عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات
۱۷۹
دخل ہے اور اس کے اندر قرض (Credit) کا بھی ایک مقام ہے۔ لیکن جس طرح سرمایہ داری نے قرض کی بنیاد پر پوری معیشت کو وضع کیا، اور جس طرح قرض سے قرض پیدا ہوتا ہے، پیسے سے پیسہ بنایا جاتا ہے اور پیداوار اور خدمات میں اضافے کے بغیر دولت کمائی جاتی ہے، یہ بات اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس لیے اسلامی بنکاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف کھلی کھلی شرعی خلاف ورزیوں ہی سے نہ بچے، بلکہ ایجابی طور پر اُن تمام تصورات کو اپنائے جو شریعت ہمیں دیتی ہے۔ شریعت معاشی معاملات، کاروبار، صنعت اور معیشت کا ایک منفر د تصور دیتی ہے، جس میں نفع نقصان میں شرکت، تمام عناصر کی شمولیت اور کارکردگی ، شفافیت، ہر سطح پر عدل اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی شامل ہیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو۔ غور کیجیے کہ جہاں اس کا یہ مفہوم ہے کہ اجرت دینے میں تاخیر نہ کرو، اور پوری مزدوری دو، حق مارو نہیں، وہیں اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ مزدور کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کر نے میں پسینہ بہائے۔ یہ بالکل ایک مختلف اپروچ ہے، جس میں دونوں کو فرض کی ادائیگی پر ابھارا گیا ہے۔ یہ ہے دراصل وہ مثالی وژن، اور جب تک ہم اس وژن (Vision) کی طرف نہیں بڑھتے ، ہم اسلام کے نظام کی برکات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
اسلامی معاشیات کا تصور راسخ کرنے میں جن لوگوں نے کوششیں کیں ان میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا حصہ ہے، ڈاکٹر انور اقبال قریشی مرحوم کا بڑا حصہ ہے، ڈاکٹر احمد نجار نے بڑا کام کیا ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی بڑی خدمات ہیں ، ڈاکٹر عمر چھاپرا ہیں۔ مجھے بھی خدمت کا کچھ موقع ملا ہے۔ ہم سب کا vision یہ تھا اور ہے کہ بلا شبہ قرض کی ایک گنجائش ہے، اس ضرورت کو ہمیں پورا کرنا چاہیے، لیکن سرمائے کا جو استعمال ہے وہ شراکت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اور اس میں مضاربت، مشارکه، اجاره، مرابحہ، استصناع وغیرہ یہ جائز ہیں لیکن کچھ حدود کے اندر اور کچھ شرائط کے ساتھ ۔ ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان ماڈلز میں مالی وسائل پیداوار کو بڑھانے ، پیداوار کو فروغ دیئے ، خدمات کو فراہم کرنے ، ضروریات کو پورا کرنے اور حقیقی معیشت کو ترقی دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جبکہ ایسے مالی معاملات جس میں قرض کو قرض سے بدل لیا جائے ، جیسے تو رق یا مرابحہ کا ماڈل،
عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات
₨ 0
عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات
۱۷۹
دخل ہے اور اس کے اندر قرض (Credit) کا بھی ایک مقام ہے۔ لیکن جس طرح سرمایہ داری نے قرض کی بنیاد پر پوری معیشت کو وضع کیا، اور جس طرح قرض سے قرض پیدا ہوتا ہے، پیسے سے پیسہ بنایا جاتا ہے اور پیداوار اور خدمات میں اضافے کے بغیر دولت کمائی جاتی ہے، یہ بات اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس لیے اسلامی بنکاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف کھلی کھلی شرعی خلاف ورزیوں ہی سے نہ بچے، بلکہ ایجابی طور پر اُن تمام تصورات کو اپنائے جو شریعت ہمیں دیتی ہے۔ شریعت معاشی معاملات، کاروبار، صنعت اور معیشت کا ایک منفر د تصور دیتی ہے، جس میں نفع نقصان میں شرکت، تمام عناصر کی شمولیت اور کارکردگی ، شفافیت، ہر سطح پر عدل اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی شامل ہیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو۔ غور کیجیے کہ جہاں اس کا یہ مفہوم ہے کہ اجرت دینے میں تاخیر نہ کرو، اور پوری مزدوری دو، حق مارو نہیں، وہیں اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ مزدور کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کر نے میں پسینہ بہائے۔ یہ بالکل ایک مختلف اپروچ ہے، جس میں دونوں کو فرض کی ادائیگی پر ابھارا گیا ہے۔ یہ ہے دراصل وہ مثالی وژن، اور جب تک ہم اس وژن (Vision) کی طرف نہیں بڑھتے ، ہم اسلام کے نظام کی برکات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
اسلامی معاشیات کا تصور راسخ کرنے میں جن لوگوں نے کوششیں کیں ان میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا حصہ ہے، ڈاکٹر انور اقبال قریشی مرحوم کا بڑا حصہ ہے، ڈاکٹر احمد نجار نے بڑا کام کیا ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی بڑی خدمات ہیں ، ڈاکٹر عمر چھاپرا ہیں۔ مجھے بھی خدمت کا کچھ موقع ملا ہے۔ ہم سب کا vision یہ تھا اور ہے کہ بلا شبہ قرض کی ایک گنجائش ہے، اس ضرورت کو ہمیں پورا کرنا چاہیے، لیکن سرمائے کا جو استعمال ہے وہ شراکت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اور اس میں مضاربت، مشارکه، اجاره، مرابحہ، استصناع وغیرہ یہ جائز ہیں لیکن کچھ حدود کے اندر اور کچھ شرائط کے ساتھ ۔ ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان ماڈلز میں مالی وسائل پیداوار کو بڑھانے ، پیداوار کو فروغ دیئے ، خدمات کو فراہم کرنے ، ضروریات کو پورا کرنے اور حقیقی معیشت کو ترقی دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جبکہ ایسے مالی معاملات جس میں قرض کو قرض سے بدل لیا جائے ، جیسے تو رق یا مرابحہ کا ماڈل،
Reviews
There are no reviews yet.