صحیح سمت سفر

 0

ماہنامہ ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۹۹
اشارات
سامنے آگئے ہیں۔ غلط فہمیوں اور خیالی مفروضوں سے دامن چھڑانے کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اگر ہم اپنی معیشت کو بین الاقوامی گرفت سے آزاد کر لیتے ہیں تو ہمارے لیے خارجہ پالیسی کو آزاد انداز میں مرتب کرنے اور چلانے کے غیر معمولی امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ مسلمان عوام ہمارے سب سے کچے دوست ہیں اور جن ممالک میں حکومتیں بیرونی اثرات کے تحت ہیں، وہاں بھی مسلمان عوام پاکستان کے لیے محبت رکھتے ہیں۔ اگر ہماری خارجہ پالیسی میں عوام کی تائید کا حصول ایک اہم ہدف ہو تو وہاں کی حکومتیں بھی اس اندرونی دباؤ کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ بدقسمتی سے جو ”بابو” خارجہ پالیسی بنانے کے ذمہ دار رہے ہیں، وہ خارجہ سیاست سے اس انقلابی پہلو کا ادراک ہی نہیں کر سکتے۔ جنرل پرویز مشرف کے حالیہ دورہ ترکی میں یہ پہلو بہت کھل کر سامنے آیا۔ ترک عوام پاکستان کے ساتھ ہیں لیکن ہمارے پالیسی ساز وقتاً فوقتاً ایسی حماقت کرتے رہتے ہیں جو عوام کی توقعات پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ٹرکش ڈیلی نیوز کے ۱۰ اور 11 نومبر کے شماروں میں اس روزنامے کے نمایندے کی رپورٹ اور اداریے کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سفارت کار زمینی حقائق سے کتنے ناواقف اور مسلمان امت کے احساسات اور عزائم سے کتنے نا آشنا ہیں اور محض اپنی نا حقیقت پسندی کی وجہ سے کیسے کیسے زریں مواقع کو ضائع کر رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کی سمت بدلے بغیر ہم عالمی غلامی کے نئے جال سے نہیں نکل سکتے۔
امریکہ کے بارے میں بھی واضح سوچ (clear thinking) کی ازحد ضرورت ہے۔ امریکہ کے عالمی مقاصد اور ہمارے قومی مقاصد اس وقت ہم آہنگ نہیں۔ ویسے وہ کبھی بھی ہم آہنگ نہ تھے اور امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے ہمیں استعمال کیا ہے۔ جب بھی آزمایش کی کوئی گھڑی آئی، اس نے پاکستان کے مفادات کو زک پہنچائی ، لیکن اب تو بات اتنی واضح ہے کہ خارجہ تعلقات کی نئی بنیادوں کو استوار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ حال ہی میں جو امریکی دستاویزات شائع ہوئی ہیں، اور ان میں روئیداد خان کی مرتب کردہ کتاب
The American Papers: Secret and Confidential, India Pakistan Bangla Desh
1973 – 1965 Documents (آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹) کا مطالعہ بہت چشم کشا ہے۔ اس میں ڈین رسک سے لے کر ولیم روجر تک ہر امریکی سیکرٹری آف اسٹیسٹ نے بھارت کو امریکہ کے مفاد میں سب سے اہم ملک قرار دیا ہے اور صاف کہا ہے کہ جب بھی ہمیں پاکستان اور بھارت میں کسی ایک کو ترجیح دینا پڑے تو وہ بھارت ہونا چاہیے۔ اور یہ وہ زمانہ ہے جب ہماری امریکہ سے خصوصی دوستی (special relationship) تھی، سرد جنگ کی وجہ سے ہم اس کے لیے ناگزیر تھے اور بھارت روس کا حلیف تھا! اب تو دنیا کے حالات بالکل بدل گئے ہیں اور امریکہ کی ترجیحات مزید واضح ہو گئی ہیں۔ بھارت کی متعصب ہندو حکومت (بی جے پی) لبرل اور جمہوری حلیف ہے اور پاکستان کو ایک بنیاد پرست اور تشدد کی

