EconomicsIslamic Economics

ربٰو اور بنک کا سود از یوسف القرضاوی

Y

ربو اور بنگ کا سود

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

ترجمہ: عقیق الظفر

ודין ויווי

ויי דייז

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد

X

29743328

ی وی

اسلام

بلا سود شکاری

ISLAMAB

تالیف

ترجمه

الاسلام

مردم

:

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

عقيق الظفر

تاریخ اشاعت ان مئی ۱۹۹۳ء

زیر اہتمام

:

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نصر چیمبرز، بلاک ۱۹ مرکز ایف سیون، اسلام آباد

۸۱۸۲۳۰-۸۱۴۷۱۱

۰۵۱-۸۲۶۷۹۳

۵۷۷ IPS PK

۹۶۹ – ۴۴۸-۰۱۷-۵

:

:

:

ڈیٹل پرنٹرز، ویسٹریج 1 راولپنڈی۔

امسال

:

of

polle

6559

فون

فیکس

ٹیلکس

آئی ایس بی این

طالع

بسم الله الرحمن الرحیم

De

ٹ کی کلائی کا پیش لفظ

للہ تعالیٰ نے کائنات کے نظام کو جن اصولوں اور ضابطوں کا پابند کیا ہے ان میں سے ایک بڑا بنیادی اصول یہ ہے کہ یہاں انسان کو جو مہلت دی گئی اور اس کے نتیجہ میں جو آزادی اسے حاصل ہے اسے استعمال کر کے وہ اسلام کے نظام اور اللہ کی اطاعت اور بندگی کے طریقے پر بھی چل سکتا ہے اور کفر کے علمبردار اور اللہ کے باغی کی حیثیت سے بھی اپنی دوکان چمکا سکتا ہے خواہ اس سے بالاخر دنیا میں تاریکی ہی پھیلے اور آخرت میں تو ان کا انجام بد ترین ہونا ہی ہے۔ البتہ جو راستہ سب سے زیادہ برا اور انجام کار کے اعتبار سے سب سے زیادہ تباہ کن ہے وہ نفاق اور دھو کہ کا راستہ ہے، جس میں انسان ایک طرف اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کا دم بھرے اور دوسری طرف اللہ اور اس کے رسول ملیم ہی کے صاف اور واضح احکام کی بھی نہ صرف خلاف ورزی کرے بلکہ تاویل اور تحریف کے تمام گھناؤنے حربے استعمال کر کے اسلام کی تعلیمات کا حلیہ ہی بگاڑنے کی سعی نامسعود کرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ ماں خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں 194000ء

PAP

وما يشعرون

اور خود قرآن کا ان کے بارے میں صاف فتویٰ ہے کہ يخادعون الله والذين آمنوا وما يخدعون الا انفسهم ترجمہ: “وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے (البقرة:9) امت مسلمہ کو ہمیشہ کی طرح آج بھی جن فتنوں سے سابقہ درپیش ہے ان میں نفاق اور دھو کہ کا فتنہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ اور عالم یا حامی ہر ایک اس سے نفرت کرتا ہے۔ جو لوگ کسی مجبوری کی بنا پر اس میں ملوث ہوئے بھی ہیں وہ بھی اسے ایک گناہ اور ایک نا پاک شے سمجھ کر دل گرفتہ ہیں اور اس سے نجات پانے کے خواہش مند ۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد “قائد اعظم” نے

