صوبائی خود مختاری اور مشترکہ مفادات کی کونسل

 0

ہیں۔ ہمارے انتخابی منشور کے تمام امور کی بنیادی روح یہی ہے کہ انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلیوں کے ذریعے عوام کو زیادہ اختیارات سونپے جائیں اور اس مقصد کے لیے مندرج ذیل اداروں کے آئینی اختیارات میں اضافہ کیا جائے۔
نمبرا، سینیٹ۔ نمبر ۲، مشترکہ مفادات کی کونسل نمبر ۳، قومی مالیاتی کمیشن۔ نمبر ۴، مسائل اور
ضروریات۔ نمبر ہ، ٹیکسوں کی آمدنی، آبادی، شہری و دیہی آبادیوں کا باہمی تناسب۔” آرٹیکل ۳۰۵ میں کہا گیا ہے کہ آئین میں موجود مرکزی اختیارات کی فہرست کا خاتمہ صوبوں کے مالی اور انتظامی اختیارات میں اضافہ ” آرٹیکل نمبر ۳۰۶ کھتا ہے “مرکزی حکومت اور اس کے زیر انتظام خود مختار اداروں میں صوبہ جاتی کوٹے پر صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ملازمین کا تقرر ” آرٹیکل نمبر ۳۱۰ کہتا ہے “مرکزی اختیارات میں کمی اور ان اختیارات کی عوام کی نچلی سے نچلی سطح پر درجہ بدرجہ منتقلی ہمارے سماجی شعور کے ارتقاء اور معاشرے کی مجموعی ترقی کے لیے لازمی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک زیادہ سے زیادہ اختیارات عوام کی سطح تک نہیں لے جائے جائیں گے صوبائی خود مختاری کے مسائل حل نہیں ہوں گے عوام کا اعتماد اور وفاق کا اعتماد بحال
نہیں ہو سکے گا۔” ایک شق جو بڑی اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسی منشور میں دیہی ترقی کا مربوط پروگرام، جواب پیپلز ور کس پرو گرام کھلاتا ہے کے بارے میں وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کے دائرہ کار کو بڑھا کر اس کو بلدیاتی اداروں کے زیر اہتمام لایا جائے گا یعنی اس وقت صوبائی خود مختاری کا جو متعینہ آئینی انتظامی ڈھانچہ ہے جو صوبوں اور لوکل گورنمنٹ سے آراستہ ہے اس کے ذریعے سے کام کو انجام دیا جائے گا یہ
واضح وعدہ پیپلز پارٹی کے منشور میں موجود ہے۔ اس کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کا منشور ہے یہ دوسری بنیادی پارٹی ہے جس نے اس طرح واضح طور پر وعدہ کیا۔ ان کے منشور میں دستوری اور قانونی اصلاحات کے ضمن میں یہ اہم بات کبھی گئی ہے کہ دفاع، ایٹمی توانائی، امور خارجہ، کرنسی اور وفاقی مالیات، بیرونی تجارت و مواصلات اور ایسے دوسرے امور جن پر مرکز اور متعلقہ صوبے یا صوبوں کے درمیان اتفاق ہے۔ ہم اس کے دائرے کو وسیع کرنا چاہتے ہیں لیکن یک طرفہ نہیں۔ جن پر مرکز اور متعلقہ صوبے یا صوبوں کے در میان اتفاق ہو وہ مرکز کے پاس رہیں گے باقی تمام اختیارات قانوناً صوبوں کو دے دیے جائیں گے اور انہیں مکمل صوبائی خود مختاری حاصل ہوگی نیز اس امر کا موثر انتظام کیا جائے گا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے فرائض دستور کے مطابق انجام دیں اور ان سے انحراف کا موثر
پاکستانی سیاست اور آئین
۵۷

SKU: 6849817303b2c8619f33c9ca Categories: , ,

ہیں۔ ہمارے انتخابی منشور کے تمام امور کی بنیادی روح یہی ہے کہ انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلیوں کے ذریعے عوام کو زیادہ اختیارات سونپے جائیں اور اس مقصد کے لیے مندرج ذیل اداروں کے آئینی اختیارات میں اضافہ کیا جائے۔
نمبرا، سینیٹ۔ نمبر ۲، مشترکہ مفادات کی کونسل نمبر ۳، قومی مالیاتی کمیشن۔ نمبر ۴، مسائل اور
ضروریات۔ نمبر ہ، ٹیکسوں کی آمدنی، آبادی، شہری و دیہی آبادیوں کا باہمی تناسب۔” آرٹیکل ۳۰۵ میں کہا گیا ہے کہ آئین میں موجود مرکزی اختیارات کی فہرست کا خاتمہ صوبوں کے مالی اور انتظامی اختیارات میں اضافہ ” آرٹیکل نمبر ۳۰۶ کھتا ہے “مرکزی حکومت اور اس کے زیر انتظام خود مختار اداروں میں صوبہ جاتی کوٹے پر صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ملازمین کا تقرر ” آرٹیکل نمبر ۳۱۰ کہتا ہے “مرکزی اختیارات میں کمی اور ان اختیارات کی عوام کی نچلی سے نچلی سطح پر درجہ بدرجہ منتقلی ہمارے سماجی شعور کے ارتقاء اور معاشرے کی مجموعی ترقی کے لیے لازمی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک زیادہ سے زیادہ اختیارات عوام کی سطح تک نہیں لے جائے جائیں گے صوبائی خود مختاری کے مسائل حل نہیں ہوں گے عوام کا اعتماد اور وفاق کا اعتماد بحال
نہیں ہو سکے گا۔” ایک شق جو بڑی اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسی منشور میں دیہی ترقی کا مربوط پروگرام، جواب پیپلز ور کس پرو گرام کھلاتا ہے کے بارے میں وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کے دائرہ کار کو بڑھا کر اس کو بلدیاتی اداروں کے زیر اہتمام لایا جائے گا یعنی اس وقت صوبائی خود مختاری کا جو متعینہ آئینی انتظامی ڈھانچہ ہے جو صوبوں اور لوکل گورنمنٹ سے آراستہ ہے اس کے ذریعے سے کام کو انجام دیا جائے گا یہ
واضح وعدہ پیپلز پارٹی کے منشور میں موجود ہے۔ اس کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کا منشور ہے یہ دوسری بنیادی پارٹی ہے جس نے اس طرح واضح طور پر وعدہ کیا۔ ان کے منشور میں دستوری اور قانونی اصلاحات کے ضمن میں یہ اہم بات کبھی گئی ہے کہ دفاع، ایٹمی توانائی، امور خارجہ، کرنسی اور وفاقی مالیات، بیرونی تجارت و مواصلات اور ایسے دوسرے امور جن پر مرکز اور متعلقہ صوبے یا صوبوں کے درمیان اتفاق ہے۔ ہم اس کے دائرے کو وسیع کرنا چاہتے ہیں لیکن یک طرفہ نہیں۔ جن پر مرکز اور متعلقہ صوبے یا صوبوں کے در میان اتفاق ہو وہ مرکز کے پاس رہیں گے باقی تمام اختیارات قانوناً صوبوں کو دے دیے جائیں گے اور انہیں مکمل صوبائی خود مختاری حاصل ہوگی نیز اس امر کا موثر انتظام کیا جائے گا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے فرائض دستور کے مطابق انجام دیں اور ان سے انحراف کا موثر
پاکستانی سیاست اور آئین
۵۷

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “صوبائی خود مختاری اور مشترکہ مفادات کی کونسل”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »