اسلامی بنک کاری: اکیسویں صدی کا چیلنج

نظام حیات
اسلامی بنک کاری: اکیسویں صدی کا چیلنج
پر فیسر خورشید احمد
ترجمہ : میاں محمد اکرم
اسلامی بنک کاری آج ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جدید اداروں اور روایات کے حوالے سے اسلامی نظریات کے عملی شکل اختیار کرنے کی یہ ایک مثال ہے۔
۱۹۷۵ کا سال بجا طور پر دنیا بھر میں اسلامی بنک کاری کی تحریک کے وجود میں آنے کا سال قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے عشروں تک فکری کام ہوتا رہا اور ۶۰ کے عشرے اور 20 کے اوائل میں آغاز کار کے لیے بنیادی کام کیے گئے۔ دینی میں دینی اسلامک بنک اور جدہ میں اسلامی ترقیاتی بنک (IDB) کے قیام نے اسلامی بنک کاری کو تخیل کی دنیا سے نکال کر پختہ اور عملی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس وقت سے دنیا کے مختلف حصوں میں اسلامی بنک اور مالیاتی ادارے وجود میں آچکے ہیں۔ کئی اسلامی ممالک نے اپنے بنک کاری نظام کو غیر سودی اور شرعی بنیادوں پر استوار کرنے کا آغاز کیا ہے۔
پاکستان، ایران اور سوڈان میں روایتی بنک کاری کو اسلامی بنک کاری میں تبدیل کرنے کے لیے کام کیا گیا ہے جب کہ دوسرے مسلم ممالک مثلاً ملائشیا متحدہ عرب امارات، کویت، ترکی، مصر، الجزائر، تیونس اور قازقستان وغیرہ میں نجی شعبہ میں اسلامی بنک کاری اور مالیاتی اداروں کے قیام کے لیے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ غیر مسلم ممالک مثلاً امریکہ ، برطانیہ، سونتزرلینڈ، ڈنمارک اور لکسمبرگ میں بھی ایسے ہی ادارے اور پراجیکٹ کام کر رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کے تمہیں ممالک میں ایسے تقریباً دو سو بنک کام کر رہے ہیں، جن کے ڈیپازٹ کی مالیت ۸۰ ملین ڈالر ہے۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق کویت اور خلیجی علاقوں میں غیر سودی بنک اور مالیاتی ادارے پورے مالیاتی شعبہ کے دس فی صد کے برابر ہیں اور توقع ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز پر یہ شرح دوگنی سے زیادہ ہو جائے گی۔ غیر سودی بنک کاری کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر بہت سے سودی کاروبار کرنے والے بنکوں نے بھی غیر سودی کاؤنٹر کھول لیے ہیں اور غیر سودی بنیادوں پر سرمایہ کاری کے منصوبے تجویز کر رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخری ربع میں اسلامی بنک کاری
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
۴۶
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
بنک کاری کے شعبہ میں متعارف ہونے والا جدید رجحان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جدید رجحان غیر سودی
اور شراکتی بنیادوں پر قائم مالیاتی اداروں کے ذریعے مستقبل میں کیا کردار ادا کر سکے گا۔ اس وقت دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلمانوں کی ۵۴ آزاد ریاستیں ہیں جو دفاعی نقطہ نگاہ سے دنیا کے سب سے اہم علاقوں پر محیط ہیں۔ مسلمانوں میں اپنی سماجی و معاشی زندگی کو اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق گزارنے کا شعور ترقی پا رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ میں یک جہتی ہو اور وہ مضبوط ہو۔ یہ شعور نفاذ اسلام کی تحریک کی صورت میں ہر طرف موجود ہے۔ اسلامی بنک کاری کی تحریک بھی اسی ہمہ گیر تحریک بیداری کا ایک جزو ہے۔ اسلامی بنک کاری کی طلب اور اس کے لیے آمادگی کی واحد وجہ مذہب سے وابستگی نہیں ہے، تاہم یہ اس کی ایک بڑی وجہ ضرور ہے۔ دوسری طرف اسلامی بنک کاری کے اصولوں کو اپنانے کی راہ میں جلب زر اور طلب منافع کی ہوس کا موجودہ ماحول مسلم بنگ کاروں کے لیے شدید مشکلات پیدا کرتا ہے۔ اسلامی بنک کاری کے اصولوں کی قبولیت عامہ کی ایک بڑی وجہ قرضہ جاتی سرمایہ (debt capital) کے مقابلے میں شراکتی سرمایہ کی فوقیت ہے۔ مثال کے طور پر ۸۰ کے عشرے میں قرضوں کے بحران debt) (crises سے بچنا اسی صورت میں ممکن تھا کہ ترقی پذیر ممالک ” شراکتی سرمایہ ” کو “قرضہ جاتی سرمایہ ” پر ترجیح دیتے۔ کیونکہ اقتصادی طور پر خراب سالوں کی ادایگیاں اچھے سالوں (good years) میں کی جاسکتی تھیں جب کہ قرضہ جاتی سرمایہ کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں مقررہ ادایگیاں (fixed charges) اچھے یا خراب دونوں طرح کے سالوں میں بہرطور کرنا پڑتی ہیں۔ بیسویں صدی کے معاشی نظریات اور تجربات کے چیلنجوں کے جواب میں مسلمان معیشت دانوں اور
بنک کاروں کی طرف سے اسلامی بنک کاری کا آغاز ایک تخلیقی اور تحقیقی جواب ہے۔ نو آبادیاتی نظام کے خاتمے اور دنیا بھر میں گذشتہ پچاس برسوں میں ایک سو چالیس سے زائد ممالک اور ریاستوں (جن میں پچاس سے زائد مسلم ممالک شامل ہیں) کے قیام کے باوجود مغرب کی سیاسی اور معاشی بالادستی اب تک قائم ہے۔ برطانوی اور مغل ہندستان انیسویں صدی کے آغاز پر فی کس صنعتی پیداوار اور فی کس آمدنی کے لحاظ سے مساوی سطح پر تھے، جب کہ ترکی تاریخ کے اس مرحلے پر زیادہ تر یوروپی ممالک اور امریکہ کے مقابلے میں زیادہ خوشحال اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے تھا لیکن اب بیسویں صدی کے اختتام پر صورت حال بہت مختلف ہے۔ آج دنیا کا معاشی نظام تئیس مغربی ممالک کنٹرول کرتے ہیں اور اپنے مفاد میں چلاتے ہیں۔ دنیا کی آبادی کا امیر ترین ۱۶ فی صد حصہ دنیا کی کل دولت کے ۸۴ فی صد حصے سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ورلڈ فیڈریشن آف یونائیٹڈ نیشنز ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل کے الفاظ میں: “شمال
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
۴۷
اسلامی بنگ کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
(North) کی بیس فی صد اقلیت دنیا کی خام قومی پیداوار (GNP) کا ۸۲۶۷ فی صد کل تجارت کا ۸۱۶۲ فی صد داخلی سرمایہ کاری کا ۸۰۶۵ فی صد اور تحقیق و ترقی کا ۹۴ فی صد کنٹرول کرتی ہے۔ (۱) اقوام متحدہ کے ترقیاتی مطالعہ (UN Development Studies) کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو ہر سال شمال کی طرف سے ان کی پیداوار پر عائد تحفظاتی اور امتناعی رکاوٹوں کے باعث پانچ سو ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ممالک اپنے اوپر قرضوں پر سود کی شرحوں کے حوالے سے دباؤ اور شمال اور جنوب میں پائے جانے والے دیگر ڈھانچہ جاتی (structural) فرق کی بنا پر بھی نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس پر مستزاد پانچ سو کے لگ بھگ کثیر القومی کمپنیاں ہیں جو عالمی تجارت کا ۵۰ فی صد کنٹرول کرتی ہیں۔ جنوب (جو کہ تیسری دنیا اور مسلم ممالک پر مشتمل ہے) میں سیاسی و معاشی بحران ان ممالک کی طرف سے مغرب کی قومی ریاستوں کے ماڈل کی پیروی کی وجہ سے مزید گہرا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ ممالک علاقائی جھگڑوں، نسلی عصبیتوں اور معاشرتی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس معاشی منظر کو ایک اور چیز جو بھیانک بناتی ہے وہ چھوٹے پیدا کاروں (producers) اور تاجروں کو جو کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی معیشتوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، نظر انداز کرنا ہے۔
اب ایک ایسی دنیا وجود میں آچکی ہے، جس میں اونچ نیچ ہے، جیسا کہ پال کینیڈی Preparing For the Twenty First Century میں لکھتا ہے: “ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں دنیا کے ترقی یافتہ شمالی علاقے، دنیا کے وسائل میں سے فی کس زیادہ حصے پر قابض ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ صرف کرتے ہیں۔ امریکہ دنیا کی کل آبادی کا چار فی صد ہے لیکن دنیا کی تیل کی سالانہ پیداوار کا ایک چوتھائی استعمال کرتا ہے۔ ۱۹۸۹ میں امریکہ میں ۶۰۳ بلین بیرل تیل استعمال کیا گیا۔ یہ برطانیہ یا کینیڈا کے مقابلے میں دس گنا اور تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک کے مقابلے میں سیکڑوں گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح کی غیر متوازن صورت حال کاغذ سے لے کر گائے کے گوشت تک کے استعمال میں موجود ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق ایک اوسط درجے کا امریکی بچہ سویڈن کے مقابلے میں دنیا کے ماحول کو دو گنا زیادہ نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔ یہ تناسب اٹلی کے مقابلے میں تین گنا برازیل کے مقابلے میں تیرہ گنا بھارت کے مقابلے میں ۳۵ گنا اور چاڈ یا بیٹی کے بچے کے مقابلے میں ۲۸۰ گنا ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی دانش مند کی نظر میں خوش آئند نہیں ہے” (ص
۳۲-۳۳)۔
مستقبل کی صورت حال اور بھی مخدوش نظر آتی ہے۔ پال کینیڈی کے بقول: ”اکیسویں صدی کے آغاز پر غریب اور امیر کا یہ فرق اور بڑھے گا جس کے نتیجے میں ترقی یافتہ ممالک میں سماجی بے چینی بڑھے گی اور شمال و جنوب کی کشمکش میں بھی اضافہ ہو گا۔ بڑے پیمانے پر ترک وطن اور ماحولیاتی نقصانات ہوں گے،
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی 1992
۴۸
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
جس کی وجہ سے اس میں جیتنے والے بھی نقصان اٹھائے بغیر نہ رہیں گے” (ص ۳۳۴)۔
اگرچہ یہ حالات مختلف پیچیدہ عوامل کا نتیجہ ہیں، جن میں اخلاقی، نظریاتی، سماجی اور تہذہبی نوعیت کے پیچیده عوامل شامل ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بے لگام نظام سرمایہ داری اور سود پر مبنی نظام بنک کاری نے اس بحران کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بنگ کاری اب صرف امانتیں وصول کرنے اور قرضہ جاری کرنے کا نام نہیں ہے۔ نظام بنک کاری کا آغاز جیسے بھی ہوا یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ بنک کاری کا نظام آج دنیا کی معیشت میں اعصابی نظام کی حیثیت رکھتا ہے۔ سرمایہ کاری اس نظام میں خون (life blood) کی حیثیت رکھتی ہے اور بنک زندگی کی اس ڈور کو کنٹرول اور منظم کرتے ہیں۔ اشتراکی سیاسی و معاشی نظام کے انتشار کے ساتھ ، تیسری دنیا کے ممالک کے ابھر کر آنے اور عالمی معیشت کی بڑھتی ہوئی یکجائی کے نتیجے میں مالیاتی اداروں کا کردار کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ یہاں ہمیں ایک بنیادی مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ کہ نظام بنک کاری ایک خاص قسم کے اخلاقی و معاشی کلچر میں صدیوں میں پروان چڑھا ہے۔ ربنوا تقریباً تمام بڑے مذاہب اور اخلاقی نظاموں میں ممنوع (حرام) قرار دیا گیا ہے۔ مختلف تہذیبوں نے اپنے مالیاتی اداروں کو اپنے کلچر میں پروان چڑھایا، ان میں قرون وسطی کی عیسائیت اور اسلامی تہذیب شامل ہیں۔ جدید نظام بنک کاری سرمایہ داری اور سود کے محور کے گرد پروان چڑھا ہے۔ بنک بہت سی خدمات سرانجام دیتے ہیں لیکن مالیاتی لین دین کے ذریعے Financial) (Intermediary کے طور پر کام کرنا ان کا سب سے بڑا کردار ہے۔ جدید نظام بنک کاری نے ایسے بکھرے ہوئے اثاثوں کو یکجا کرنے کا کام بڑی کامیابی سے انجام دیا ہے جو دوسری صورت میں مختلف جگہوں پر ہوتے۔ بنک نے ان اثاثوں کو نجی اور سرکاری منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے ایک بہت بڑی قوت کی شکل دی ہے اور اس تاریخی عمل کے دوران یہ مالیاتی ایجنٹ نہ صرف اس وسیع مالی ذخیرہ کو حرکت میں لا سکے ہیں، بلکہ اس کی بنیاد پر تخلیق زر (credit creation) کی قوت بھی حاصل کر لی ہے اور یوں وہ اثاثوں کی حقیقی بنیاد سے بہت زیادہ غیر معمولی طاقت اور لیوریج (leverage) استعمال کرتے ہیں۔ Derivatives کے نام سے معروف مالیاتی آلات کے نئے مجموعے نے اس قوت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے اور اس نے گذشتہ عشرے میں دنیا کی مالیاتی منڈیوں پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔
.
Derivatives ایسے معاہدے ہوتے ہیں جن کی بنیاد کچھ دوسرے تحتی معاہدوں پر ہے۔ Derivatives کا لین دین کرنے والے تجارتی اور سرمایہ کاری بنک ہیں جو ان کا اجرا کرتے ہیں اور ان کی قیمتیں متعین کرتے ہیں اور ان کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ یہ معاہدے کسی ایک پارٹی کو کسی موجود اثاثے ستقبل کے لیے کلیم کا حق دیتے ہیں اور کسی دوسری پارٹی کو اس کے مطابق ذمہ داری (liability) کا
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
پابند کرتے ہیں۔ معاہدے میں کرنسی کی مقدار یا سیکیورٹی یا طبعی شے یا ادائیگیوں کے کسی سلسلے یا مارکیٹ انڈکس کو بیان کیا جاتا ہے۔ دونوں فریقوں کو برابری کی بنیاد پر پابند کیا جاتا ہے یا کسی ایک فریق کو ایسا کرنے یا نہ کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ اس میں اثاثہ جات یا ذمہ داریوں (obligations) کا باہمی سودا کیا جاتا ہے۔ Derivatives کی نشوونما غیر معمولی ہے۔ ایک BIS سروے کے مطابق OTC اور Exchange Derivatives کی مالیت اپریل ۱۹۹۵ میں ۴۷۵ ٹریلین امریکی ڈالر کے برابر تھی۔ OTC derviatives کے علاوہ Exchange Derivatives میں یہ مالیت ۱۶.۶ ٹریلین ڈالر تھی۔ اس طرح Derivatives کی مالیت تقریباً ۶۴ ٹریلین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ۱۹۹۵ کے آخر میں دنیا کے تمام ممالک کی خام داخلی پیداوار (GDP) کا تخمینہ ۲۸.۹۵۴ ٹریلین امریکی ڈالر کے برابر تھا۔ (اکتوبر ۹۶‘ ص ۶۷ ,World Economic Outlook, IMF) امریکہ بھی Derivatives منڈی میں بہت آگے ہے۔ Derivatives کی منڈی میں ۱۹۹۴ میں امریکہ کے ۱۸ ٹریلین ڈالر تھے، جب کہ اس عرصے میں کاروباری مالیات (corporate financing) ایک ٹریلین ڈالر کے برابر تھی۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا کی منڈیوں میں Derivatives کا روزانہ کا لین دین ایک ٹریلین ڈالر سے زائد ہے جب کہ سالانہ turnover تقریباً ۳۰۰ ٹریلین ڈالر سے زائد ہے جو کہ دنیا کے تمام ممالک کی خام داخلی پیداوار (GDP) کا ۱۲ گنا ہے۔
امریکہ کی US Federal Deposit Insurance Corporation کی سہ ماہی بنک کاری رپورٹ کے مطابق امریکی تجارتی بنکوں کے Derivatives کی مالیت سالانہ ۳۰ تا ۳۵ فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے اور یہ Derivatives سب بڑے بڑے اداروں کے پاس مرتکز ہو رہے ہیں۔ پانچ بڑے بنکوں (سٹی کارپ، کیمیکل بنگ، بینکرز ٹرسٹ، جے پی مارگن اور چیزمین بیٹن) کے پاس Derivatives کا ۷۵.۵ فی صد ہے۔ ان کے مقابلے میں اگلے دس بنکوں کے پاس ۱۹.۵ فی صد اور باقی ۶۵۳ بنکوں کے پاس صرف پانچ فی صد ہے۔ اس کے مقابلے میں جون ۱۹۹۴ میں ختم ہونے والے سال میں امریکی تجارتی بنکوں کے اثاثوں میں 9 فی صد اضافہ ہوا جب کہ قرضوں میں اضافہ کی شرح ۸ فی صد تھی۔
جب کہ off balance sheet derivatives ” بنکوں کے اثاثوں سے چار گنا زیادہ تھے۔ بیسویں صدی سے بہت کچھ حاصل ہوا ہے لیکن یہ اکیسویں صدی کے لیے ورثے میں ہزاروں مسائل اور تنازعات چھوڑ کر جا رہی ہے۔ سب سے اہم چیلنج دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی کو بری طرح متاثر کرنے والی غربت اور محرومی اور دولت اور مواقع میں بہت زیادہ تفاوت دور کرنے میں دنیا کی معیشت کی ناکامی ہے۔ معاشی پھیلاؤ نے ایک بالکل نئی شکل اختیار کی ہے جس نے مالیاتی اور طبیعیاتی معیشتوں میں تعلق کو بالکل ختم نہیں تو کمزور ضرور کر دیا ہے۔ موجودہ معاشی امراض کی جڑ یہی ہے۔ اس صدی کی خاص بات ہر چیز
ماہنامہ ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
کا عالمی ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کے اثرات بھی عالمی نوعیت کے ہیں۔ جدید سرمایہ دارانہ معیشت کی نوعیت اور ڈھانچے کو قرضوں کی بنیاد پر قائم معیشت debt based) (economy کہا جا سکتا ہے، خواہ ہم انفرادی اور گھریلو صرف کے شعبہ کو دیکھیں یا نجی و سرکاری پیداواری شعبہ کو معاشی سرگرمیاں سود کے محور پر گردش کرنے والے قرضوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ معاشی ترقی کے حصول کے لیے گذشتہ دو صدیوں میں اختیار کی گئی پالیسیوں میں قرضوں کو نہ صرف طبعی ترقی بلکہ مالیاتی پھیلاؤ کے لیے ایک آلے (instrument) کے طور پر اختیار کیا گیا۔ اسی لیے تخلیق زر credit) (creation کے ذریعے مالیاتی پھیلاؤ کو نہ صرف معیشت کے لیے سب سے زیادہ متحرک عامل بنایا گیا ہے بلکہ معاشی استحکام کے لیے اس کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ۱۹۹۶ میں ترقی پذیر ملکوں کے بیرونی قرضے ۱۹۵۶ ٹریلین امریکی ڈالر کے برابر تھے جب کہ ترقی یافتہ ممالک کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ امریکہ دنیا کا امیر ترین ہی نہیں دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بھی ہے۔ ۱۹۶۰ میں امریکہ کا وفاقی خساره ۵۹۰۶ بلین ڈالر تھا اور قومی قرض ۹۱۴۳ بلین ڈالر جب کہ ۱۹۰۰ میں قومی قرض ایک بلین ڈالر تھا)۔ 1991 میں خسارہ بڑھ کر ۳۰۰ بلین ڈالر ہو گیا، جب کہ قومی قرض ۴ ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ پال کینڈی اکیسویں صدی کے لیے تیاری” میں لکھتا ہے:
۸۰ کے عشرے میں نہ صرف قومی قرضہ بہت زیادہ بڑھا بلکہ قرض کی ہر صورت میں (مثلاً صرفی قرضے) آسان آمدنی (easy money) کی ترغیب کی وجہ سے اضافہ ہوا اور یہ ۴ ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے جس کی وجہ سے شخصی آمدنی کم ہو گئی۔ کاروباری قرض کی صورت اور بھی زیادہ خراب تھی۔ ۹۰ کے عشرے کے آغاز پر امریکی کاروباری کمپنیوں کی ٹیکس کی ادائگی کے بعد بچنے والی آمدنی کا 90 فی صد قرضوں پر سود کی ادائیگی میں خرچ ہوا۔۔۔ سرکاری اور نجی قرض خام قومی پیداوار (GNP) کے تقریباً ۱۸۰ فی صد کے برابر تھا ادایگیوں کے توازن (BOP) اور کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ ایک اور تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔۔۔ اس کے نتیجے میں امریکہ اپنی جنگوں کے اخراجات غیر ملکیوں سے ہر سال 100 بلین ڈالر قرض لے کر پورے کرتا ہے۔ اور دس سال سے بھی کم عرصہ میں دنیا کو سب سے زیادہ قرض دینے والا ملک سب سے زیادہ قرض لینے والا ملک بن گیا ہے ” (ص ۲۸۸-۲۸۶)۔ عالمی حالات کے اس تناظر میں ہم اسلامی بنک کاری کے ان اصولوں کی نشاندہی کریں گے جن پر مستقبل کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔
معاشیات سے متعلق اسلام کا نقطہ نظر معیشت کے بالکل مختلف وژن (vision) پر مبنی ہے۔
مثلاً
ما بینامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
اد
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چینچ
قرضوں پر مبنی credit based کے بجائے شراکتی پر مبنی (equity based)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرضوں کا لین دین نہیں ہو سکتا۔ حقیقی انفرادی اور کاروباری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرض حسن کا تصور موجود ہے، لیکن معیشت کا ڈھانچہ مختلف نویت لیے ہوئے ہے۔ سرمایہ اور آجر شریک کار ہوں گے اور کاروبار کے نفع و نقصان میں حصہ دار ہوں گے۔
اسلام سرمایہ پر منافع کے خلاف نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ نظام بنک کاری کو پہلے سے متعین کردہ شرح سود کی بنیاد پر چلانے کے بجائے نفع میں شرکت کے نظام سے بدل دیا جائے، جس میں شرح منافع پہلے
سے معلوم نہ ہو اور کاروباری لین دین سے پہلے اس کو متعین نہ کیا گیا ہو، بلکہ یہ بعد میں طے کی جائے۔ اسلام کاروبار اور تجارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور منافع کی صرف اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ مثبت قدر کے طور پر اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ایک متوقع شرح منافع کے پیش نظر متعین شرح سود کے بجائے اصل منافع کی بنیاد پر پہلے سے غیر متعین شرح منافع کا اصول پیش کرتا ہے۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر اسلام، سرمایہ اور آجر میں تعاون اور پیداواری عمل میں حصہ داری کا خواہاں ہے۔ اسلامی تاریخ کے پہلے دور میں اسلامی معاشرے ایسے مالیاتی آلات اور ادارے بھی وجود میں لائے، اور آج جب کہ معاشی نظام بہت زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں، اسلامی بنک کاری کی تحریک معاصر معیشت کے حوالے سے ایک متبادل نظام کو ترقی
دینے کی تحریک ہے۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ سود کا خاتمہ اسلامی معاشیات کا ایک پہلو ہے۔ اسلام ایک منصفانہ معاشی نظام کے قیام کا داعی ہے جو بالکل واضح طور پر متعین معاشی حقوق ملکیت کے تصورات، معاہدات محنت اور آمدنی و دولت کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہو۔ اسلام اخلاقی اقدار اور غیر اخلاقی اقدار حلال و حرام اور منڈی کی میکانیت کا ایسا نظام پیش کرتا ہے جو اخلاقیات کی بنیاد پر قائم ہو اور وسائل کو مختص کرنے کے عمل میں کار کردگی اور شراکت کو یقینی بنائے۔ ریاست کا کردار بھی واضح طور پر متعین کیا گیا ہے۔ یہ ریاست نہ تو عدم مداخلت کے اصول پر مبنی غیر جانبدار سٹیٹ ہے اور نہ ہی سوشلسٹ طرز کی کلی طور پر حاوی ریاست۔ کچھ خاص مقاصد کے تحت ریاست کو مداخلت کی محدود اجازت ہے۔ اسلام قیمتوں میں استحکام اور زر کی قدر کے تحفظ کا خواہاں ہے جو قدر کی پیالیش کا ذریعہ اور ادھار ادایگی کا معیار ہے۔ ایسی معیشت میں بنک صرف ایک درمیان کے مالیاتی ادارے کا کردار ادا نہیں کرتے بلکہ معیشت کی ترقی کے علاوہ معیشت کو ایک خاص نہج پر ڈھالنے کا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور ساتھ ہی سماجی و اخلاقی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ بلاشبہ بنکوں سے نہ تو خیراتی ادارہ ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ ہی صرف انسان دوست یا فلاحی تنظیم ہونے کی۔ لیکن نظام
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
۵۲
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
بنک کاری میں فلاح و بہبود، شراکت اور استحکام کے پہلو بھی اسی طرح ضروری ہیں جس طرح کار کردگی افادیت اور منافع کاری اہم ہیں۔ یقیناً اس میں کچھ کمی زیادتی ہو گی۔ بہر حال مقصد کار کردگی اور برابری، منافع بخشی اور بہبود اور پھیلاؤ اور استحکام کے درمیان توازن کا حصول ہو گا۔ روایتی بنک کاری بھی کسی حد تک اخلاقی پہلو کو محدود حد تک سامنے لانے کی کوشش کرتی ہے۔ اخلاقی بنیادوں پر بنک کاری کی تحریک اس کی ایک مثال ہے۔ (۲) لیکن اس کی حیثیت مرکزی نہیں ہے، اسلامی بنک کاری میں اخلاقی اور سماجی مقاصد کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، اسی لیے اسلامی بنک کاری صرف غیر سودی بنک کاری نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بہت کچھ ہے۔ یہ پوری معیشت کا ایک نیا اور مختلف انداز ہے۔ اسلامی معاشیات کا بنیادی نظریہ نقع و نقصان پر مبنی ایک مستعد اور منصفانہ نظام کا قیام ہے (کچھ لوگوں کے نزدیک صرف منافع میں شراکت)۔ اس نظام کی اہلیت کی خصوصیت اس نظام معیشت کے مالیاتی اور حقیقی شعبوں میں ربط سے حاصل ہوتی ہے۔ جب کہ شراکت کی خصوصیت امانتوں پر شرح منافع کو مدت کے طول کے مطابق زیاہ سے زیادہ کرنے پر
ہے۔
امانتوں پر
لیکن اسلامی بنک کاری کو فعال اور منصفانہ بنانے کے لیے اس کی منافع اندوزی یعنی قرضوں پر منافع اور منافع کے درمیان فرق کو (جسے spread بھی کہا جاتا ہے) زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔۔ ایک اور ضرورت یہ ہے کہ بنک کے کاموں میں موجود خطر (risk) کے عصر کو کم سے کم کیا جائے اور اس پر خوب اچھی طرح نظر رکھی جائے۔ اہلیت اور منافع اندوزی کی خصوصیات کے درمیان تعلق اس حقیقت سے معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ کئی مطالعاتی جائزوں سے ظاہر ہے کہ معاشی سرگرمیوں کی سطح، امانتوں اور قرضوں کے اجرا اور spread پر اثر انداز ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں نظام بنک، کاری میں منافعوں کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں معاشی ترقی میں اضافہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معیشت کے مالیاتی اور حقیقی شعبوں میں ربط کو مضبوط بنا کر روایتی بنکوں کے مقابلے میں اسلامی بنکوں کے سماجی منافعوں میں اضافے کے زیادہ امکانات ہیں۔ اسلامی بنکوں کی بالاتری اور مستعدی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسلامی بنکوں کے منافع (اور نقصان) عدل و احسان کی اسلامی اقدار کی روشنی میں آپس میں تقسیم کیے جائیں۔ اسلامی بنکوں میں روز مرہ کے اخراجات اور جاری کردہ قرضوں پر شرح منافع
کے پیش نظر روایتی بنکوں کے مقابلے میں اسلامی بنک امانتوں پر شرح منافع لازماً زیادہ دے سکیں گے۔ خطر اہلبیت بالاتری اور منافع اندوزی کے درمیان ربط اسلامی بنکوں کے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے کی قابلیت پر منحصر ہے (جس کا اسے عملاً مظاہرہ کرنا چاہیے ) جو ایک طرف تو خطر (risk) سے بچنے والے اور خطر کا سامنا کرنے والے سرمایہ کاروں کی ترجیحات پر پورا اتر سکے اور دوسری طرف معاشرے میں
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
۵۳
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
معاشی سرگرمی کی عکاسی کر سکے۔
اہلیت بالاتری اور منافع اندوزی سے قطع نظر نفع و نقصان میں شراکت (PLS) شرعی نقطہ نظر سے ایک بہتر طریقہ ہے۔ یہ طریقہ اسلامی بنک کاری (جو کہ شراکتی مالیات پر مشتمل ہے) کو روایتی بنک کاری (جو کہ قرضہ جاتی مالیات پر مشتمل ہے) سے جدا کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں نفع و نقصان میں شراکت کا طریقہ بنک کاری کی اسلامی نوعیت کو سب سے زیادہ واضح کرتا ہے۔ اس قسم کی بنک کاری میں انقلابی قوت موجود
ہے۔ اس کا اعتراف مغربی معاشیات دانوں اور بنک کاروں کی ایک بڑی تعداد کر رہی ہے۔ ترقیاتی مرکز برائے او ای سی ڈی (OECD) پیرس کے عرب اور اسلامی بنک کاری کے موضوع پر کیے گئے ایک مطالعے کے لکھنے والے مسٹر ٹراؤٹ وولر شارف Traute Wohler Sharf) کہتے ہیں: اسلامی بنک کاری کے اصولوں کی روشنی میں اگر جنوب سماجی و معاشی نظام کے جدید نظریہ (نفع و نقصان میں شراکت پر مینی چھوٹے اور درمیانے درجے کے نئے منصوبوں پر توجہ مرتکز کرے جن کا مقصد معاشی اثاثوں کی تخلیق ہو) کو اپنا لے تو یہ تعاون کے تصور کی طرف پیش قدمی ہو گی جس کا آج تک صنعتی ممالک میں ہی چرچا رہا ہے۔ (۳) اسلامی بنک کاری ایک طرف مالیات اور دوسری طرف صنعت و تجارت کے درمیان تعلق کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ نیا تعلق اسلام کے معاشی نظام کی بنیاد ہے۔ بین الاقوامی مالیات کے مقابلے کے ماحول میں اسلامی اصولوں کو تجربہ کی کسوٹی پر پرکھنا ابھی باقی ہے۔ دونوں نظام مالیاتی ثالثی اداروں اور معاشی اثاثوں کی تخلیق میں قریبی تعلق پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔
اسلامی بنک معاشی افزایش اور ترقی کے لیے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں، خاص طور پر کساد بازاری افراط زر و بے روزگاری اور کم معاشی افزایش کے حالات میں۔ کیونکہ ان بنکوں کا اصل زور پیداواری سرمایہ کاری کے عمل پر ہے۔ شمال و جنوب سمیت تمام ممالک مزید سرمایے کے محتاج ہیں۔ خاص طور پر صنعتی معیشتوں میں قرضہ جاتی سرمایہ تو موجود ہے، لیکن بہت زیادہ شرح سود پر۔ تاہم اوسط درجہ کے کاروباری بھی نئے کام شروع کرنے اور پھیلانے کے لیے سرمایہ کے حصول میں مشکلات کا شکار ہیں۔ اس چیز نے شمال میں پیداواریت اور معاشی افزایش میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ پس اسلامی بنکوں اور کاروباری اداروں میں دنیا بھر میں عمل اور درمیانی مدت کے تعاون کے امکانات موجود ہیں۔ درمیانی عمل کو ابھی پوری طرح ترقی دینے کی ضرورت ہے”۔ (1983,095 Arab and Islamic Banks, OECD Paris)
Lough brorough یونیورسٹی (برطانیہ) کے پروفیسر جان آر پر سلے (John R. Presley) اور جے جی سیشنز (J.G. Sessions) نے برطانیہ کی رائل اکنامک سوسائٹی کے رسالے ”دی اکنامک جنرل“ کے مئی ۹۴ کے شمارے میں اسلامی مالیاتی اصولوں کے مرکزی کردار کا جائزہ لیا ہے۔ مضمون کا نام ہے Islamic”
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
۵۴
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
“Economics: The Emergence of a New Paradigm ۔ وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ : ”مغربی معاشیات دان گذشتہ عشرے کے دوران معاشیات کی ایک نئی جہت اسلامی معاشیات” کو پہچاننے میں ناکام رہے ہیں”۔ آخر میں وہ لکھتے ہیں: ایک سودی معاہدہ جو کہ تلافی اور عامل سرمایہ کے فرق کو پیدا کرتا ہے، اس کے مقابلے میں مضاربہ کی بنیاد پر مالیات کا نظام پراجیکٹ کے اندر سے تلافی کا اہتمام کرتا ہے۔ پس مضاربہ کا معاہدہ مینیجر کے براہ راست کوشش و جدوجہد کو کنٹرول کرتا ہے۔ کیونکہ یہ کوشش سرمایہ کاری اور پراجیکٹ کی پیداوار کے تعلق کو متاثر کرتی ہے۔ معاہدہ مضاربہ کے تحت مینیجر (مضارب) کو اس بات کی آزادی دی جاتی ہے کہ وہ سرمایہ کے ایسے مناسب معیار کا انتخاب کرے جو معاہدہ کی رو سے اس کی محنت و جدوجہد کے معیار کے لیے ضروری ہے۔ اس قسم کا معاملہ سرمایہ کاری میں اوسط درجے کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتا ہے۔۔۔ اس طرح اوسط ” سرمایہ کاری بڑھتی ہے جب کہ اس معیار کے مقابلے میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ میں کمی آجاتی ہے۔۔۔ چند شرائط کے اندر رہتے ہوئے سرمایہ کاری کو صلہ (منافع) دینے کے لیے متبادل طریقے (مضاربہ) کا استعمال، سرمایہ کو حاصل کرنے کے لیے ایک آلہ (Instrument) ہونے کی خصوصیت اور قابلیت کی وجہ سے یہ طریق سرمایہ کاری کے معیار کو بلند کرنے کا سبب بنے گا” (مئی ٬۹۴ ص ۵۹۵)۔ ایک مشہور جرمن معاشیات دان پروفیسر بينز الباه (Hans Albaah) کہتے ہیں: ”اسلامی بنک ان سرمایہ کاروں کو کاروباری مقاصد کے لیے قرضے فراہم کرتے ہیں جن کا حصہ ان کی ذہانت و ہنرمندی اور محنت ہوتا ہے۔ دوسرے یہ بنک شراکتی سرمایہ کے ذریعے ایسے پروجیکٹوں کے لیے سرمایہ فراہم کرتے ہیں جن میں بہت سے شراکت داروں کی ضرورت ہوتی ہے”۔
“ترقی پذیر ممالک میں جہاں کاروباری خطر زیادہ ہوتا ہے شراکتی سرمایہ کی ضرورت کے حوالے سے یہ بنگ بہت مناسب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی ممالک جہاں نئے طریقوں اور نئے پرو جیکٹوں میں خطر کا عصر بہت زیادہ ہوتا ہے اور ان کے لیے بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے لیے بھی یہ بنک بہت مناسب ہیں”۔ )Islamic Banking, Proeedings of Baden-Baden Seminar, London)
اسلامی بنک کاری کو اگر اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں چلایا جائے تو یہ اکیسویں صدی میں معیشت کی تعمیر نو میں بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ میری ایمان دارانہ رائے کے مطابق اسلامی بنک کاری ابھی بہت ہی ابتدائی سطح پر ہے۔ اسلامی بنک کاری کے حقیقی اور جامع تصور کو ابھی حقیقت کے رنگ میں ڈھالنا ہے۔ اسلامی بنک کاری کو اصل تصور کے قریب لانے کے لیے ابھی بہت سا – خر کرنا باقی ہے۔ مالیاتی لین دین میں سود کے خاتمے کے لیے جو بھی سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں وہ قاتل تعریف ہیں لیکن اس پر
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ اس ضمن میں اندرون ملک اور بیرون ملک اب تک کی گئی کوششیں غیر موافق اور ناسازگار ماحول میں کی گئی ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی حالت ابتر ہے۔ قانونی ڈھانچہ مخالف ہے۔ ٹیکس کا نظام سود کے لیے موافق ہے اور منافع میں شراکت کے نظام کا مخالف ہے۔ اسلامی بنک کاری اور روایتی بنک کاری کے درمیان مقابلے کی صورت میں صاحب حیثیت لوگ اسلامی نظام کے مخالف ہیں۔ ان معروضی حالات میں اب تک کی گئی کوششیں بہرطور قابل تعریف ہیں۔ یہ کوششیں اسلامی بنک کاری کی طرف پہلا قدم ہیں۔
موجودہ اسلامی بنکوں کا بہت زیادہ انحصار ان جائز مالیاتی آلات پر ہے جو کہ روایتی معاشی نظام کے بہت زیادہ قریب ہیں مثلاً مرابحه (mark-up) اور اجاره (leasing) تقریباً ۸۰ تا ۹۰ فی صد قرضہ جات میں انھی آلات کو استعمال کیا گیا ہے جب کہ مضاربہ اور مشارکہ جیسے حقیقی متبادلات کو بہت ہی محدود پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے۔ اخلاقی و سماجی مقاصد کو بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق ہیں۔ امانتوں کو حرکت میں لانے کے حوالے سے سب سے زیادہ پیش رفت ہوئی ہے اور خاص طور پر بہت سے نئے وسائل حاصل کیے گئے ہیں لیکن ان وسائل کو معاشرتی طور پر فائدہ مند اور ترقیاتی اور فلاحی مقاصد کے لیے بہت کم استعمال کیا گیا۔ روزگار کی فراہمی اور معاشرے کے نچلے اور متوسط طبقات کی طرف وسائل کے بہاؤ کی طرف، خاص طور پر دیسی سطح پر جہاں بہت زیادہ امکانات کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے چیلنج در پیش آتے ہیں توجہ نہیں دی گئی۔ اسی طرح وسائل کے بہترین طریق پر استعمال کا معاملہ ہے۔ اسلامی بنک کاری کی سکیم کو اس محدود اور جزوی تجربے کی بنیاد پر کامیابی و ناکامی کی کسوٹی پر جانچتا نا انصافی ہو گا۔ ابھی تو بہت سا سفر طے کرنا ہے نظام کے نمایاں پہلووں کو اجاگر کرتا ہے، اس کے بعد ہی اس تجربے کے بارے میں کوئی حقیقی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ تاہم عملی تجربات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ اسلامی بنکوں کی طرف سے دیے جانے والے منافع کی شرح روایتی بنکوں کی نسبت کم ہے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی بنک پیداواری سرگرمیوں کی نسبت تجارتی سرگرمیوں، عرصہ طویل کے مقابلے میں عرصہ قلیل کے منافعوں، سماجی فائدوں کے مقابلے میں نجی فائدوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ قلیل مدتی اثاثوں کے ارتکاز نے اسلامی بنکوں کی سرمایہ کاری کے استحکام کو کم کر دیا ہے اور بنکوں کے خطر میں اضافہ کر دیا ہے۔ عملی طور پر قرضہ جاتی سرمایہ حاصل کرنے والے نفع و نقصان میں شراکت کے مقابلے میں مرابحه (mark-up) کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقی شرح منافع (افراط زر کے مطابق) اگر منفی نہیں تو عام طور پر کم ہے جب کہ بنک کاری کے قرضوں پر یہ لازماً مثبت ہوتی ہے۔ ان تمام اندرونی چیلنجوں، اور بیرونی
مابنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
۵۶
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اسلامی بنکوں کو اسلامی مالیاتی طریقوں کو اس انداز میں نافذ کرنا ہے کہ کار کردگی، منافع اندوزی اور برابری کے مقاصد ساتھ ساتھ حاصل کیے جاسکیں۔
بنکوں کے حسابات کی جانچ پڑتال کے نظام کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی اور عملی اخراجات کا صحیح تخمینہ لگ سکے اور بنکوں میں ہونے والی کو تاہیوں اور خرابیوں پر نظر رکھی جا سکے۔ اسے اسلامی بنکوں جیسے کسی بھی ذمہ دار بنک کا ایک لازمی جزو ہونا چاہیے۔ بالفاظ دیگر اسلامی بنکوں میں معلومات کی بنیاد وسیع ہونا لازمی ہے، اس مقصد کے لیے کمپیوٹر جیسی جدید سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جائے جن کے ذریعے بہت تھوڑے وقت اور بہت کم اخراجات میں نہ صرف معلومات کو جمع کیا جا سکتا اور رکھا جا سکتا ہے بلکہ ان معلومات کو پھیلاتا اور دوسروں تک پہنچانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ایسا کرنا ضروری ہے کیونکہ اسلامی بنک کے قیام کے ساتھ اطلاعاتی اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے، مثلاً امانتیں جمع کروانے والے لوگ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ وہ اپنی رقوم سے کہاں سرمایہ کاری کریں، مختلف بنکوں کی کارکردگی جانچتا چاہتے ہیں، اسی طرح بنک بھی سرمایہ کاری کے لیے دستیاب وسائل کو استعمال کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ اور بروقت معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
اسلامی بنکوں میں قرضوں کے نادہندگان کے ساتھ سختی سے نپٹا جائے کیونکہ یہ خیانت ہے جو اسلام کی نظر میں بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔ عمومی طور بنکوں کی رقوم کے سلسلے میں کسی قسم کے غبن کو سماجی جرم
قرار دیا جائے۔ شراکتی ضروریات کے پیش نظر بنکوں کی امانتوں اور قرضوں پر منافع کے درمیان فرق کو ممکن حد تک کم رکھا جائے، البتہ اس ضمن میں بنک کے مناسب عملی اخراجات کی رعایت رکھی جائے جس کا تعین ذمہ دار آڈیٹرز کے ذریعے کیا جائے۔