ربو اور بنگ کا سود

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر جو تقریر کی اس میں صاف الفاظ میں یہ کہا کہ منزل سرمایه ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا میں کہ ہماری منزل سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے جدا ہے۔ ہمیں اسلام کے سماجی انصاف کے نظام کو قائم کرنا ہے اور اس سلسلہ میں سود سے پاک معیشت کا نقشہ تیار کرنے کے لیے آپ نے جو شعبہ تحقیق قائم کیا ہے میں اس کی مساعی اور ان کے نتائج کا بڑی بے چینی سے انتظار کروں گا۔ پاکستان کے ہر دستور نے (۱۹۵۶ – ۱۹۶۲ء – ۱۹۷۳ء) ربو سے معیشت کو پاک کرنے کے ہدف کا اعادہ کیا اور اسے قومی مقاصد میں شامل کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ہر رپورٹ (۱۹۶۲ء کی علامہ علاوالدین صدیقی رپورٹ سے لے کر تازہ ترین رپورٹ تک) نے ربو کی حرمت اور ہر صورت میں اس کو ختم کرنے کی سفارش کی۔ صاف الفاظ میں کہا گیا کہ سود اور ر بو ایک ہی شے ہیں۔ انگریزی الفاظ سفر موسم اور محنفتقد دونوں پر سود کا مکمل اطلاق ہوتا ہے۔ اسی طرح قرض خواہ صرفی ضروریات کے لیے ہو یا پیداواری مقاصد کے لیے، غریب لے یا امیر، فرد لے یا ادارہ ، کم ه، کمپنی، بنگ، حکومت اگر قرض پہلے سے ایک طے شدہ متعین شرح پر دیا گیا ہے یا حاصل کیا گیا ہے تو سود ہے خواہ اسے کسی بھی نام سے پکارا جائے۔ اس حقیقت کا اعادہ ساری دنیا کے علماء اور ماہرین معاشیات نے اپنے اپنے انداز میں اور بڑے تاریخی اجتماعات میں کیا۔

۱۹۷۶ء میں پہلی عالمی اقتصادی کانفرنس میں ۳۰۰ ماہرین معاشیات اور علماء نے اس کا اعلان کیا۔ ۱۹۸۰ء میں پاکستان کی نظریاتی کونسل نے اپنی تاریخی رپورٹ میں اس کی تصدیق کی۔ ۱۹۸۳ء میں اسلامی وزرائے خارجہ کی تنظیم کی فقہ اکیڈیمی نے مکمل اتفاق رائے کے ساتھ سارے اسلامی ملکوں کی طرف سے اس امر کا اعلان کیا۔ ۱۹۸۹ء میں ہندوستان کے علماء نے مجمعہ فقہ الاسلامی کے تیسرے اجلاس میں تفصیل سے اس بات کا اعادہ کیا۔ خود پاکستان کے صدر مملکت نے فروری ۱۹۸۹ء میں اس سرکاری پالیسی کا اعلان کیا کہ سود کو ہر شکل میں بشمول بنکاری کے سود ایک ترتیب سے اور ایک متعین مدت میں ختم کیا جائے گا، اسی اعلان کا اعادہ مختلف وزرائے خزانہ اپنے اپنے وقت میں کرتے رہے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے ۱۹۸۴ء میں باقاعدہ ایک سرکلر گے ذریعے بنکاری کے سود کے خاتمہ کے لیے طریق کار جاری کیا اور سرمایہ کاری کے متبادل طریقے بیان کیے۔ ان تمام اعلانات سے ایک بات ثابت ہے اور وہ یہ کہ ربو اور سود میں کوئی فرق نہیں۔ سود اپنی ہر عمل میں حرام ہے اور اسے ختم کرنا حکومت کی پالیسی کا بدن ہے۔

یہ صدر بار بار پیش کیا گیا کہ ابھی اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے تاہم اس پورے دور میں رہو کے تصور کو بگاڑنے اور اس کے دائرے سے بنکاری کے سود کو ٹالنے

ربو اور بنگ کا سود

کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ لیکن جیسے ہی وہ دس سالہ دستوری مدت ختم ہوئی جس کی وجہ سے فیڈرل شریعت کورٹ سود کے معاملات پر غور نہیں کر سکتی تھی حکومت کے کار پردازوں پر نئی وحی ” کا نزول شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے سرکاری وکیل نے فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں ربو کے مفہوم ہی کے بارے میں اشکال در پیش ہیں اور بنگ کا سود اور عام ساہوکاری یا صرفی ضروریات کے لیے لیے جانے والے سود میں فرق ہے۔ ۔ لیکن یہ وکیل فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے کوئی دلیل نہ پیش کر سکے۔ اور بالاخر فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی وہی فیصلہ دیا جو شریعت کی معروف پوزیشن ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ جون ۱۹۹۲ء تک کم از کم ملک کی اندورفی معیشت سے سود کو پاک کرنے کے لیے ضروری اقدام کر لیں تا کہ سودی قوانین کے ختم ہونے کے بعد متبادل نظام مؤثر بہ عمل ہو سکے۔ حکومت عدالتی مہلت کی آخری تاریخ تک انتظار کرتی رہی اور پھر ملت کے ختم ہونے سے ۲۴ گھنٹے پہلے بالواسطہ اور پھر بلا واسطہ سپریم