SKU: 6849817303b2c8619f33cc3e Categories: , ,

ماہنامہ ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۹۹
اشارات
سامنے آگئے ہیں۔ غلط فہمیوں اور خیالی مفروضوں سے دامن چھڑانے کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اگر ہم اپنی معیشت کو بین الاقوامی گرفت سے آزاد کر لیتے ہیں تو ہمارے لیے خارجہ پالیسی کو آزاد انداز میں مرتب کرنے اور چلانے کے غیر معمولی امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ مسلمان عوام ہمارے سب سے کچے دوست ہیں اور جن ممالک میں حکومتیں بیرونی اثرات کے تحت ہیں، وہاں بھی مسلمان عوام پاکستان کے لیے محبت رکھتے ہیں۔ اگر ہماری خارجہ پالیسی میں عوام کی تائید کا حصول ایک اہم ہدف ہو تو وہاں کی حکومتیں بھی اس اندرونی دباؤ کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ بدقسمتی سے جو ”بابو” خارجہ پالیسی بنانے کے ذمہ دار رہے ہیں، وہ خارجہ سیاست سے اس انقلابی پہلو کا ادراک ہی نہیں کر سکتے۔ جنرل پرویز مشرف کے حالیہ دورہ ترکی میں یہ پہلو بہت کھل کر سامنے آیا۔ ترک عوام پاکستان کے ساتھ ہیں لیکن ہمارے پالیسی ساز وقتاً فوقتاً ایسی حماقت کرتے رہتے ہیں جو عوام کی توقعات پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ٹرکش ڈیلی نیوز کے ۱۰ اور 11 نومبر کے شماروں میں اس روزنامے کے نمایندے کی رپورٹ اور اداریے کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سفارت کار زمینی حقائق سے کتنے ناواقف اور مسلمان امت کے احساسات اور عزائم سے کتنے نا آشنا ہیں اور محض اپنی نا حقیقت پسندی کی وجہ سے کیسے کیسے زریں مواقع کو ضائع کر رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کی سمت بدلے بغیر ہم عالمی غلامی کے نئے جال سے نہیں نکل سکتے۔
امریکہ کے بارے میں بھی واضح سوچ (clear thinking) کی ازحد ضرورت ہے۔ امریکہ کے عالمی مقاصد اور ہمارے قومی مقاصد اس وقت ہم آہنگ نہیں۔ ویسے وہ کبھی بھی ہم آہنگ نہ تھے اور امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے ہمیں استعمال کیا ہے۔ جب بھی آزمایش کی کوئی گھڑی آئی، اس نے پاکستان کے مفادات کو زک پہنچائی ، لیکن اب تو بات اتنی واضح ہے کہ خارجہ تعلقات کی نئی بنیادوں کو استوار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ حال ہی میں جو امریکی دستاویزات شائع ہوئی ہیں، اور ان میں روئیداد خان کی مرتب کردہ کتاب
The American Papers: Secret and Confidential, India Pakistan Bangla Desh
1973 – 1965 Documents (آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹) کا مطالعہ بہت چشم کشا ہے۔ اس میں ڈین رسک سے لے کر ولیم روجر تک ہر امریکی سیکرٹری آف اسٹیسٹ نے بھارت کو امریکہ کے مفاد میں سب سے اہم ملک قرار دیا ہے اور صاف کہا ہے کہ جب بھی ہمیں پاکستان اور بھارت میں کسی ایک کو ترجیح دینا پڑے تو وہ بھارت ہونا چاہیے۔ اور یہ وہ زمانہ ہے جب ہماری امریکہ سے خصوصی دوستی (special relationship) تھی، سرد جنگ کی وجہ سے ہم اس کے لیے ناگزیر تھے اور بھارت روس کا حلیف تھا! اب تو دنیا کے حالات بالکل بدل گئے ہیں اور امریکہ کی ترجیحات مزید واضح ہو گئی ہیں۔ بھارت کی متعصب ہندو حکومت (بی جے پی) لبرل اور جمہوری حلیف ہے اور پاکستان کو ایک بنیاد پرست اور تشدد کی

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “صحیح سمت سفر”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »