عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات

مغرب اور اسلام
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
پروفیسر خورشید احمد ترجمہ: میاں محمد اکرم
عالمی سرمایہ دارانہ نظام ( گلویل کی علوم ) اپنی نئی شکل و شباہت کے باوجود عمومی طور پر عالم گیریت ( گلوبلائزیشن) کی طرح کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ نہ تو اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی نظام سرمایہ داری بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے اور نہ انسانی وسائل، کمپیوٹر (Micro-Chip) کے بڑھتے ہوئے کردار کو کسی صورت میں کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ چیزیں اور جغرافیائی حدود بہت اہم سہی لیکن اس کے ساتھ کچھ دوسرے بنیادی مسائل بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
مجھے عالمی سرمایہ داری کے ہاتھوں انسانیت کو در پیش عالمی چیلنج کے اخلاقی، انسانی اور برابری کی بنیاد پر حقوق کو درپیش خطرات اور صدمات کے حوالے سے برابر تشویش ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں افراد، اقوام اور معاشروں کے حوالے سے بھی یہ مسائل زیادہ گہرے اور نہایت پیچیدہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالم گیریت، مختلف جغرافیائی اور تہذہبی پس منظر رکھنے کے باوجود کس طرح اس چیلنج کا جواب دے رہی ہے؟ یہ عالم گیریت کیا انسانیت کو ایک غالب معاشی نظام، یعنی عالم گیر نظام سرمایہ داری کی طرف لے کر جا رہی ہے، یا تکثیریت پر مبنی دنیا میں مختلف نظاموں کے پھلنے پھولنے کے ساتھ ،مستقبل میں انسانیت زیادہ بہتر حالت میں ہوگی ؟
گذشتہ چھے صدیوں سے نظام سرمایہ داری ایک زبر دست قوت کے طور پر موجود ہے۔ یہ نظام تاجرانہ سرمایہ داری سے صنعتی سرمایہ داری، مالیاتی سرمایہ داری، اخلاقی سرمایہ داری
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ ئی
۵۹
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۶۰
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
اور ریاستی سرمایہ داری سے ہوتا ہوا، اب عالم گیر سرمایہ داری تک آ پہنچا ہے۔ اس نظریے کا تنقیدی جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ جس مقام پر آج انسانیت کھڑی ہے، اسے بھلا کس طرح تاریخ کا اختام (End of History) کہا جاسکتا ہے، کہ جہاں پوری نوع انسانی کے پاس عالم گیر معاشی نظام کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے؟ ان معروضات میں نظام سرمایہ داری کے اصولوں کی تشریح غیر روایتی انداز سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نقطۂ نظر سے عالم گیر نظام سرمایہ داری کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے ایک ایسی عالم گیر معیشت اور عالم گیر معاشرت کا نقشہ بھی پیش کیا گیا ہے، جہاں مختلف نظام کچھ مشترک اقدار، ترجیحات، مقاصد و اہداف ، تعاون کے میدان اور اسی طرح کے اہم میدانوں میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوئے اکٹھے موجود رہیں، اور مختلف طریقے اختیار کرتے ہوئے مسلسل ابھرتے ہوئے نئے نئے درپیش مسائل اور چیلنجوں کا جواب بھی پیش کر سکیں۔ اسے ایک اختلافی (dissent) آواز بھی قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں بہر حال بہتری کا کچھ پہلو بھی
سرمایه دارانه نظام: بنیادی تصورات اور ارتقا
سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا معاشی نظام ہے، جس کی بنیاد نجی ملکیت اور نجی کاروبار پر ہے۔ اس میں معاشی زندگی کا ایک بڑا حصہ خصوصاً اشیائے سرمایہ کی ملکیت اور سرمایہ کاری تجھی ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ افراد اور کاروباری ادارے، منڈی کی میکانیت (خرید وفروخت اور لین دین) کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے مقابلے میں برسر پیکار ہوتے ہیں۔ نظام سرمایہ داری کی بنیاد ان فطری اقدار اور اصولوں پر رکھی گئی ہے، جن کا خاکہ نظام سرمایہ داری سے بہت پہلے انفرادی طور پر تیار اور مرتب کیا گیا، اور اس کی سمت کا تعین کرنے کے لیے یورپ میں نشات ثانیہ کے بعد کے عرصے میں ایک مضبوط عقلی، سیاسی، ثقافتی، تکنیکی اور معاشی ترقی کی بنیاد پر ایک سمت دی گئی ( یہ عرصہ چودھویں صدی سے انیسویں صدی کے درمیان کا ہے )۔ ایک معاشی نظام کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں :
ا۔ ذاتی مفاد، ۲- نجی ملکیت اور ذاتی کاروبار، ۳۔ نفع کے حصول کا داعیہ، ۴۔ منڈی کی
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
บ
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
میکانیت، ۵- آزاد کاروبار کے اداراتی تحفظ کو یقینی بنانے والا معاشرہ ، ۶ – کاروباری حقوق اور معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے قانونی ضوابط کی تشکیل، ۷۔ لین دین میں زر کا کردار ، ۸- اچھی حکومت اور سیاسی استحکام براے داخلی اور خارجی امن وسلامتی ۔
بینتھ
انسان کی معاشی زندگی میں اشیا کے باہم تبادلے کے نظام (Barter System) کے بعد اُبھر نے والے معاشی نظاموں میں درج بالا اصول انفرادی حیثیت میں کسی نہ کسی طور موجود رہے ہیں۔ باوجود یکہ ان کی شکل وصورت اور سمت مختلف معاشروں اور مختلف ادوار میں مذہبی، اخلاقی ، سماجی اور سیاسی پس منظر سے مخصوص رہی ہے۔ جاگیرداری نظام کے زوال ، نشات ثانیہ کے فروغ ، یورپ کے ابھرنے اور بڑے یورپی ممالک کی ٹکنالوجی اور سیاسی حدود میں وسعت نے اس پس منظر کو ترتیب دیا، جس میں جدید نظام سرمایہ داری ابھر کر سامنے آیا۔ سومبارٹ، میکس و بیبر، رابرٹ نانی جیسے اسکالرز کی طرف سے پیش کیے گئے اخلاقی اصولوں اور کچھ ثقافتی رویوں کے علاوہ کانٹ، والٹیر، ہیوم، روسو، ہابز پتھم ، ایڈم سمتھے اور دوسرے دانش وروں کی طرف سے پیش کی گئی نئی فکر نے ایک نئی معاشرتی اخلاقیات کو جنم دیا، جس نے ایک نئے نظام کی بنا ڈالی۔ اس کا نام اس کے معترضین کے نزدیک مسیحی سرمایہ داری نظام ہے۔ نئے نظام یعنی کیپٹل ازم کی اہم خصوصیات میں نفع اندوزی، پیدایش دولت اور غیر منظم قوت اور اثر و رسوخ کا حصول شامل ہیں۔ اس نئے نظام کا یہ کردار اس کی اوپر بیان کردہ خصوصیات ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ کا روباری لوگوں کے ایک گروہ کی طرف سے تشکیل دیا گیا ہے۔ وہ نہ صرف تجارت اور سامراجی استحصال کے ذریعے دولت حاصل کرنے کے قابل تھے بلکہ معاشی وسائل کی پیدائیش میں جدت کے لیے نئی ٹکنالوجی کے استعمال پر حاوی تھے۔ اس نے صنعتی انقلاب، دیہی معاشرت کے شہری زندگی میں منتقل ہونے (urbanisation) اور بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تجارت کی راہ ہموار کی۔ اس طرح طاقت کا توازن اس نئے گروہ کی طرف منتقل ہو گیا۔ معاشی اور سیاسی تعلقات کے تمام رشتے، سرمایے اور سرمایہ کاروں کے اس اہم کردار کی روشنی میں تشکیل پانے لگے۔ معاشی رویوں کا اظہار مقابلہ بازی سے ہونے لگا اور فیصلہ سازی کا مؤثر ذریعہ منڈی کے لین دین اور کاروبار سے منسلک
ہو گیا۔ معاشرے کی تقسیم دولت مند اور محنت کش طبقوں کی صورت میں فروغ پانے لگی۔
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۶۲
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
نیا نظام جن عقلی بنیادوں پر استوار ہوا وہ یہ ہیں کہ : ۱- فرد معیشت کا بنیادی ستون بن گیا۔
۲۔ فرد کے ذاتی مفاد کا اظہار مالی ادائیگی، زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین ، اور نفع اندوزی کی صورت میں نظام کی حقیقی بنیاد بن گیا۔
یہ دعوی کیا گیا کہ اس نتیجے میں فرد کو بہت کچھ حاصل ہوگا۔ معاشیات میں ہر جگہ ذرائع کی بہترین حد بندی کی جاسکے گی، جس کے نتیجے میں کارکردگی بہتر ہوگی اور معاشی دوڑ میں حصہ لینے والے بہترین نفع (reward ) حاصل کر سکیں گے۔ اس طرح ذاتی مفاد کام کروانے کی واحد نہیں تو غالب قوت بن گیا۔ اسی طرح دولت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ سب سے بڑی خوبی اور زندگی کا سب سے بڑا تحفہ قرار پایا۔ خواہشات اور ان کو پورا کرنے کا جذ بہ معاشرے کی بنیادی قدر قرار پا گیا۔ ریاست کا کردار صرف ایسے حالات اور ماحول کو پیدا کرنے تک محدود کر دیا گیا جس میں یہ نظام اچھے طریقے سے چل سکے ۔ عدم مداخلات کو ریاست کے اندر اور عالم گیر سطح پر ایک رہنما اصول کے طور پر اختیار کیا گیا۔ اس نظام کے نتیجے میں صنعتی و کاروباری سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے درمیان ایک مضبوط اتحاد وجود میں آگیا۔ اس مضبوط سیاسی و معاشی اتحاد نے نئے سرمایہ دارانہ نظام کو پوری طرح رو بہ عمل آنے کے قابل کیا اور اسے غیر معمولی ترقی دینے اور عالم گیر سطح پر پھیلنے کا موقع دیا۔ نظام سرمایہ داری اور سامراجیت ایک دوسرے کے ہم نوا بن کر ایک دوسرے کو بھر پور امداد اور قوت فراہم کرنے لگے۔ ثقافتی عملی ، عقلی اور سماجی عوامل کی اثر اندازی کے نتیجے میں لادینی اور سیکولر بنیادوں پر معاشروں کی تشکیل ہوئی۔ مذہب اور روایتی اخلاقیات کے بندھن کمزور پڑ گئے۔ دولت پرستی نے ایک نئے طرز زندگی کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں دولت کی نمایش اور مفاد پرستی بڑھ گئی۔ مزید بر آں ذاتی مفاد کی چکا چوند اور بے لگام انفرادیت پسندی ہی سماجی نظام کے ستون بن گئے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو باہمی تصادم، عدم مساوات اور نا انصافی پر مبنی تھا۔ اس نئی آزاد روی (لبر لائزیشن) اور موقع پرستی نے تخلیقی صلاحیتوں، جدت طرازی ، مہم جوئی اور انتظامی صلاحیتوں کو فروغ دیا۔ جس کے نتیجے میں زبر دست معاشی ترقی اور مادی دولت وجود میں آئی، تاہم یہ دولت صرف مراعات یافتہ طبقے تک ہی محدود رہی ۔
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۶۳
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
مفادات کے اس تصادم، آمدنیوں اور دولت کی تقسیم میں گہری ناہمواری اور دولت مندی کی برق رفتار اڑان نے معاشرے کو طبقات میں تقسیم کر دیا، اور ایک ایسا منظر پیدا کیا، جسے ماہرین سماجیات سوشل ڈارونزم (Social Darwinism) کا نام دیتے ہیں، یعنی ایسا نظام جس میں: مقاصد کے حصول کے لیے ہر ذریعہ اختیار کرنا جائز ہے۔ ا۔ جیسے جدید اصول نے اس صورت حال کو مزید گمبھیر بنا دیا۔ یوں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں ترقی کے ثمرات معاشرے کے تمام افراد کے مابین منصفانہ بنیادوں پر تقسیم نہ تھے۔ گویا کہ عالم گیر سطح پر یہ نظام سامراجی استحصال کا علم بردار بن گیا۔ چودھویں اور اٹھارھویں صدی کے درمیان ہونے والی مختلف النوع ترقی کو سرمایہ داری کا تشکیلی (formative) دور کہا جاتا ہے، تاہم اس نظام کو حقیقی فروغ اٹھارھویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے اختتام کے دوران حاصل ہوا۔ بیسویں صدی میں اس نظام کی مزید ترقی کے ساتھ ساتھ سوشلزم اور اس کے دیگر حریف بڑے بڑے چیلنجوں کی صورت میں ابھرے اور پھر بیسویں صدی ہی کے اختتام تک بکھر گئے۔
دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹ئ-۱۹۴۵ئ) کے بعد کا دور اس نظام کی بھر پور ترقی کا دور ہے۔ خصوصاً ۱۹۸۹ ء میں دیوار برلن کا ٹوٹنا کمیونزم کے خاتمے کا علامتی اعلان تھا۔ اس کے بعد سابقہ کمیونسٹ ریاستوں اور کسی تیسرے نظام کے لیے کوشاں ممالک میں نظام سرمایہ داری کا نفوذ اس نظام کی بالا دستی اور عروج کا دور ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر دنیا بھر میں نظام سرمایہ داری ایک غالب معاشی نظام کے طور پر موجود ہے۔ باوجو یکہ ترقی پذیر دنیا کا بہت بڑا حصہ غربت، بھوک، بیماری اور محرومی کی گرفت میں ہے، خاص طور پر افریقا، لاطینی امریکا اور جنوبی ایشیا ۔ مشرقی ایشیا کی مالیاتی منڈیوں میں ہونے والی تباہی اور دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی مالیاتی ہلچل نے اس نظام کے تحفظ اور استحکام کو مضبوطی عطا کر دی ہے۔
روس اور مشرقی یورپ کے کچھ ممالک میں معاشی نج کاری اور معاشی آزاد روی (لبر لائزیشن) کے تجربات نے اجنبی زمین پر نظام سرمایہ داری کے زوال کو روز روشن کی طرح واضح کیا ہے۔ عالم گیر نظام سرمایہ داری کی دو جہتیں ہیں: ۱- یہ غیر مغربی ممالک کے لیے ایک چیلنج ہے۔
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۶۴
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
۲ – یہ نظام سرمایہ داری کے لیے بذات خود ایک چیلنج ہے کہ وہ نظام سرمایہ داری کے اندر سے اٹھنے والے لا یخل مسائل کو کیسے حل کرے؟ صرف ایک روشنی کی کرن یہ ہے کہ ہر چیلنج در اصل ایک اور
موقع ہوتا ہے۔
عالم گیر نظام سرمایه داری: کیا پایا،کیا کھویا
تین صدیوں پر محیط سرمایہ دارانہ تجربے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ: معاشی ترقی، پیداواریت، تخلیق اور جدت طرازی کی بے مثال کامیابیوں کے ساتھ ساتھ یہ ناقابلِ معافی حادثات اور سماجی وانسانی حوالوں سے نامساوات کی ملی جلی تصویر پیش کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی اور سرمایہ دارانہ نظام کے ناقد (بشمول کارل مارکس ) اس نظام کے پیدائیش دولت کے زبردست کردار پر متفق ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جو معاشی ترقی اور دولت مندی نظام سرمایہ داری کی قیادت میں حاصل کی گئی ہے وہ نظام سرمایہ داری سے پہلے کی تمام معاشی سرگرمی سے زیادہ ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی میں نظام سرمایہ داری کو چیلنج کرنے والا متبادل اشترا کی نظام، دولت کی پیدایش کے حوالے سے نظام سرمایہ داری سے بہت پیچھے رہا ہے اور اپنی خامیوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا، جب کہ اس کے مقابلے میں نظام سرمایہ داری زمانے کے نشیب وفراز اور انقلابات کے باوجووا نظر آتا ہے اور تخلیق، جدت طرازی اور صنعت کاری و ہنر مندی کو فروغ دینے کا باعث دکھائی دیتا ہے۔ اگر استعداد کار کی تعریف طبعی اور مادی نقطۂ نظر سے کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جیسے تیسے اس نظام نے استعداد کار کا ایک معیار قائم رکھا ہے۔ فرد کے محوری کردار اور آزادی ، جدوجہد، موقع ملنے پر فوری عمل اور کامیابی پر انعام نے اس نظام کے اعتبار کو دوام بخشا ہے اور جس نظام نے اسے چیلنج کیا اس پر اپنی تقابلی برتری کو ثابت کیا ہے۔ معاشی فیصلہ سازی میں منڈی کی میکانیت اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کے باجود زیادہ مستعد ثابت ہوئی ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر کچھ مفروضات، اقدار اور اصولوں پر قائم کیا گیا تھا، جو بڑی بھلی انسانی فطرت سے مطابقت رکھتے ہیں اور معیشت کی فطری حالت سے قریب تر ہیں۔ اس لیے سرمایہ داری نے ، با وجود بہت کی ناکامیوں کے ، اپنی قوت کو ظاہر کیا اور قائم رکھا ہے، اور اشتراکیت (کنٹرولڈ اکانومی ) پر اپنی برتری اور قابل عمل ہونے کو ظاہر کیا ہے۔ نظام سرمایہ داری نے اپنے
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
فعال اور لچک دار نظام کے ذریعے صورت حال کا مقابلہ کیا۔ جس میں پیش آمدہ حالات سے مطابقت پیدا کرنے اور ٹکنالوجی کے مؤثر استعمال سے اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تبدیلیوں میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں جغرافیائی حدود کو پار کرنے اور عالم گیر حیثیت حاصل کرنے کی استعداد بھی موجود ہے۔ نظام سرمایہ داری اور جمہوریت میں تعلق کے بارے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں۔ تاہم یہ امر واقع ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں مثبت آزادی کے مقابلے میں منفی آزادی اور اس کے ذمہ داروں میں بہت زیادہ امیر لوگوں کی موجودگی کی وجہ ، دولت کا ارتکاز ہے۔ بحیثیت مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ داری، جمہوری عمل اور آزادی میں بہت زیادہ ہم آہنگی ہے۔ یہ پس منظر نظام سرمایہ داری کا مثبت پہلو پیش کرتا ہے، تاہم اس کا دوسرا پہلو بہت ناگوار اور اذیت ناک ہے۔
بے لگام انفرادیت اور اجتماعیت میں تصادم: فرد کی اہمیت یا انفرادیت پسندی (Individualism) کا رواج ایک بہت بڑی انسانی کامیابی قرار دی گئی تھی ، لیکن محض فرد کی اہمیت کسی صحت مند اور ہم آہنگ معاشرے کو یقینی نہیں بنا سکتی ۔ معاشرہ اور ریاست، انسانی زندگی کے اہم پہلو ہیں۔ فرد کی اہمیت کسی خلا میں ممکن نہیں ہے۔ اس کا قیام دوسرے انسانوں اور اداروں کے ساتھ ہم آہنگی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ ایک صحت مند مبنی بر انصاف اور ہمدرد معاشرہ صرف اسی صورت میں وجود میں آسکتا ہے کہ جب فرد اور معاشرے کے درمیان ایک مناسب رشتہ قائم
ہو۔
انفرادیت پسندی بھی انسان کو کلیت پسندانہ (Totalitarianism)، اشتمالیت اور بے لگام ریاستی طاقت کے سے انداز میں پاگل پن میں مبتلا کر سکتی ہے ۔ فرد کو ملنے والے فوائد اور ساجی بھلائی دونوں ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ ہر معاشرے میں افراد کے مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ لیکن ہر معاشرہ اس طرح کے تعلقات کار کو فروغ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ اختلافات اس طرح کم ہوتے ہیں کہ فرد کی بھلائی اور سماجی بھلائی کے مقاصد بیک وقت حاصل کیے جاسکیں۔ فرد کی بھلائی اور عوامی بھلائی دونوں کو ان کا مقام دیا جائے تو ایک پر وقار معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو اہمیت نہ دینے سے معاشرتی اور معاشی انضطراب
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۶۶
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
پیدا ہوتا ہے۔ اگر سوشلزم کی غلطی اجتماعیت کی انتہا تھی تو اس کے مقابلے میں سرمایہ داری کی ناکامی کو اس کی بے لگام انفرادیت میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ باوجود ان تمام سنجیدہ کوششوں کے، جو انفرادی اور سماجی بھلائی، ذاتی اور معاشرتی مقاصد کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کی گئیں، ان کے درمیان تصادم تقریبا ہر سطح پر قائم رہا۔
مقابلے اور منڈی کی معیشت کی بنیاد: معیشت کے تمام عوامل بشمول صنعت کاروں اور صارفین، فروخت کنندگان اور خریداروں، آجروں اور اجیروں، منافع کمانے والوں اور اجرت پر کام کرنے والوں، سب کے درمیان مکمل معلومات کی موجودگی اور ان کی حیثیت اور قوت سودا کاری کی برابری کے مفروضات پر رکھی گئی تھی۔ معاشی انفرادیت کا جو تصور ایڈم سمتھ اور ریکارڈو کی تحریروں میں پیش کیا گیا ہے اور جو منڈی کی معیشت کے مفروضات میں داخل ہے، وہ صرف معاشیات کی نصابی کتب اور سرمایہ داری کے ریاضیاتی طریقوں میں نظر آتا ہے۔ حقیقی دنیا میں اس کی غیر موجودگی کا اظہار بڑے پیمانے پر عدم مساوات کی صورت میں ہوتا ہے، اور بہت سے پہلو منڈی کی ان قوتوں کو کنٹرول کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے میں اثر انداز میں ہوتے
ہیں۔
بڑی مچھلیاں نہ صرف تالاب کو کنٹرول کرتی ہیں، بلکہ بے بس چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں۔ اشیا پر مشتمل منڈی کی اجارہ داریاں، عالمین پیدائیش کے ذرائع پر مشتمل منڈی کی اجارہ داریاں اور چند بڑی قوموں کی معاشی استعماری اجارہ دارانہ قوتیں منڈیوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ منڈی کی غیر متوازن کارکردگی اور خرابیاں، داخلی اور عالم گیر سطح پر معیشت کے لیے تباہی کا باعث ہیں ۔ ان کی وجہ سے طبقاتی کش مکش، علاقائی دشمنیوں، قومی لڑائیوں اور عالم گیر سطح پر تصادم کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ یہ نظام مراعات یافتہ طبقوں اور افراد کی بقا اور طبقاتی تقسیم پر منتج ہوا ہے۔ طاقت اور دولت مندی میں عدم مساوات اس نظام کی بنیاد ہے، جو خرابی ، استحصال اور عدم مساوات کو فروغ دینے کا باعث ہے۔ وسائل کی غیر منصفانه تقسیم: یہ تشویش ناک صورت حال ہمیں معیشت اور معاشرے میں شدید نوعیت کی ناہمواری کا منظر دکھاتی ہے۔ یہ صورتِ حال انصاف اور برابری کے
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۶۷
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
حصول میں ناکامی کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ معاشرے کے مختلف افراد مختلف اقوام اور علاقوں میں دولت، آمدنی اور وسائل کی تقسیم بڑے پیمانے پر غیر مساویانہ ہے۔ یہ نظریہ کہ جب پانی اونچا ہوتا ہے تو ساری کشتیاں بلند ہو جاتی ہیں سرمایہ دارانہ نظام کے اس روپ میں سچ ثابت نہیں ہوا، بلکہ اس میں بہت سی کشتیاں ڈوب جاتی ہیں اور ان کو بچانے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ یہ نظریہ کہ فوائد آہستہ آہستہ نیچے تک پہنچتے ہیں غیر مؤثر ثابت ہو چکا ہے۔ فراوانی کے درمیان غربت، خوش حالی کے ساتھ بھوک، شاہ خرچوں کے ساتھ محرومی ، نظام سرمایہ داری کے رستے ہوئے ناسور ہیں۔ معاشی اعتبار سے ترقی پذیر دنیا کے زیادہ تر ممالک معاشی ترقی ، بہبود اور فی کس آمدنی کے حوالے سے کم و بیش اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں آج کے سرمایہ دارانہ ممالک اٹھارھویں صدی کے وسط میں تھے۔ نظام سرمایہ داری کی ترقی کے ۳۰۰ برسوں میں اکیسویں صدی کے آغاز میں صورت حال تبدیل ہو چکی ہے جس کے مطابق دنیا کی ۲۰ فی صد آبادی والے امیر ترین ممالک دنیا کی خام داخلی پیداوار (GDP) کے ۷ ۸ فی صد کے مالک ہیں، جب کہ دنیا کی بقیہ ۸۰ فی صد آبادی صرف ۱۳ فی صد خام داخلی پیداوار کی مالک ہے۔ یہ تفاوت نہ صرف عالم گیر سطح پر امیر اور غریب ممالک اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بڑھ رہا ہے بلکہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے کے امیر اور غریب طبقات کے درمیان بھی روز افزوں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ طرز پر ترقی کا ناگزیر نتیجہ ہے اور اس صورت حال کا تدارک کرنے کے لیے نئی منڈیوں کے ساتھ ساتھ معاشی دائرے سے باہر بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشی تفاوت اور خواہشات کی ترجیح: معاشی ترقی کا حصول ایک بڑی مثبت کامیابی ہے، تا ہم معاشرے کے تمام طبقات کی فلاح و بہبود کے حصول کے حوالے سے قابل ذکر تحفظات موجود ہیں۔ انسانی ضروریات کی ایک معروضی سمت ہوتی ہے۔ لیکن نظام سرمایہ داری میں ان انسانی ضروریات کا احساس کرنا کوئی زیادہ اہم نہیں ہے۔ جو چیز اہم ہے وہ خواہشات ہیں، یعنی وہ ضروریات جن کے پیچھے قوتِ خرید موجود ہو۔ اس سے ایک بڑی خرابی جنم لیتی ہے۔ اگر چہ قوتِ خرید کا انحصار معاشرے میں آمدنیوں اور دولت کی تقسیم پر ہے۔ لیکن جب معیشت میں بہت زیادہ عدم مساوات ہو، تو معاشرے میں اشیا کی پیدائیش اور صرف کی ترجیحات لوگوں کی حقیقی ضروریات
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۶۸
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
کے مطابق نہیں ہوتیں ۔
یہ نظام سرمایہ داری کی بنیادی خرابی ہے۔ مارکیٹ، حقیقی انسانی ضروریات کے بجاے موضوعی اور نفسانی خواہشات کے مطابق کام کرتی ہے۔ آمدنیوں اور دولت میں کسی حد تک تو تفاوت قابل قبول ہے اور کچھ حدود کے اندر تو یہ ناگزیر بھی ہوتا ہے تا کہ لوگوں کو مؤثر ترغیب اور کارکردگی کی بنیاد پر اجر اور نفع حاصل ہو۔ اس معاملے میں جان لینا چاہیے کہ بہت زیادہ معاشی تفاوت اور ناہمواری معاشرے کے پورے ڈھانچے اور اس کی پیداواری اور صرفی ترجیحات کو بدل کر رکھ دے گی، جس کا نتیجہ ایک غیر متوازن اور استحصالی نظام کی صورت میں نکلے گا۔ معیشت اور منڈی کو ایک ہی چیز سمجھ لینے سے سرمایہ دارانہ نظام کی آہستہ آہستہ قلب ماہیت ہوئی اور یہ تاجی بھلائی اور اخلاقی ذمہ داری سے بے تعلق ہو گیا ہے۔ اس کی اصل توجہ ضروریات
سے خواہشات، انسان سے زر، معاشرے سے معیشت کی طرف منتقل ہوئی ہے۔ زر اور مالیات کے اس بدلتے ہوئے کردار اور معیشت میں حقیقی اثاثوں کی پیدائیش اور زر کے لین دین سے بڑھتی ہوئی عدم وابستگی نے بہت شدید خرابیاں اور عدم استحکام پیدا کیا ہے۔ زر کا اصل کردار مالیاتی ثالثی اور قدر کی پیمایش تھا۔ معاشی سرگرمیوں کا اصل ہدف انسانی ضروریات کی فراہمی کے لیے اشیا اور خدماتی وسائل کو پیدا کرنا تھا۔ معاشی علامتی زبان میں CMC Commodity Money Commodity)) ، یعنی اشیا ۔ زر۔ اشیاء کا مطلب زر کے ثالثی کردار پر زور دینا تھا، جب کہ حقیقی ہدف معیشت کا طبیعی پھیلاؤ تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت یہ تعلق اُلٹ کر کچھ یوں تبدیل ہوا کہ یہ MCM ہو گیا، یعنی زر اشیا ۔ زر، جب کہ حقیقی معیشت اس نازک موڑ پر آگئی کہ معیشت کا حقیقی ہدف اشیا و خدمات کی زیادہ سے زیادہ پیداوار، عوام کی کثیر المجتی ضروریات کو پورا کرنا اور معاشرے کی فلاح و بہبود اور خوش حالی نہ رہا، بلکہ سرمایہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع اور سرمایہ کاری پر زیادہ سے زیادہ اضافہ ہی ہدف بن گیا۔ طبیعی معیشت کا فروغ اور اس کے نتیجے میں اشیا و خدمات کی مقدار میں اضافہ مقصد کے حصول کا ذریعہ بن گئے۔ اس طرح موجودہ مالیاتی سرمایہ داری نظام ، اثاثوں کی تخلیق کے کردار سے بہت دور چلا گیا ہے۔ اس طرح مالیاتی آلات نے حقیقی مالیاتی اقدامات کا رخ تخمینی مالیات ( Speculative
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۶۹
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
Finance) کے ذریعے منافع کمانے کے ایک ایسے عمل کی طرف موڑ دیا ہے، جس کا اثاثوں کی تخلیق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کے نتیجے میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے والی اشیا و خدمات
کی رسد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس مالیات کے کھیل کے نتیجے میں کروڑوں اور اربوں میں کھیلنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ داخلی سطح پر اور عالم گیر سطح پر معاشرے میں حقیقی اثاثوں اور بنیادی ضروریات کی چیزوں کی مقدار میں اضافے کی رفتار، مالیاتی اضافے کے مقابلے میں کم ہے۔
انسان کی ذہنی قوت اور انسانی سرمایے کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا جانا چاہیے اور ان کی استعداد کے مطابق معاوضہ لازماً دیا جانا چاہیے۔ تاہم حقیقی معیشت کے محرکات کچھ ایسے ہیں کہ عدم مساوات اور عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معیشت غبارے کی طرح پھولتی جاتی ہے، جس کی وجہ سے معیشت میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہوتی ہے جو طبیعی معیشت کو متاثر کرتی ہے اور امیروں کی ایک ایسی فوج پیدا کرتی ہے جس کا معاشرے کی فلاح و بہبود میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ و و فوائد جو اس کے نتیجے میں ان کو حاصل ہوتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے امیر ترین ایک فی صد لوگ دنیا کی کل دولت کے ۵۹ فی صد کے مالک ہیں۔ بالفاظ دیگر ۵ کروڑ امیر لوگوں کی دولت ۲ ارب ۷۰ کروڑ لوگوں کی دولت کے مساوی ہے اور اس میں امرا کا حصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ۱۹۶۰ء میں ۲۰ فی صد امیر ترین اور ۲۰ فی صد غریب ترین لوگوں کے درمیان دولت کی تقسیم کا تناسب ۱:۳۰ کا تھا۔ ۱۹۹۷ء میں یہ تناسب بڑھ کر ۷۴ :ا ہو گیا، اور یہ کیفیت اس دنیا میں ہے جہاں ڈھائی ارب انسان دو ڈالر روزانہ سے کم پر گزارا کرتے ہیں، اور پھر ایک ارب ۲۰ کروڑ لوگ روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی کے ۴۰ فی صد کو صاف پانی اور دوسری نہایت بنیادی سہولیات زندگی تک نصیب نہیں ہیں۔ جہاں ہر روز ۱۰ ہزار بچے پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کا
شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ المیہ لوگوں کی ناآسودگی کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں نظر آنے والی اس مضحکہ خیز ترقی نے دنیا کی معیشت میں خرچ (consumption ) اور پیدائیش دولت کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ عمومی سماجی زندگی : خوف اور اذیت کا عنوان بن کر رہ گئی
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
2.
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات ہے۔ مارکیٹوں میں اشیائے تعیش کی بھر مار ہے، جب کہ بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کا کوئی تسلی بخش انتظام نہیں ہے۔ اشتہار بازی کے ذریعے مصنوعی طلب پیدا کی جاتی ہے۔ جس چیز کو صحیح معلومات کی فراہمی کا بہت اچھا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، وہ خواہشات کے ابھارنے اور منافع خوری کا ذریعہ بن گئی۔ مارکیٹ میں چھا جانے والی طاقت ور قوت کے سامنے اخلاقی اور ثقافتی اقدار غیر مؤثر اور غیر متعلق ہو گئی ہیں ۔
اسلحے کی صنعت کا فروغ اور بنیادی سہولیات کا فقدان : فوجی ساز و سامان کی تیاری ایک اور سنجیدہ معاملہ ہے۔ وہ ممالک جہاں لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتے ، جہاں صاف پانی صحت کی بنیادی سہولتیں، کم از کم تعلیم اور مناسب سفری سہولتوں کا فقدان ہے اور لوگ غربت کی دلدل میں دھنتے چلے جارہے ہیں، وہ مفلوک الحال اور بدقسمت ممالک اربوں ڈالر ترقی یافتہ ممالک سے اسلحے کی خریداری پر خرچ کر دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک دنیا میں ۸۵ فی صد اسلحے کی فروخت کے اجارہ دار ہیں اور اصل فوائد یہی طاقت ور فوجی صنعتی طاقتیں حاصل کرتی ہیں۔ دعلمی ملکیت کے حقوق (Intellectual Rights) کے نام پر ضروری ادویات بھی مناسب قیمتوں پر ان غریب ممالک کو مہیا نہیں کی جاسکتیں، جہاں لاکھوں لوگ ان سہولتوں کی عدم فراہمی کے سبب سسک سسک کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ یہ تمام ہلاکت خیز باتیں سرمایہ داری کے تحت ہونے والی نام نہاد ترقی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ بے روزگاری میں اضافہ: مالیاتی پھیلاؤ اور سرمایہ کاری کے سیلاب کے باوجود، یہ معیشتیں روزگار کے کافی مواقع پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔ عالم گیر سطح پر بے روزگاری ایک مستقل اور ناقابل قبول حد تک پہنچ چکی ہے، حتی کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے مستقلی نہیں ہیں۔ یہ پہلو بھی بہت بھیانک حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ مغربی یورپ میں ۱۹۷۳ء سے ۱۹۹۴ء تک کوئی نئی آسامی پیدا نہیں ہوئی۔ انسانیت کے جسم پر غربت، بے روزگاری اور تعلیم وصحت کی سہولتوں کی کمی رستا ہوا نا سور ہے ۔ نج کاری کے دباؤ کی وجہ سے بیسویں صدی کی ایک بہت بڑی کامیابی، یعنی ‘فلاحی ریاستوں، تیک میں بھی توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پیداواری عمل میں
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
اے
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
مشغول آبادی کے مختلف طبقات اور وہ جن کا انحصار معاشرے پر ہے، ان کے درمیان بھی پیداواری شعبے کی خرابیوں کی وجہ سے تعلق خراب ہوا ہے۔ جدید ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ ساتھ ، ترقی پذیر دنیا میں عدم مساوات ایک ایسا چیلنج ہے جس کی طرف آج تک سنجیدگی سے تو جہ نہیں دی گئی ۔ مالیاتی عدم استحکام سرمایہ دارانہ دنیا میں جاری وساری ہے۔ جنوبی افریقہ اور مشرقی ایشیاء گذشتہ تین عشروں میں اس سے بری طرح متاثر ہوئے حتی کہ ترقی یافتہ ممالک بھی عالم گیر مالیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نہیں بچ سکے۔ دنیا کے تمام حصوں میں قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ نا قابل اصلاح حد تک دوسروں پر انحصار اور عدم استحکام بڑی تیزی سے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ افراد اور معیشتوں کے لیے قرضوں کے بوجھ اور مصارف، قرضے کی برداشت کو روز بروز مشکل بناتے
جارہے ہیں۔
ماحولیاتی تباهی: چکا چوند کرتی اس تباہ کن ترقی کا ایک اور پہلو ماحولیاتی تباہی ہے۔ یہ بھی ایک عالم گیر مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ بعض کم ترقی پذیر ممالک میں خرابی بہت زیادہ تشویش ناک ہے جو کہ ترقی یافتہ ممالک کی دولت مندی اور عیاشی کی بہت زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔ امریکا جو دنیا کی کل کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ۳۰ فی صد پیدا کرتا ہے، عالم گیر درجہ حرارت میں کمی کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اور عملاً کو یوٹو پروٹوکول (Koyoto Protocol) کو مستر د کر چکا ہے۔ مارشل پلان بحر اوقیانوس کے حوالے سے مل جل کر کام کرنے کی ایک واحد مثال ہے۔ لیکن یہ ماڈل ایشیا اور افریقہ کے ممالک کے حوالے سے نا کام ہو چکا ہے ۔ تمام وعدے جو غریب ممالک کی مدد کے حوالے سے کیے گئے تھے، بھلا دیے گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی خام قومی پیداوار کا ایک فی صد ہر سال غریب ممالک کو دیں گے ۔ اسے ۱۹۹۲ ء میں کم کر کے دہی کے فی صد کر دیا گیا، جب کہ حقیقی طور پر دی جانے والی امداد صرف
ئی سو فی صد ہے، اور اس میں امریکا کا حصہ اس کی خام قومی پیداوار کا صرف و یا فی صد ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لیے مسائل : دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ اپنی منڈیاں صنعتی ممالک کی تیار کردہ اشیا کے لیے کھول دیں، جب کہ امریکا اور یورپی یونین کے
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۷۲
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
ممالک غریب ممالک کی زرعی پیداوار، کپڑوں اور دوسری برآمدات کے خلاف تحفظاتی پابندیاں عائد کیے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے یہ غریب ممالک ایسے تجارتی فوائد کے میدان میں دو سے چار گنا تک محروم کر دیے جاتے ہیں، جو ان کو معاشی امداد کی صورت میں ملنا چاہیے، جو اپنی نوعیت اور اس سے متعلقہ دوسری شرائط سے اس طرح مشروط ہے کہ اس معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے سے حقیقی طور پر اس کا بہت ہی کم تعلق رہ جاتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اپنے کسانوں کو زرعی منڈی کی صورت میں روزانہ ایک ارب ڈالر یا سالانہ ۱۳۵۰ بلین پاؤنڈ ) دیتے ہیں۔ جس سے تیسری دنیا کے کسانوں کے لیے یورپ اور امریکا کی منڈیوں میں مقابلہ کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNCTAD کے جائزے کے مطابق ان یک طرفہ پالیسیوں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک ہر سال کئی سو ارب ڈالر سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں آکس نم رپورٹ بعنوان Rigged Rules and Double Standards میں انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں نظام سرمایہ داری کے لیڈروں کی ناکامی پر فرد جرم عائد کی گئی ہے، اور ان اصولوں کے منفی پہلوؤں کی نشان دہی کی گئی ہے جن پر نظام سرمایہ داری اور عالم گیریت کی بنیاد ہے۔
آزاد اورعادلانه معاشی نظام کی ضرورت آخر میں، لیکن آخری نہیں، عالم گیر سرمایہ داری کی سیاسی جہتیں ہیں، نیز معاشی اور مالیاتی قوت کے نامساوی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور فوجی بالا دستی کا بھی معاملہ ہے۔ تمام بڑے بین الاقوامی اداروں بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ پر ترقی یافتہ ممالک کی بالا دستی ہے۔ جمہوریت کے بارے میں تمام زبانی جمع خرچ کے باوجود ان اداروں میں فیصلہ سازی میں کسی قسم کا جمہوری طریق کار اختیار نہیں کیا جاتا ۔ عالم گیر سرمایہ داری نظام دنیا کے ہر ہر خطے کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کی یا خار غیر جانب دارانه یا از خود عامل طریق کار پر استوار نہیں ہے۔ حکومتوں کے بنے بگڑنے میں بہت سے بیرونی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اور بیرونی مداخلت ہوتی ہے۔ ان میں سیاسی، معاشی، اطلاعاتی اور ثقافتی اثرات شامل ہیں۔ حکومتیں، کثیر قومی کارپوریشنیں (MNCS)، عالم گیر مالیاتی ادارے، ذرائع ابلاغ ، ہالی وڈ ، این جی اوز کی
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۷۳
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
ایک فوج ظفر موج ، وہ عناصر ہیں جو ان خرابیوں کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کا موجب ہیں۔ مشہور واشنگٹن اتفاق رائے (Washington Consensus) کے آزاد روی، نج کاری اور عالم گیریت کے لئے نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ ترقی پذیر اور غریب دنیا کے بہت سے ممالک محسوس کرتے ہیں کہ اب ان کی اپنی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہے۔ ایک نئے انداز میں سابقہ شہنشاہی اور استبدادی نظام اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک عالم گیر نظام سرمایه داری فطری ترقی کا مظہر ہے، جب کہ کچھ اسے معاشی اور ترقی یافتہ آمریت کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ ان کے اقتدار اعلیٰ اور ان کے رضا کارانہ انتخاب کی آزادی کا قاتل ہے۔ وہ عالم گیر نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں لیکن دب کر نہیں بلکہ وہ ایک عالم گیر دوستانہ ماحول کے خواہش مند ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام فطری اصولوں پر مبنی ایک آفاقی نظام ہونے کا دعوے دار ہے۔ اس کی عالم گیر پنچ سے انکار نہیں ہے، لیکن اس سے مطابقت اختیار کرنا اور پسندیدگی پیدا کرنا قابل بحث ہے۔ اس کے سیاسی و ثقافتی پہلو اور اس کے معاشی اصولوں کے درمیان عدم موافقت بھی قابل بحث ہے۔ کیا یہ سب کچھ باقی ساری دنیا کے لیے بھی ہے؟ اور کیا اسے دوسرے اختیار کر سکتے ہیں؟ اور جو یورپی وامریکی تاریخی وثقافتی بنیادیں ہیں، کیا وہ دوسری تہذ یہوں اور ثقافتوں سے مطابقت رکھتی ہیں؟ کیا ہم ان اصولوں اور او امر کو جن پر سرمایہ دارانہ نظام پروان چڑھا ہے، اخلاقی اقدار اور رسوم سے علیحدہ کر سکتے ہیں؟ بلاشبہ ذاتی مفاد ایک بڑی تخلیقی قوت ہے۔ لیکن اگر اسے ایک مرتبہ قوت محرکہ کے طور پر فروغ دے دیا جائے، تو وہ اخلاقی فکر جو سماجی ضروریات کو تحفظ دیتی ہے بتدریج کم ہوتی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہدف اُلٹ جاتا ہے، پھر معاشرے کے بجاے معیشت ہی مرکزی ہدف بن جاتا ہے اور معیشت سکڑ کر منڈی بن جاتی ہے۔ یہی معاشی منڈی قدر ( Value) کا حقیقی منبع بن جاتی ہے۔ اس کی میکانیت ذاتی پسند و نا پسند کے محور کے گرد گھومتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اخلاقی اقدار کا جناز و نکل جاتا ہے اور عدل کے تقاضے مجروح ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو سماجی و اخلاقی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں، ان کے نزدیک : ”نظام سرمایہ داری کا یہ دعویٰ کہ وہ فطری نظام ہے” قابل قبول نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے حوالے سے زمینی حقائق ، ترقی کے مختلف مدارج اور وسائل کی دست یابی
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۷۴
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
میں فرق ایک زندہ ثبوت ہے جس میں انسانی سرمایے اور سماجی سرمایے کی کیفیات، اور سماجی و ثقافتی پہلو مختلف رنگ و نسل پر مشتمل مختلف انسانوں اور معاشروں کے لیے ایک ہی نوع کا معاشی ماڈل اختیار کرناممکن نہیں ہے۔ عالم گیر معاشرے کی طرح عالم گیر معیشت کو بھی ایک ہی ماڈل میں نہیں سمویا جاسکتا ہے۔ اس کے بجائے ایک آزاد اور عادلانہ دنیا کو، جو حقیقی طور پر مختلف النوع ہو، وجود میں لانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپس میں ان کو اس انداز میں مربوط بنانا اور باہمی تعلق پیدا کرنا ہوگا کہ جس کے نتیجے میں تمام لوگ، معاشرے اور ریاستیں باہمی تعاون اور صحت مندانہ مقابلے کے ذریعے ترقی کے فوائد سمیٹ سکیں۔
مغرب کے کئی روشن خیال مفکرین بھی ترقی پذیر دنیا اور مسلم دنیا کے مفکرین کی اکثریت کے اس نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ پروفیسر لیسٹر تھرو کے مطابق : ” خطرہ یہ نہیں کہ اشتراکیت کی طرح نظام سرمایہ داری کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ایک قابل عمل متبادل نظام کی عدم موجودگی میں جس کی طرف لوگ نظام سرمایہ داری سے مایوس ہو کر لپکیں ، نظام سرمایہ داری خود بخو د تباہ نہیں ہوگا۔ نظام سرمایہ داری کے حقیقی مسائل بالکل واضح ہیں: یعنی عدم استحکام ، ناہمواریوں میں اضافہ اور مزدور طبقے کی بدحالی جیسے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ نئے مسائل بھی ہیں جیسے نظام سرمایہ داری کا انسانی وسائل پر حد سے زیادہ انحصار اور انسانی ذہنی قوتوں کو بروے کار لاکر وجود میں آنے والی صنعتیں۔ انسانی ذہنی کاوشوں کی اہمیت کے اس دور میں جو لوگ کامیاب ہوں گے، وہ ایک نیا کھیل کھیلنے کی پوزیشن میں ہوں گے اور اس کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت
ہو گی۔ آج کے فاتحین کے مقابلے میں کل کے فاتح مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوں گئے”۔ معاملہ صرف ذہنی صلاحیتوں کا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ اہمیت انسان کے اخلاقی، ماجی، ثقافتی ، روحانی اور سیاسی پہلوؤں کو بھی حاصل ہے۔ مشین سے ہٹ کر دانش کی اہمیت کی طرف توجہ پھیر نا عالم گیر انسانی صورت حال میں ایک قابل قدر تبدیلی ہے ۔ اس جانب بڑھیں تو بحث کا محور اخلاقی اصول بن جاتے ہیں اور مادی دولت اور مادی ترقی اور استعداد کے مقابلے میں اصل اہمیت عدل اختیار کر جاتا ہے۔ معاشیات پر ۱۹۹۳ء کے نوبیل انعام یافتہ رابرٹ ولیم فوگل نے اپنی تحریر The
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۷۵
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
“Fourth Great Awakening and Future of Egalitarianism میں اس مسئلے پر قلم اٹھایا ہے اور اس حقیقی مسئلے پر بہت جامع انداز سے بحث کی ہے۔ فوگل نے لکھا ہے : ” نئے ہزاریے کے آغاز پر اصل مسئلہ کاروباری اتار چڑھاؤ (بزنس سائکلز ) کو درست کرنا یا معیشت کی ایک اطمینان بخش سطح پر نمو ( ترقی دینا ہی نہیں ہے، اور مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ کیا ہم پچھلی صدی کے دوران میں انسانی معاشرت کو عطا کیے گئے سماجی شعور کو دفن کیے بغیر ترقی کر سکتے ہیں۔ پچھلی کامیابیوں کو بلاشبہ ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ امریکا میں معاشرتی مساوات کا مستقبل قوم کی اس صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ مسلسل معاشی نمو اور سماجی مساوات کے حوالے سے نئی اصلاحات کو ساتھ لے کر چل سکے۔ پھر ہمارے دور کی روحانی ضروریات کو بھی ساتھ ساتھ پیش نظر رکھے، جو سیکولر بھی ہو اور مقدس بھی۔ روحانی ( یا غیر مادی) عدم مساوات بھی مادی عدم مساوات کی طرح ایک بڑا اہم مسئلہ ہے، شاید اس سے بھی بڑا“۔ ۔
فوگل اپنی کتاب کا اختتام ایک انتباہ سے کرتا ہے: ”ہماری تیسری نسل (ہمارے ہوتے ) جو دنیا ہم سے وراثت میں پائے گی ، وہ ہماری نسل کے مقابلے میں مادی لحاظ سے بہت امیر ہوگی، ماحولیاتی خرابیاں بہت تھوڑی ہوں گی، لیکن یہ دنیا ان کے لیے زیادہ پیچید و اور زیادہ پریشان کن ہوگی۔ علمی و فکری سطح پر اخلاقی معاملہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا اور ان مسائل کے ساتھ ملحق معاملات آج کے مقابلے میں روز مرہ زندگی کا بہت بڑا حصہ ہوں گے ۔ علمی زندگی میں جمہوریت کے بارے میں مباحث میں وسعت آئے گی اور سیاسی زندگی میں روحانی معاملات زیادہ جگہ کا مطالبہ کریں گے۔ پرانے اور نئے مذاہب میں اختلاف اور زیادہ ابھریں گے، لیکن آبادی کی اوسط عمر کافی بڑھ جائے گی۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے نتیجے میں متانت بڑھے گی اور علمی قوت میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں ہماری آنے والی نسلیں ہمارے مقابلے میں مسائل کا بہتر حل تلاش کر سکیں گی۔ ۔
اسی طرح جان گرے نے سیاسی پہلوؤں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے: ”دنیا کی معیشت میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں تہذیبوں ، حکومتوں اور منڈی کی معیشتوں کے تنوع کو تسلیم کیا گیا ہو۔ ایک عالم گیر آزاد منڈی، ایسی دنیا کو سامنے لاتی ہے، جہاں مغربی ممالک کی بالا دستی
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۷۶
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
یقینی ہے۔ ایک آفاقی تہذیب پر مبنی خیالی دنیا (Utopia) میں مغرب کی بالا دستی لازم ہے۔ یہ آفاقی تہذیب، کثیر تہذیبی دنیا کے تصور کو قبول نہیں کرتی۔ یہ [ آفاقی تہذیب ] اپنے وقت کی ان ضروریات کے مطابق نہیں ہے کہ جس میں مغربی ادارے اور مغربی اقوام آفاقی حاکم نہ ہوں ۔ اسی طرح یہ دنیا کی بہت ساری تہذیبوں کو یہ اجازت بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی تاریخ ، حالات اور مخصوص ضروریات کے مطابق جدیدیت کی منزل حاصل کر سکیں“۔ ۔
کئی نظام یا ایک عالم گیر نظام سرمایه داری عالم گیریت کے حوالے سے یہ بحث ثقافتی اور سیاسی تناظر میں تھی۔ یہ بات بڑی خوش آئیند اور اُمید افزا تبدیلی کی نشان دہی کرتی ہے کہ دنیا کے تمام حصوں اور مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے مفکرین میں سے ایک گروہ، اس سارے معاملے کا اخلاقی نقطۂ نظر سے جائزہ لے رہا ہے۔ تاہم نظام سرمایہ داری کی جو بھی خوبیاں یا خامیاں ہیں، اگر تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ اس نظام میں تبدیلیاں قبول کرنے اور اندرونی و بیرونی محسوسات کا جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسی صلاحیت کا یہ ثبوت ہے کہ نظام سرمایہ داری نے کئی انداز اور شکلیں اختیار کی ہیں ۔ کاروباری سرمایہ داری سے لے کر صنعتی سرمایہ داری ، پھر مالیاتی سرمایہ داری، ریاستی سرمایه داری، فلاحی سرمایہ داری اور اب عالم گیر سرمایہ داری تک، یہ سب اس نظام میں تبدیلیوں کو قبول کرنے اور نئی صورت گری کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ اشتراکیت ، سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ لیکن اشترا کی نظام انسانی ہمدردی کے تمام تر جذبات کے باوجود ایک قابل عمل اور پایدار متبادل ثابت نہ ہو سکا، تاہم اس نے نظام سرمایہ داری میں تبدیلیاں لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ شروع میں اشترا کی پہنچ نے اپنی بنیاد اخلاق اور انسان دوستی کی بنیادوں پر ہی رکھی تھی۔ رابرٹ اوون ، سینٹ سائمن اور کئی دوسروں نے سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی اخلاقی اور معاشرے میں مساوات پیدا کرنے کی ناکامیوں کی بنیاد پر چیلنج کیا۔ کارل مارکس اور اینجلز نے معاملے کو ایک اور رنگ دیا۔سائنٹفک سوشلزم نے مادی اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر سرمایہ داری کو چیلنج کیا اور سائنس کے نام پر معاشی اور تاریخی جبر کی ایک نئی قسم دریافت کی گئی ۔ جرمنی، اٹلی اور پین میں پروان چڑھنے والا نیشنل سوشلزم ایک اور چیلنج تھا۔
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
LL
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
سرمایہ داری نے ان چیلنجوں کا بھی مقابلہ کیا، اور ان کا بھی جو نظام کے اندر سے کاروباری اتار چڑھاؤ، افراط زر، بے روزگاری، جمود اور محروم طبقوں کی بغاوت کی صورت میں سامنے آرہے تھے۔ فلاحی سرمایہ داری اور مخلوط معیشت جیسی تبدیلیاں اصلاحی تحریکوں کا نتیجہ ہیں ۔ عالم گیر سرمایہ داری کے موجودہ دور کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ بہر حال اخلاقی اور انسانی تناظر میں تنقیدی مباحث کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۵۰ ء اور ۱۹۶۰ ء ۔ ۱۹۶۰ء کے عشروں میں لاطینی امریکا میں شروع ہونے والی عیسائی جمہوری تحریک، دنیا کے دوسرے ملکوں میں انسانی اور معاشرتی حوالے سے گرین گروپس (Green Groups) اب عالم گیر حیثیت کے مالک بن چکے ہیں۔ انسانی شرف کے بارے میں احساس اور ظلم سے نفرت کے خلاف یہ جذبات حقیقی ہیں اور ان کے اثرات دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ جبر اور انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔ انتہائی بائیں بازو کے لوگ بھی اس جبر کے خلاف رد عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف جو اظہار سیٹل واشنگٹن، بڈا پسٹ (ہنگری)، اوٹاوہ (کینیڈا) اور جنیوا (سوئٹزرلینڈ)
میں شروع ہوا، اس نے فکری میدان میں عملی سوچ کے لب و لہجے اور انداز کو تبدیل کیا ہے ۔ ڈربن (جنوبی افریقہ) میں ۲۰۰۱ء میں منعقدہ اقوام متحدہ کی کانفرنس اور ۲۰۰۲ء میں دوحہ ( قطر ) میں ہونے والی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی کانفرنس میں نئے انداز میں معاملات پر اتفاق راے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ حقیقت کہ بڑے کاروباری ادارے، یعنی ورلڈ اکنامک فورم نے مشتر کہ بنیادوں کی تلاش کے لیے ڈیووس (Devos) سے نیو یارک تک اجلاس منعقد کیے۔ جب ‘ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کا اجلاس نیو یارک میں ہو رہا تھا، عین اسی وقت ایک اور پلیٹ فارم، ورلڈ سوشل فورم (WSF) کا اجلاس دھوم دھام سے ایلے گر (برازیل) میں منعقد ہوا۔ مارچ ۲۰۰۲ء میں ہونے والے مالیاتی اتفاق رائے کا انداز، نام نہاد واشنگٹن اتفاق راے سے مختلف تھا۔ یہ تمام نکات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ عالم گیر سرمایہ دارانہ نظام میں اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لچک اور حرکت موجود ہے۔ عالم گیر نظام سرمایہ داری کو دو محاذوں پر پھیلنج درپیش ہے:
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
LA
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
ا۔ اس کی اپنی اندرونی کمزوریاں، تضادات اور نا انصافیاں
۲- مسلمان اور ترقی پذیر دنیا کے ممالک کا رد عمل ، جو دنیا کا ۸۰ فی صد حصہ ہیں اور جن کا ثقافتی، سماجی اور اخلاقی لحاظ سے دنیا کے بارے میں بالکل مختلف نقطہ نظر ہے اور ان کی ثقافتی اور تہذیبی اقدار مختلف ہیں۔ اب ، جب کہ سرمایہ دارانہ نظام بے خوف و خطر عالم گیریت کی لہروں پر سفر کر رہا ہے، اس کے لیے تنوع میں وحدت (unity in diversity) کا راستہ حقیقی راستہ نہیں ہے، بلکہ چیلنج یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں لایا جائے جس میں ایک سے زائد نظاموں کا حقیقی تصور (genuine plurality) موجود ہو۔ ایک ایسا تنوع موجود ہو جس میں باہمی مشترک اقدار اور مشترک مفادات کے تحت باہمی تعاون ہو۔ ایک ماڈل سے بالا دستی کا تصور ابھرتا ہے۔ عالم گیر معاشرے کی ایک مختلف تشکیل وقت کی ضرورت ہے۔
جان رالز نے ۱۹۷۲ ء میں اپنی شروع کی تحریروں میں باہمی برابری (reciprocity) کی بنیاد پر انصاف کی فراہمی کا مقدمہ مضبوطی سے پیش کیا تھا ہے۔ لیکن ۳۰ سال بعد اپنی کتاب عوام کا قانون میں اپنے نظریے کو بے لاگ انصاف کے عنوان سے اس طرح پیش کیا ہے کہ اسے دوسرے لوگوں اور معاشروں تک پھیلایا جانا چاہیے۔ یہ تصور عام طور پر دیگر مغربی مفکرین کے سیاسی آزادی کے فکری احاطے میں نہیں آتا۔ جان رالز نے تہذیب یافتہ معاشروں کے تنوع کو تسلیم کیا ہے۔ وہ مثالوں کے ذریعے معاشرتی تنظیم کے مختلف طریقوں کی بھی وضاحت کرتا ہے۔ وہ مناسب طور پر آزاد رو لوگوں (reasonably liberal people) کے ساتھ ‘معقول لوگوں (decent people) کا نظریہ پیش کرتا ہے اور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کچھ دوسرے معقول لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو میری بیان کی ہوئی ترتیب میں نہ سموئے گئے ہوں، لیکن وہ انسانوں کے معاشرے کے قابل احترام رکن ہوں۔ جان رائلز نے اس بات کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک عوامی قانون نہیں بلکہ معقول قوانین کا ایک ایسا مجموعہ درکار ہے جو تمام شرائط اور معیارات پر پورا اترے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اس پر بحث کروں گا اور قانون سازی کرنے والے عوامی نمایندوں کو اس بات پر قائل کروں
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
و
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
گا۔ آزاد پسندی کے اس پہلو پر رالز کا نقطۂ نظر ایک ایسی دنیا کے تناظر کی طرف اہم قدم ہے، جس میں حقیقی تکثیریت (pluralism) قائم رہ سکتی ہے اور ایک عالم گیر سیاسی ، معاشی اور ثقافتی منظر قائم کیا جاسکتا ہے۔ جو انسانیت کو باہم مل جل کر تعاون اور مقابلے کی فضا میں رہنے کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ مستقبل کی ایک عالم گیر معاشرت کے اس تناظر کا انحصار ایک معقول اور مناسب تکثیریت پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں معقول لوگوں کے درمیان مختلف ثقافتوں اور مذہبی اور غیر مذہبی فکری روایتوں کا تنوع ، معقول تکثیریت کے ساتھ ساتھ ۔ ۔
ا
اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عالم گیر سرمایہ دارانہ نظام دوسرے نظاموں کے ساتھ بقائے با ہمی کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس سے یہ سمجھنا ہر گز ضروری نہیں ہے کہ دوسری معاشرتوں اور ثقافتوں کو نظام سرمایہ داری کی متنوع شکل بنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ پھر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ باہم مشترک اقدار، دل چسپیوں ، آرزوؤں کے وسیع میدان میں اور باہمی تعاون ، تعامل اور تقابل کے امکانات نہیں ہیں۔ وسائل کی فراہمی ، تخصیص کار (specialization) اور کم و بیش فائدے کے لحاظ سے فرق کی بنا پر معقول حدود کے اندر رہ کر ایک دوسرے کے اوپر انحصار کو بھی رود نہیں کیا جا سکتا۔ جس بات کو رد کیا جا رہا ہے وہ ایک نظام کی بالا دستی اور محتاجی کا ایسا تعلق ہے، جو سیاسی آزادی، ثقافتی انفرادیت ، معاشی خود انحصاری اور اخلاقی وروحانی تشخص سے متصادم ہو۔
حوالہ جات
ا۔ دیکھیے: جے ایم کینز ، The End of Laissez Faire ، ہو گر تھ پریس، ۱۹۲۶ئ، ص ۱۳، ۱۴۔ ۲- برانسا میلانووچ، The World Income Distribution مشموله The Economic Journal ، شماره ۱۱۲ ، ص ۵۱ – ۹۲
–
لیسٹر تھرو، The Future of Capitalism ، ناشر نکولس بر کلے، لندن ۱۹۹۶ء ،ص ۳۲۶،۳۲۵۔ را برٹ فوگل ، حوالہ مذکور، مطبع شکاگو یونی ورسٹی ، شکاگو، ۲۰۰۰ئی ، ص ۱۔
-~
۵- ایضاً، ص ۲۴۲
جان گرے False Down: The Delusions of Global Capitalism لندن،
۱۹۹۸ئ، ص ۲۰۔
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، فروری ۲۰۱۵ء
۸۰
جان را لز ، A Theory of Justice ، ، ا و
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات
اوکسفرڈ کلارنڈن پریس، ۱۹۷۲ئ۔
جان رالز The Law of Peoples ، ہارورڈ یونی ورسٹی پریس، ۹۹۹ائی ،ص ۴۔
-L
-^
-9
جان رائلز ، ایضاً، ص ۱۱۔