کورٹ میں اپیل میں چلی گئی۔ اکٹر اس کے بعد سے چند وزیروں اور کچھ صحافیوں، کالم نگاروں اور نام نہاد ماہرین کی طرف سے بعد سے ایک مہم شروع کی گئی ہے جس کا مقصد قوم کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا اور لاحاصل بھٹوں میں الجھانا ہے۔ ایسی مکروہ کوششیں ماضی میں بھی ہوئی ہیں اور ناکام و نامراد رہی ہیں اور آج بھی ان کا مقدر ناکامی و نامرادی ہی ہے۔ پوری مسلم تاریخ میں ربو کا مفہوم واضح رہا ہے اور آج اس کو بدلنے کی ہر کوشش سورج پر خاک پھینکنے کے مترادف ہے۔ یہ خاک پھینکنے والوں ہی کے سروں پر گرے گی اور کسی اور کی آنکھوں میں دھول نہ جھونک سکے گی!

ری کو بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام کا معاشی نظام اور مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام دو مختلف بنیادوں پر استوار ہوئے ہیں اور دونوں کے مقاصد اور اہداف بھی جدا ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام صرفی معیشت ہو یا پیداواری معیشت، دونوں کے لیے قرض اور سود کو بنیاد بناتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام ان کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس کے مقابلہ میں اسلامی نظام معیشت خواہ وہ نجی صرف کا ہو یا کاروباری سرگرمیوں کا، قرض کو ایک شدید نا پسندیدہ نظام قرار دیتا ہے اور اگر مجبوراً اس کی طرف رجوع کرنا پڑے تو اسے اخلاقی بنیادوں پر سود کے بغیر جائز قرار دیتا ہے پھر اس کا نام بھی قرض حسنہ قرار دیتا ہے اور اسے صدقہ کی ایک شکل شمار کرتا ہے۔ اگر معاملہ کاروباری نوعیت کا ہے اور مقصود لفع کمانا ہے تو اسلام نے اس کے لیے نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر مضاربت یا شراکت کی شکل میں مشترکہ سرمایہ کاری کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس طرح قرض کی بنیاد پر انفرادی اور اجتماعی

معیشت کی تشکیل کے تصور ہی کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔

ربو اور بنک کا سود

ہمارے لیے سیدھا راستہ یہی ہے کہ اللہ تعالٰی کے احکام کے مطابق اپنی معیشت کی تشکیل جدید کریں اور جو لوگ بھی اس موقف کے خلاف ہیں وہ کھل کر کھیں کہ ہمیں اسلامی نظام پسند نہیں اور ہم سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر ہی معاشی معاملات کو استوار کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی خواہشات کی خاطر شریعت کو بدلنا ایک سراسر خسارے کا سودا ہے۔

میں نے جب یہ کتاب دیکھی تو اسی وقت اردو میں اس کے ترجمہ کی ضرورت محسوس کی تھی لیکن اب جو بحث ہمارے یہاں اٹھائی گئی ہے اس کی موجودگی میں تو اس کی اشاعت ایک فرض کفایہ کی حد تک اہم ہو گئی ہے۔ مجھے ہو گئی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نوجوان ساتھی حقیق الظفر نے اس کا رواں ترجمہ بڑی محنت اور جانفشانی سے کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اس ترجمہ کو اردو دان طبقہ کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ طالبان حق کو اس میں بڑا تشفی مواد میسر آئے گا۔ اللہ تعالیٰ مصنف اور مترجم دونوں کو بہترین اجر سے نوازے اور جو افراد بھی غلط فہمی یا کم علمی کی بناء پر اس فتنہ کا شکار ہورہے ہیں ان کی رہنمائی کا بندو بست فرمائے۔

پروفیسر خورشید احمد

jeth

اعلان کیا۔

ال کے بہت کہانی جولین نے فروری

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »