پاکستان کا دستوری جائزہ

بریفنگ سیشن برائے اراکین پارلیمنٹ
پاکستان کا دستوری جائزہ
02 اگست 2004 ء
میر کمیٹ ہوٹل، اسلام آباد
تبصرہ
سینیٹر پروفیسر خورشید احمد
چیئر مین انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز
سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ دستور کی تین بنیادی شکلیں ہوتی ہیں۔ جن میں پارلیمانی، وفاقی اور تیسرا اس کا نظریاتی اور اسلامی کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے تینوں مقالہ جات میں پہلے دو پہلوؤں پر تو خاصی اچھی گفتگو ہوئی ہے لیکن تیسرا اہم پہلو نظر انداز رہا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی اس گفتگو کا مقصد پارلیمنیٹر مینز کے سامنے ایک طرف تو دستور کی صیح تاریخ اور اس کی خصوصیات کو رکھنا تھا اور ساتھ ہی یہ بات بھی مد نظر رکھنا کہ دستور آپ سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ آپ اس دستور پر حلف کر کے ممبر بنے ہیں اور وہ حلف یہ ہے کہ آپ اس کی حفاظت کریں گے اور اسے نافذ کروائیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے دو سال کے اندر جن بنیادی حقوق کو نافذ ہو چاہئے تھا وہ نہیں ہو سکے۔ انہوں نے اسلامی اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا جب دستور بنا تو کہا گیا تھا کہ سات سال کے اندر سارے قوانین کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی احکام سے ہم آہنگ اور روشناس کروایا جائے گا لیکن یہ آج تک نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سال حکومت مرکز میں بھی اور صوبوں میں بھی اسمبلیاں کے سامنے رپورٹ لائے کہ اس پالیسی پر عملدرآمد کے بارے میں کیا صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ
وفاق اور صوبائی خود مختاری کے لحاظ سے دستور کے اندر جو چیزیں موجود ہیں ہم کبھی ان کو نافذ ہی نہیں کر سکے۔
سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ قانون دان دستور کے اندر ترامیم تو لا سکتے ہیں لیکن اس کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ اس کا تشخص ہی بدل جائے انہوں نے کہا کہ یہ بات ہندوستان کے دستور میں بھی موجود ہے ۔ انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندستان کی پارلیمنٹ نے ایک دفعہ ایسی ہی دستوری ترمیم کی تھی جسے سپریم کورٹ نے واپس کر دیا تھا کہ پارلیمنٹ دستور میں ترمیم نہیں لاسکتی ۔ انہوں نے کہا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دستور اپنے اندر ایک ارتقائی عمل رکھتا ہے اور اس کو ہونا چاہئے بھی چاہئے کیونکہ اگر وہ دستور ایسا نہیں ہوگا تو وہ موجودہ حالات سے سازگار نہیں ہوسکتا۔
سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے اراکین پارلیمنٹ پر زور دے کر کہا کہ دستوری ترامیم کے لئے ضروری ہے ہم دستور کی اصل روح کو سامنے رکھیں اور نظریاتی اختلافات کے اصلاح کے لئے کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں اب تک بہت ہی کمزور دو کوششیں ہوئی ہیں جس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ دراصل دستور میں ترامیم کسی عوامی سہولیات کے لئے نہیں ہوئیں بلکہ حکمرانوں نے اپنے
مفادات کے لئے ایسا کیا جس سے دستور کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