روایتی بنکوں پر سبقت لے جانے کے لیے اسلامی بنکوں کو حقیقی منافع کی ادایگی کا اہتمام کرنا ہو گا جو که مناسب منافع کی صورت میں ہو اور اس کا تعین اس مدت کے مطابق کیا جائے جس کے لیے وہ رقوم جمع کروائی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افراط زر کے زمانے میں بنکوں کے قرضوں پر منافعوں کی شرحیں افراط زر کی شرح سے بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح اسلامی بنک افراط زر کے مطابق امانتوں پر منافع کو بڑھا سکتے ہیں۔ اسلامی بنکوں کو ایسے نئے طریقے دریافت اور اختیار کرنے چاہییں جن میں بچت کنندگان کے خطر (risk) کی مختلف ترجیحات موجود ہوں۔ بچت کرنے والے مختلف طبقات کے لیے ان کی خطر کا سامنا کرنے کی صلاحیت کے علی الرغم سب کو ایک ہی طرح کے خطر میں ڈالنا اخلاقی لحاظ سے بھی مناسب نہیں ہے۔ اسلامی بنکوں کو طویل المیعاد پرو جیکٹوں میں سرمایہ کاری سے معاشرتی اور سماجی منافع انفرادی منافعوں کے مقابلے
مابنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
۵۶
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اسلامی بنکوں کو اسلامی مالیاتی طریقوں کو اس انداز میں نافذ کرنا ہے کہ کار کردگی، منافع اندوزی اور برابری کے مقاصد ساتھ ساتھ حاصل کیے جاسکیں۔
بنکوں کے حسابات کی جانچ پڑتال کے نظام کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی اور عملی اخراجات کا صحیح تخمینہ لگ سکے اور بنکوں میں ہونے والی کو تاہیوں اور خرابیوں پر نظر رکھی جا سکے۔ اسے اسلامی بنکوں جیسے کسی بھی ذمہ دار بنک کا ایک لازمی جزو ہونا چاہیے۔ بالفاظ دیگر اسلامی بنکوں میں معلومات کی بنیاد وسیع ہونا لازمی ہے، اس مقصد کے لیے کمپیوٹر جیسی جدید سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جائے جن کے ذریعے بہت تھوڑے وقت اور بہت کم اخراجات میں نہ صرف معلومات کو جمع کیا جا سکتا اور رکھا جا سکتا ہے بلکہ ان معلومات کو پھیلانا اور دوسروں تک پہنچانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ایسا کرنا ضروری ہے کیونکہ اسلامی بنک کے قیام کے ساتھ اطلاعاتی اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے، مثلاً امانتیں جمع کروانے والے لوگ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ وہ اپنی رقوم سے کہاں سرمایہ کاری کریں، مختلف بنکوں کی کارکردگی جانچنا چاہتے ہیں، اسی طرح بنک بھی سرمایہ کاری کے لیے دستیاب وسائل کو استعمال کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ اور بروقت معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
اسلامی بنکوں میں قرضوں کے نادہندگان کے ساتھ سختی سے نپٹا جائے کیونکہ یہ خیانت ہے جو اسلام کی نظر میں بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔ عمومی طور بنکوں کی رقوم کے سلسلے میں کسی قسم کے غین کو سماجی جرم
قرار دیا جائے۔ شراکتی ضروریات کے پیش نظر بنکوں کی امانتوں اور قرضوں پر منافع کے درمیان فرق کو ممکن حد تک کم رکھا جائے، البتہ اس ضمن میں بنک کے مناسب عملی اخراجات کی رعایت رکھی جائے جس کا تعین ذمہ دار آڈیٹرز کے ذریعے کیا جائے۔
روایتی بنکوں پر سبقت لے جانے کے لیے اسلامی بنکوں کو حقیقی منافع کی ادایگی کا اہتمام کرنا ہو گا جو که مناسب منافع کی صورت میں ہو اور اس کا تعین اس مدت کے مطابق کیا جائے جس کے لیے وہ رقوم جمع کروائی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افراط زر کے زمانے میں بنکوں کے قرضوں پر منافعوں کی شرحیں افراط زر کی شرح سے بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح اسلامی بنک افراط زر کے مطابق امانتوں پر منافع کو بڑھا سکتے ہیں۔ اسلامی بنکوں کو ایسے نئے طریقے دریافت اور اختیار کرنے چاہییں جن میں بچت کنندگان کے خطر (risk) کی مختلف ترجیحات موجود ہوں۔ بچت کرنے والے مختلف طبقات کے لیے ان کی خطر کا سامنا کرنے کی صلاحیت کے علی الرغم سب کو ایک ہی طرح کے خطر میں ڈالنا اخلاقی لحاظ سے بھی مناسب نہیں ہے۔ اسلامی بنکوں کو طویل المیعاد پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری سے معاشرتی اور سماجی منافع انفرادی منافعوں کے مقابلے
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
۵۸
اسلامی بنک کاری : اکیسویں صدی کا چیلنج
اسلامی بنک کاری کے اصول اور آلات صرف مسلمانوں سے متعلق نہیں ہیں۔ وہ سب کے لیے قابل عمل
ہیں۔
دنیا میں سرمایے کے بہاؤ میں سرمایے کا شراکتی سرمایہ کاری کی طرف منتقلی کا رجحان سامنے آیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی طرف کل نجی سرمایاتی بہاؤ (Net private capital flow) (جو کہ براہ راست سرمایه کاری مختلف portfolio پر سرمایہ کاری اور دوسرے طویل المیعاد اور قلیل المیعاد سرمایہ کاری پر مشتمل ہے ) جو ۷۷ ۱۹۷۳ میں اوسط ۱۰۱ بلین ڈالر تھا، ۸۲-۱۹۷۸ میں بڑھ کر ۲۷.۴ بلین ڈالر اور ۹۵-۱۹۸۹ میں ۷۸ بلین ڈالر ہو گیا۔ ۱۹۹۵ کے اصل اعداد و شمار کے مطابق یہ ۱۶۶.۵ بلین ڈالر تھا۔ اس سرمایہ کاری بہاؤ کے مقابلے میں قرض ۷۷-۱۹۷۳ میں 111 بلین ڈالر تھا۔ ۸۲-۱۹۷۸ کے دوران ۲۳.۴ بلین ڈالر تھا جو ۱۹۸۹۹۵ کے دوران اوسطا ” ۱۶.۴ بلین ڈالر رہ گیا۔ حالیہ سالوں میں ایشیائی ممالک کو دیے گئے فنڈز میں شراکتی سرمایہ ۲۷ فی صد بڑھا۔ (۴) اگر یہ تبدیلیاں مستقبل کے رجحانات کی نشاندہی کرتی ہیں تو یہ آنے والے عشروں میں شراکتی سرمایہ کاری کی وسعت کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ یہ اور اسی طرح کے دوسرے رجحانات اکیسویں صدی میں اسلامی اور روایتی بنکوں کے درمیان بڑے پیمانے پر تعاون اور باہمی صحت مندانہ مقابلے کو فروغ دیں گے۔ اپنے اختلافی حالات اور نظریات کے باوجود روایتی بنکوں اور اسلامی بنکوں کو ایک دوسرے کا حریف نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ دونوں مسلم اور مغربی دنیا میں روشن مستقبل کی تعمیر کے لیے ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن سکتے ہیں۔
حواشی
1- Erskine Childers, “Amnesia and Antagonism”, JUST, Malaysia, See Impact International, London. September 1996.
2- See James J. Lynch, Ethical Banking: Surviving in an Age of Default, Macmillan, London, 1991.
3- See R. Wilson, Banking and Finance in the Arab Middle East, Macmillan, London, 1983, N.A. Sherbiny, Oil and the Internationalization of Arab Banks, Oxford Institute of Energy Studies, 1985.
4- International Capital Markets: Developments, Prospects and Key Policy Issues by Takatoshi Itu and David Folkerts Landau, IMF, Washington, September 1996. Pp 5-6.
–
اصل مقاله دی ایسوسی ایشن آف مسلم سوش ساختست کی بین الا قوامی کانفرنس منعقدہ کراچی میں ۵ جنوری ۹۶ کو پیش کیا گیا۔ )
ماہنامہ ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
اخبار امت
سے محروم کرنے کے لیے کھلے اور چھے جو اوت اور سازشیں کی گئی ہیں، سب کے سامنے ہیں۔ اگر اربکان کو “فیر” (fair) موقع ملتا تو معلوم نہیں اس ایک سال میں ترکی کہاں سے کہاں پہنچ جاتا اور امت مسلمہ میں زندگی نو کی روح دوڑ جاتی۔ جیسا کچھ موقع ملا اس میں ریکارڈ کار کردگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ آج اربکان اور ان کے ساتھیوں پر کرپشن کے مفادات حاصل کرنے کے بنکوں سے قرضے لینے اور معاف کروانے اور ملکی معیشت تباہ کرنے کے الزامات نہیں ہیں جو مسلم دنیا کے سیکولر حکمرانوں کا طرہ امتیاز ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں کے مثبت نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔ اندرونی قرضوں میں جو یکم جولائی ۹۶ کو ۳۵ ملین ڈالر تھے، اگر ماضی کی رفتار سے اضافہ ہوتا تو دسمبر ۹۷ میں ۵۸ ملین ڈالر ہو جاتے لیکن دسمبر ۹۶ میں ۲۲ ملین تک آگئے اور دسمبر ۹۷ میں ۱۵ ملین تک آجائیں گے (یعنی ۴۳ ملین کی کمی۔ متعدد واضح اقدامات کر کے کرپشن کو بڑی حد تک قابو کر لیا گیا ہے۔ فضول اخراجات ختم کر کے ایک ہی سال میں ایک بلین ڈالر کی بچت کی گئی ہے۔ داخلی محاذ پر ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی 11 ماہ کی مختصر مدت میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ ہوا ہے۔ ڈی۔۸ کا حالیہ اجلاس امت کی تاریخ میں ایک موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ رفاہ کی کامیابیوں کی بنا پر کسی آئیندہ انتخابات میں بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بیرونی مبصر بھی یہی اندازے لگا رہے ہیں اور طریقہ انتخابات میں تبدیلی کی تجویز پیش کر رہے ہیں تاکہ آئندہ ۲۱ فی صد مسئلہ نہ بن سکے۔ سیکولر پارٹیوں کو متحد کرنے کی کوشش بھی جاری ہے تاکہ عدم اعتماد کے ووٹ میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ فوجی قیادت کسی متکلف کے بغیر ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔ یوں کش مکش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رفاہ پارٹی اور فوج کے درمیان محاذ آرائی کی فضا دراصل اسلام اور سیکولرازم کی کش مکش ہے جو سیاسی، سماجی اور معاشی دوائر میں کھل کر سامنے آگئی ہے۔ یہ بحث چل نکلی ہے کہ کمال ا: بحران کا شکار ہے اور سیکولر ریاست دم توڑ رہی ہے۔ کرپشن، قرضوں کی معیشت غیر موثر حکومت افراط زر‘ بے روزگاری کم تنخواہیں، لاقانونیت، جرائم اس کے تحفے ہیں۔ لہذا یہ محض اربکان اور فوج کی لڑائی نہیں ہے بلکہ سیکولرازم اپنی نئی تعمیر اور از سرنو اہداف کے تعین کے لیے کوشاں ہے۔ حزب اختلاف کے اخبار “حریت” کے مدیر Ertugrul Ozkok رقم طراز ہیں: “ترکی ۱۹۲۳ میں قائم ہونے والی جمہوریہ پر معترض ہو رہا ہے۔ ایک نئی جمہوریہ وجود میں آ رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ اس پر کھل کر بات کی جائے”۔
جبکہ دوسری طرف اسلام اپنے سیاسی رول پر مصر ہے۔
یہ بحث و مباحثہ ، پارلیمنٹ سے نکل کر سڑکوں پر میڈیا میں اور چائے خانوں میں پہنچ گیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بھی ان بحثوں کو مناسب جگہ دے رہا ہے۔ ان موضوعات پر مذاکرے ہو رہے ہیں، سنجیدہ گفتگو کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ صدر سلیمان ڈیمرل، جن کی حکومت کو دوبار فوج نے گرایا ملک کے دانشور اور جہاندیدہ
ماهنامه ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۷
اخبار امت
انسانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، کہتے ہیں: سسٹم کی تبدیلی کی بحث نہ کی جائے اس کی صلاح پر زور دیا جائے ورنہ بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی”۔ ان کے بیان میں جہاں سسٹم کو بچانے کی خواہش کارفرما ہے، وہیں اس
کشمکش میں کود پڑنے والوں کو قربانیاں دینے کے لیے تیار رہنے کی ”خوشخبری“ بھی ہے۔
جنرل Cevic Bir‘ ڈپٹی چیف آف سٹاف ہیں۔ انھوں نے رفاہ کی قیادت کو خبردار کیا کہ : ترک فوج ریاست کے جمہوری مزاج کی محافظ ہے۔ ہماری جمہوریت، سیکولر ازم اور فرد کی آزادی اور حقوق سے عبارت ہے، ہر شہری کا فرض ہے کہ ان اصولوں کی پاسداری کرے۔ وزیر اعظم اربکان نے فوراً ہی اس کا نوٹس لیا اور اتاترک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ”ہمارے دستور کے تحت عوام غیر مشروط طور پر اختیارات کا سرچشمہ ہیں، کوئی ان پر زبردستی دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ جو جمہوریت پر یقین رکھتا ہے’ اسے قوم کے فیصلوں کا احترام کرنا ہو گا۔ انتخاب ہو چکے ہیں اور قوم نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے”۔ اس کشمکش کے نتیجے میں یہ بات عام ہو گئی ہے کہ سیکولر ازم ، عوام دشمن ہے ان کے جذبات اور آرا کا احترام نہیں کرتا جمہوریت کش ہے، اپنی رائے پر بضد رہتا ہے اور اسلام دشمن بھی ہے، اسے خاطر ہی میں
نہیں لاتا۔
فوج کو اب تک جو پاپڑ بیلنے پڑے ہیں اور احکامات دینے کے باوجود ان کی تعمیل کا انتظار کرنا پڑا ہے اس کا سبب یہ خوف ہے کہ اگر فوج خود اقتدار میں آتی ہے اور سیاسی بساط لپٹ جاتی ہے تو رفاہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عوامی تائید کے پیش نظر خدشہ ہے کہ ترکی تشدد اور لاقانونیت کی طرف چل نکلے، معیشت زمین بوس ہو جائے اور معاشرہ کے تار و پود بکھر جائیں۔ الجزائر کا منظر نامہ سب کے سامنے ہے۔ خود ترکی کی تاریخ میں جب ستر کی دہائی میں رائٹ لیفٹ کی کشمکش ہوئی تھی تو روزانہ ۲۵/۲۰ افراد اوسطا مارے جاتے تھے۔ بارہ سالہ کردوں کی بغاوت میں بھی اب تک ۲۰ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ دانشور اور اہل قلم نرم انقلاب کے ذریعے تبدیلی کی نوید سنا رہے ہیں لیکن ہر کوئی خوفزدہ ہے کہ یہ عمل پر امن طور پر جاری رہ سکے گا یا نہیں۔ ترکی کی اسلامی پارٹی نے جمہوری اور انتخابی طریقے سے تبدیلی کا راستہ دکھایا ہے لیکن “سیکولرازم” بہت ہی تھڑ ولا اور کم ظرف واقع ہوا ہے، اس میں نہ وسعت ہے اور نہ حوصلہ اس کے پاس نہ استدلال کی قوت ہے اور نہ عوامی تائید۔ پچھلی تمام صدیوں میں دنیا بھر میں سیکولرازم ہی کا سکہ رواں رہا ہے۔ سرمایہ داری کے نام پر سوشلزم کے نام پر نیشنلزم کے عنوان سے یا کمیونزم کے نعروں پر۔ وقت نے اس سکے کو کھوٹا ثابت کر دکھایا ہے۔ انسانیت کے سارے دکھ اس کے تحفے ہیں، دنیا کو سارے چر کے اس نے لگائے ہیں۔ ترکی میں سیکولر ازم کے خلاف یہ لڑائی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہی ہے۔