ ہے۔ اگر چہ اس کا انداز ذرا مختلف ہے۔ انجمن روم کے دانش ور اس طرح ابتدا کرتے ہیں: ”نئی صدی کی دہلیز پر انسانیت غیر یقینی اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ بلکہ گذشتہ ہزار سالہ عہد ، عظیم الشان تبدیلیوں کے ساتھ بے یقینی اور تذبذب کی ایک عبرت ناک تصویر پیش کر رہا ہے”۔
انجمن روم کی رپورٹ میں افسوس کے ساتھ یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ اس دوران ترقیاتی اقدامات کے نتائج غیر متوازن اور بیشتر مایوس کن رہے”۔ رپورٹ میں تنبیہ کی گئی ہے: ”عالمی غربت کے گھمبیر مسائل
ماہنامہ ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۹۸
اشارات
جن میں آبادی میں اضافہ سرفہرست ہے، ایسے انتشار اور ناہمواری کو جنم دے سکتے ہیں، جس کے عالم گیر نتائج سے صنعتی ممالک بھی اپنے آپ کو بچا نہیں سکیں گے” (ص xv)۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ” یہ بات خوش حال ممالک کے اپنے مفاد میں ہے کہ ترقی کے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے ایک نیا اور انقلابی طرز
عمل اختیار کیا جائے” (ص ۱۶)۔ اقوام متحدہ کی ہیومن ڈوپلمنٹ رپورٹ ۱۹۹۲ یہ حیران کن حقیقت بھی سامنے لا رہی ہے کہ تین عشرے کی نام نہاد عالمی ترقیاتی کوشش کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو گئے ہیں۔ ۱۹۶۰ کی پانچ ارب آبادی میں سے امیر ترین ایک ارب لوگ غریب ترین ایک ارب لوگوں سے ۳۰ گنا زیادہ مال دار تھے۔ مختلف ملکوں کے درمیان یہ فرق آخری اندازوں کے مطابق امیر ترین ۲۰ فی صد لوگوں کے غریب ترین ۲۰ فی صد سے تقریباً ۱۵۰ گنا زیادہ مال دار ہونے تک ہے۔ روزنامہ گارجین لندن کے اداریے میں یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ “ترقی پذیر ممالک مارکیٹ میں غیر مساوی شریک کار بن کر داخل ہوتے ہیں اور نامساوی حصہ لے کر پلٹتے ہیں (۲۴ اپریل ۹۲)۔ روزنامه گارجین کو اپنے اداریے میں یہ کہتے ہوئے تکلف ہے کہ بین الاقوامی ماہرین اقتصادیات اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں، تیسری دنیا اپنے ناکردہ گناہ کی پاداش میں جو تاوان ادا کر رہی ہے، یہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ کھلی فریب کاری ہے۔ البتہ وہ یہ ضرور مانتا ہے کہ اس طرز عمل کے نتائج وہی ہیں جو خود فریبی کے ہو سکتے ہیں۔ اداریے میں اس المناک نتیجے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ”دنیا کی آبادی کے ایک قابل لحاظ حصے کے لیے ترقی کے جن تین عشروں کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا، حقیقت میں وہ تنزل کے عشرے ثابت
ہوئے ہیں (۲۵ اپریل ۹۲)۔
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو خود امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی اندرونی کیفیت بھی چنداں مختلف نہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے متعلق کانگریشنل بجٹ آفس نے جو اعداد و شمار جاری کیے تھے، اس کے مطابق آبادی کے ایک فی صد اہم ترین حصے نے ۱۹۷۷ اور ۱۹۸۹ کے درمیان اوسط گھریلو آمدنی میں اضافے کا قریباً 20 فی صد حاصل کیا۔ اس عرصے کے دوران ۲۰ فی صد امیر ترین لوگوں کی آمدنی میں اضافے کا رجحان ہوش رہا ہے۔ اس حصے نے اوسط آمدنی میں 100 فی صد سے بھی زیادہ ہتھیا لیا۔ نتیجتاً ۴۰ فی صد غریب لوگ امیروں کے حق میں ۱۵ برس پہلے پانے والی آمدنی کے ایک بڑے حصے سے محروم کر دیے گئے (اداریہ
دی نیویارک ٹائمز حوالہ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون ۲۳ اپریل ۹۲)۔
عالمی سطح پر یہ وہ تناظر ہے جس میں ہم “ترقی” کے روگ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم کسی آئیندہ موقع پر وہ لائحہ عمل بھی تجویز کریں گے جس کے مطابق ترقیاتی پالیسی کی اسلامی تشکیل کی جاسکتی ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن
اشارات
انسانی نفسیات کی سب سے بڑی کمزور کی عجلت پسندی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے نصب العین، مقاصد مفادات اور اہداف کے حصول کے لیے ہمیشہ مختصر راستوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو جب سیاسی آزادی ملی تو اپنی اقتصادی اور سماجی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے ان کی تڑپ بجا طور پر بڑھ گئی۔ مغرب سے موازنہ کرتے ہوئے ان ممالک کو اپنی اتھاہ غربت اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کا احساس بہت زیادہ ستانے لگا۔ نو آبادیاتی تسلط کے دوران تیسری دنیا نے مغربی ترقی کی فتح مندیوں کی کئی داستانیں سنی تھیں۔ آزادی کی نعمت ملی تو ترقی کی نیلم پری کی خاطر انھیں مغرب کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دی گئی۔ ان کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اقتصادی ترقی میں دکھایا گیا۔
ترقی کی جستجو میں خوش حالی کا موثر ترین ذریعہ صنعت کاری نظر آئی۔ اس کے لیے تشکیل زر (capital formation) کو کلید بتایا گیا۔ بچت اور ادائیگی میں فرق کو ختم کرنے کا علاج، مغربی ٹکنالوجی کی در آمد اور غیر ملکی امداد کے سہارے کو سمجھا گیا۔ ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے در آمدات کے متبادل تلاش کرنے اور کسی حد تک برآمدات میں اضافہ کرنے کی پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ اقتصادی ترقی کا مغربی ماڈل“ وہ ”نیا دیو تا” تھا جس کی قربان گاہ پر باقی سب کچھ لٹایا گیا: اخلاقی اقدار ، ثقافتی ورثے، سماجی طور طریقے قومی رسوم، دین، غرض سبھی کچھ اس کے بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ فرض کر لیا گیا کہ قومی آمدنی (GNP) میں اضافہ ہو، تب ہی خوش حالی اور ترقی کا نیا دور شروع ہو گا۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے نقش قدم پر چل کر ہی انسانیت، خوش حالی کے نئے دور میں داخل ہو سکے گی۔ صورت حال کی یہ مختصر تصویر اگرچہ بہت تشنہ ہے، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ترقیاتی حکمت عملی کے جو مغربی ماڈل تھے، انھیں جن خوش رنگ نعروں میں پیش کیا گیا تھا، ان میں سادگی اور رواداری کا بھی چرچا تھا۔ خوب صورت اصطلاحات کی بھرمار نے انھیں زرق برق پیرہن میں ڈھانپ رکھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے باطن سے مغربی طرز حیات کی برتری کا متکبرانہ اظہار لازماً ہوتا رہتا تھا۔ مغربی ماڈل کو قبول کرنے کے لیے اس مختصر مراعات یافتہ طبقے کی طرف سے بڑے اشتیاق اور جوش و جذبے کا اظہار ہوا، جس کی تعلیم و تربیت مغرب میں ہوئی، جو نو آبادیاتی پالنے میں پروان چڑھا اور جسے واپس جاتے ہوئے سفید فام آقاؤں نے مقامی اقتدار سونپا تھا۔ لیکن قوت و اقتدار سے سرشار اس دیسی طبقے اور مغرب کا باہمی بندھن، آج سخت دباؤ سے دو چار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ترقیاتی حکمت عملی کو کامیاب کرنے کے لیے ان دو گروہوں نے شعبدہ بازی سے ” ترقی و خوش حالی کا خواب دکھایا تھا وہ مطلوبہ نتائج دکھانے میں ناکام رہا ہے۔ قریب قریب ہر ترقی پذیر ملک میں ایسی قابل لحاظ مقامی قوتیں موجود ہیں، جو مغربی ماڈل سے چنداں متاثر نہیں اور مسلسل
ماہنامہ ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۹۸
اشارات
ایسی راہوں کی تلاش میں سرگرم عمل ہیں، جو ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے ثقافتی تشخص کی بھی ضامن اور محافظ ہوں۔ مراعات یافتہ مغرب زدہ اقلیت کو ہر جگہ ان مقامی قوتوں کے چیلنج کا سامنا ہے۔ ترقی کے جس بے ربط ڈرامے سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی گئی تھیں، گذشتہ تیس برس کا ریکارڈ اس کے المناک انجام کی خبر دیتا ہے۔ ان اقوام کی قسمت پر غربت، اقتصادی زبوں حالی اور جمود کی کیفیت بدستور طاری ہے۔ صنعتی انقلاب کی دو صدیاں گزرنے کے بعد اور تین عشروں کے ترقیاتی طمطراق اور دھوم دھام کے باوجود یہ افسوس ناک نتیجہ سامنے آیا ہے کہ عالم انسانی کی غالب اکثریت غریب بھی ہے اور مناسب خوراک سے بھی محروم ہے، امراض کا شکار بھی ہے اور بیش تر غیر تعلیم یافتہ بھی، حتی کہ اسے سر چھپانے کی کم سے کم سہولت تک میسر نہیں ہے۔ عالمی بنک خود معذرت خواہانہ لہجہ میں اعتراف کر رہا ہے کہ نشان غربت و افلاس (poverty line) سے اوپر آمدنی کے حصول میں ناکامی ہوئی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک کی اندازاً ۴۰ فی صد آبادی غربت کی آخری حدوں (absolute poverty) کے بھی پیچھے
بھٹک رہی ہے۔
بلاشبہ اس ترقیاتی عمل کے نتیجے میں خوش حالی کے چند جزیرے“ ضرور ابھرے ہیں، لیکن معاشرے کی عمومی حالت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ زندگی کے مختلف شعبوں کو کوئی مثبت سہارا ملا ہے۔ سرمائے پر ضرورت سے زیادہ اصرار نے قیمتوں کے ڈھانچے، شرح مبادلہ ، ٹیکسوں کے نظام اجرتوں کے پیمانے اور ٹکنالوجی کی شکلوں کو مسلسل توڑ پھوڑ اور بگاڑ سے دوچار کر رکھا ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم پر کوئی توجہ نہ دی گئی، چنانچہ اقتصادی اور سماجی ناہمواریاں بڑھ گئی ہیں۔ روزگار کی فراہمی کے ضمن میں نتائج مطلوبہ معیار سے بہت ہی کم رہے۔ آبادی میں جو قدرتی اضافہ ہوتا ہے اس کے نتیجے میں محنت کشوں کی تعداد تو بڑھی ہے، لیکن اسے معیشت میں کھپانے اور روزگار دلانے کا مناسب اہتمام نہیں ہو سکا۔ در آمدات کے متبادل پیدا کرنے پر توجہ کے باوجود در آمدات ہی پر تکیہ بڑھتا جا رہا ہے۔ توازن ادائیگی عموماً ترقی پذیر ممالک کے لیے منفی رہا ہے، جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ زیادہ سے زیادہ ہو تا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے تیسری دنیا کی طرف سرمائے اور وسائل کا بہاؤ نہ صرف خطرناک حد تک کم ہوا ہے بلکہ بعض صورتوں میں النا چل پڑا ہے، یعنی لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔ توانائی کے بحران نے وسائل کی مشکلات میں مزید اضافہ کر
دیا ہے۔
یہاں چند الفاظ میں وہ بین الاقوامی پس منظر واضح کرنا بھی ضروری ہے جس میں تیسری دنیا کی ترقیاتی کوششوں کا اہتمام ہوا۔ نو آبادیاتی دور میں بین الاقوامی اقتصادی تعلقات کے لیے مغرب پر انحصار کا جو انداز اختیار کیا گیا تھا اس کی قوت اور گرفت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ غریب اور امیر اقوام میں فرق بڑھ رہا ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۹۸
A
اشارات
بین الاقوامی اشیاے تجارت کی قیمتوں میں جو بے ہنگم اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، اس کا بیشتر نقصان ترقی پذیر ممالک کو پہنچتا ہے۔ ان ممالک میں جو مالیاتی اور تجارتی پالیسیاں تشکیل پاتی ہیں وہ افراط زر کی حالت کو بگاڑتی
رہتی ہیں۔
چوبیس ترقی یافتہ ممالک میں سے میں ایسے ہیں جنھوں نے ترقی یافتہ ممالک سے در آمدات کے خلاف حفاظتی حصار قائم کیے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ترقی پذیر ممالک کو توازن ادائیگی کے سخت ترین مسائل کا سامنا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے معاملے کو سلجھانے سے قاصر ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ۱۹۹۲ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کو دنیا کے غریب ممالک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے فعال بنانا مطلوب ہے تو ان کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ بحرانوں کو قابو کرنے کے بارے میں کچھ نہیں سوچا جاتا، بلکہ انھیں ٹالا جاتا ہے۔ تیسری دنیا کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے که ”بین الاقوامی اقتصادی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ شمال اور جنوب کے درمیان مذاکرات اور مباحث اگرچہ بہت دھواں دھار رہے ہیں، لیکن نتیجے کے اعتبار سے امید کی کوئی کرن سامنے نہیں لاتے۔ در حقیقت اس خوفناک سرنگ کا دوسرا سرا بھی بڑا تاریک ہے۔
اس سے پہلے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں، ان کی بنا پر مذکورہ تمام تر نام نہاد ترقیاتی اقدامات سے مسلمان یکسر غیر مطمئن ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار سے عاری “ترقی” کے فلسفے نے انھیں مزید پریشان کر رکھا ہے۔ اس بے زاری کی گہری جڑیں مغربی ثقافت اور اس کی لادین آزاد روی میں پیوست ہیں۔ اس جعلی ترقی نے مسلمان معاشروں میں انتشار و افتراق کی کیفیت پیدا کر کے قومیتی، علاقائی اور طبقاتی جھگڑوں کو ابھار دیا ہے۔ مکمل طور پر مادہ پرستانہ طرز عمل اسلامی طریقہ زندگی اور تہذیبی روایات کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام معاشرے کی تشکیل اور اس کی اقتصادی و سماجی زندگی کی تنظیم کرتے ہوئے عدل و انصاف کی قدروں کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ وہ اخلاقی اور مادی حکمت عملی کے ایک حسین امتزاج کے ساتھ زندگی اور اس کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کو مذہبی اور دنیاوی طبقوں میں تقسیم کرنے کا ہر خیال اسلام کے لیے
نا قابل قبول ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ کھلے لفظوں میں اظہار نہ کرنے کے باوجود مغربی طرز عمل ہر دوسری ثقافت اور سماجی نظام کی تحقیر پر قائم ہے۔ قدم قدم پر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مغربی اقدار اور ثقافتی طور طریقے دیگر قوموں اور لوگوں پر زبردستی تھوپ کر ان کی اپنی ثقافت کو مسخ کیا جائے۔ ایسا کرتے ہوئے یہ دلیل دی جاتی رہی ہے کہ “جدیدیت اختیار کرنے کے لیے لازم ہے کہ مغربی فکر کی پیروی کی جائے”۔ یہ سب کچھ ایک
ماهنامه ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۹۸
اشارات
منظم اور مربوط شکل میں ”نظریہ انقلاب” کے نام پر پیش کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ جو اقدار اور ادارے مادی مقاصد کے حصول میں معاون ہیں اور مرغوب اور من پسند نتائج دیتے ہیں، وہی سماجی نظام چلانے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس عمل معکوس کے سبب دیرپا انسانی رویوں اور رسم و رواج کی جگہ مادی مسابقت نے لے لی ہے۔ اقتصادی ترقی کے نام نہاد عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے معاشرتی
اداروں، باہمی تعلقات کی نوعیت اور انعام و سزا کے طور طریقے تک بدلنا ضروری خیال کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک ترقی کا یہ عمل در حقیقت ثقافتی سامراج کی یلغار ہے۔ ان کے چند بڑے اعتراضات مختصراً درج ذیل ہیں:
–
مغرب کی طلسماتی تحریک کے تحت مادی خوش حالی کے ادھورے خوابوں نے مسلمان معاشرے میں فکری اور عملی سطح پر زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس فکر نے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں نقال ذہنیت کو پروان چڑھایا جو اختراعی جذبے اور تخلیقی صلاحیت کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس سے نہ صرف اخلاقی بگاڑ عام ہوا ہے، بلکہ یہ مسلم دنیا پر مغربی استعمار کے اقتدار کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا ہے۔ اس سے مغرب اور مغرب زدہ طبقات کا غیر اخلاقی گٹھ جوڑ مضبوط رہا ہے۔ مغرب کی ثقافتی غلامی میں جکڑے تیسری دنیا کے ان ممالک کی کل ترقی، مغربی مال کی کھپت پر منحصر ہے
ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت مغربی ترقیاتی حکمت عملی کے رواج نے مسلمان معاشرے کو کئی زاویوں سے ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس تقسیم میں جدید کے مقابل روایتی، آزاد خیالوں کے مقابل قدامت پسند (فی الحقیقت محتاط ، شہری کے مقابل دیسی امیر کے مقابل غریب وغیرہ کی منافرت اب عام ہے۔ اس طرز عمل سے نہ صرف سامراجی روایات کی بقا کا اہتمام ہوا ہے، بلکہ ایسی مسرفانہ عادات کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی جس نے جدید طبقے کو باقی معاشرے سے کاٹ کر انھیں مغربی دوستوں کا ہم رنگ بنا دیا ہے۔ یہ مراعات یافتہ اقلیت امیر تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور عام آبادی غربت کے چنگل میں گرفتار ہے۔ اس عمل سے اقتصادی اور سماجی تضاد نے جنم لیا ہے اور معاشرے میں تصادم اور تناؤ کے نئے نئے محاذ پیدا ہو گئے ہیں۔ زندگی کے طور طریقے اس انداز سے بدل رہے ہیں کہ ایک چھوٹا سا مراعات یافتہ اور شاہ خرچ طبقہ اپنی ہم وطن آبادی کی عظیم اکثریت پر مسلط ہو گیا ہے۔ اس طبقے کی قدریں اور روایات عوام الناس سے قطعی طور پر مختلف ہیں۔ قومی خود کشی کی اس دوڑ میں آگے بڑھ جانے والے لوگ اپنے ہم وطن بھائیوں کے دلوں سے دور اور ان کے لیے اجنبی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نام نہاد جدیدیت کا ہر نشان اکثریتی آبادی کی نفرت کا ہدف بن کر رہ گیا ہے۔ ترقی کا یہ پورا تجربہ حد درجہ مہنگا اور اسراف پر مبنی ہے۔ در آمدات کا متبادل پیدا کرنے کی نیم
ماهنامه ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۹۸
۱۰
اشارات
دلانہ کوششیں معیشت کی تکنیکی صلاحیت بڑھانے میں ناکام رہی ہیں۔ جب کہ اس بے سود طرز عمل نے لوگوں کو ایسی غیر ضروری آسائشوں اور طرز زندگی کا عادی بنا دیا ہے، جن کا یہ معاشرہ متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہونا چاہیے۔ ان ملکوں میں ایک شاہ خرچ معاشرہ پیدا کیا جا رہا ہے، جہاں بذات خود اشیاے صرف بہت قلیل ہیں۔ اشیا کی پیداوار اور خرچ کے انداز قطعی طور پر بے ہنگم ہو گئے ہیں۔ ان سے صرف مراعات یافتہ اقلیت کی بے جا خواہشات کا اظہار بے لگام امنگوں کی تکمیل کی صورت میں ہو رہا ہے۔ معاشرے کی غالب اکثریت کے لیے یہ سب کچھ کار بے خیر ہے۔
۴۔ بدقسمتی سے معاشرے کے عمومی مزاج میں ایسی بنیادی تبدیلی آ رہی ہے جو لوگوں کو لذت پسند انفرادیت کی طرف لے جا رہی ہے۔ قومی معاشی بنیاد کو مضبوط اور توانا بنانے کے بجائے ذاتی معیار زندگی کو باھر کرنے کی تحریک مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ ہر طرف بخل اور خیانت کے زہریلے کانٹوں کی فصل اگ رہی
ہے۔
۵ مغربی حکمت عملی کی تہ میں یہ تصور پنہاں ہے کہ اقتصادی ترقی کا عمل، سیاسی نظام، سماجی اداروں اور لوگوں کی اخلاقی تربیت میں مثبت اقدامات کے بغیر بھی جاری و ساری رہ سکتا ۔ ا ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ اقتصادی حالات میں تبدیلی آگئی تو پھر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف دائروں میں موجود نازک توازن خود بخود اس کے مطابق ڈھل جائے گا۔ حالانکہ اب تک کے نتائج یہ ہیں کہ معاشرہ تقسیم ہوا انتشار بڑھا اور ابهام رقابتیں اور بربادیاں عام ہو ئیں۔ ان عوامل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشرتی اجتماعیت اور سالمیت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا، جو اسلام کے انداز فکر و عمل سے یکسر مختلف ہے۔ اسلامی تصور معاشرت میں زندگی کے ہر پہلو اور شعبے میں ترقی کے اہداف سے ایسا حسین تعلق قائم کیا جاتا ہے جو انفرادی سطح پر ایک کامل شخصیت تشکیل دیتا ہے اور معاشرتی سطح پر عدل و توازن کی ضمانت مہیا کرتا ہے۔ اقتصادی ترقی کے خالص مادہ پرستانہ تصور کو اسلام مسترد کرتا ہے، کیونکہ اسلام عام محدود معنوں میں مذہب نہیں، بلکہ اس کا اپنا مخصوص اقتصادی اور سماجی پروگرام ہے۔ اس پروگرام کا محور دنیا کے متعلق اس کا مخصوص زاویہ نظر خاص اخلاقی قدریں اور منفرد اصول ہیں۔ تاریخی شہادت یہی ہے کہ مغربی افکار و نظریات اور اقدار کو جب بھی زبردستی مسلمانوں کے سر تھوپنے کی کوشش کی گئی تو نتائج ہمیشہ منفی نکلے۔ جدیدیت نے مسلم معاشرے کے ایک بہت محدود طبقے کو متاثر کیا ہے۔ اسے امت مسلمہ کی عظیم اکثریت میں راستہ بنانے اور جڑیں پھیلانے میں ناکامی ہوئی ہے۔ ایسی تمام کوششیں قطعی طور پر سطحی اور بے ثمر رہی ہیں، کیونکہ ان کا مطمح نظر مصنوعی تبدیلی تھا اور مصنوعی تبدیلی کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے، اس
ماہنامہ ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۹۸
اشارات
لیے ایسی کوششوں کا نتیجہ بھی منفی رہا۔ کئی مغربی ترقیاتی ماڈل اور ادارے ان معاشروں کے لیے کوئی نمونہ نہ بن سکے جنھیں ان کے لیے اڈل قرار دے کر تھوپا جا رہا تھا۔
مزید برآں، مغرب نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے جن حالات کے تحت مادی ترقی کی آج کے مسلمان معاشروں کے حالات ان سے مختلف ہیں۔ یہ محض ایک بے کار اور غیر حقیقی تصور ہے کہ ایک خاص تاریخی عمد میں جو کچھ مغرب میں ہوا وہی دوسری جگہ بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ خود آج کے مغرب میں بھی جدید مغربی نظریات و افکار کے خلاف رد عمل پایا جاتا ہے۔ بالخصوص وہاں کا نوجوان طبقہ زیادہ سے زیادہ ایسی چیزوں اور ایسے کلچر کی طرف راغب ہو رہا ہے، جنھیں “شاخت دشمن ” خیال کیا جاتا ہے۔ منظر کافی تبدیل ہو رہا ہے اور آج کا مسلمان، بالخصوص مسلم نوجوان ایسی چیزوں اور قدروں کو برداشت نہیں کر پا رہا جو مغربی غلبے کی علامت ہیں۔ مسلمان ذہن مکر کی چالوں” کو سمجھ چکا ہے اور اپنا “نقد حیات” خیالی دیوتاؤں کے لیے لٹوانے کے بجائے ان کے سراب سے نکل کر معاشی اور سماجی ترقی کی ایک نئی حکمت عملی کی تلاش اور جستجو میں ہے۔ اس کے لیے اقبال کی تلقین ہے:۔
خداے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
مکاں
فانی میں آنی ازل تیرا ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو
بند
عروس لالہ
ہے
ہے خون جگر پیدا
تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے