اسلامی بنکاری از پروفیسر اوصاف احمد

705
47451
اسلامی بینکاری
نظریاتی بنیادیں اور عملی تجربات
3056500200
پروفیسر اوصاف احمد
تاریخ اشاعت
زیر اہتمام
ٹیکس
:
:
تالیا
اکتوبر ۱۹۹۲ء
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز بلاک نمبر ۱۹ مرکز ایف سیون اسلام آباد
۸۱۸۲۳۰ – ۸۱۴۷۱۱
:
۰۵۱-۸۲۶۷۹۳
:
۵۷۷۱ IPS PK
:
آئی ایس بی این
طالع
:
:
bb – لدلد ٧-٠اله – لد
کرسٹل پرنٹرز اسلام آباد
فون : ۸۲۶۷۹۲
قیمت: پاکستان ۳۵-۰۰ روپے
بیرون ملک یا پوت آن بیانی
:
۲-۵۰ ڈالر
2 جون کیا
پیش لفظ
پاکستانی قوم آج ایک نئی آرائش سے دو چار ہے: فیڈرل شریعت کورٹ نے ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ ء ایک تاریخی فیصلہ کے ذریعہ اس بات کو دو ٹوک الفاظ میں عدالتی حکم کی زبان میں ادا کر دیا کہ سود اپنی ہر شکل میں حرام ہے اور ملک کی معیشت کو اس لعنت سے جلد از جلد پاک کیا جائے۔ یہ فیصلہ یکم جولائی ۱۹۹۲ء سے نافذ العمل تھا مگر حکومت نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کر دی ہے جس سے فیصلہ کا فوری اطلاق رک گیا ہے۔ حکومت کا موقف بڑے گنجلک انداز میں پیش کیا جا رہا ہے ایک طرف ذمہ دار حضرات کہتے ہیں کہ ہم شریعت کی بالادستی چاہتے ہیں لیکن سود کا متبادل نظر نہیں آ رہا اور متبادل کی عدم موجودگی میں معیشت تباہ ہو جائے گی اور دوسری طرف اس کے کچھ نمائندے یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بنگ کا سود تو سود ہے ہی نہیں۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ بنک کا سود حرام ہے یا نہیں تو اس سلسلہ میں امت مسلمہ کے چوٹی کے علماء اور منکرین نے محکم دلائل کے ساتھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ بنگ کا سود بھی اسی طرح ربا کی ایک شکل ہے جس طرح سا ہو کار کا سودی قرض۔ اس بارے میں شریعت اور علم الاقتصاد دونوں کے ماہرین کے درمیان مکمل اتفاق رائے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں ۱۹۶۲ء میں نظریاتی کونسل کی تشکیل ہوئی تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہر کونسل نے متفقہ طور پر سود کو حرام اور بنک کے سود کو رہا کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ یہی فیصلہ فیڈرل شریعت کورٹ کا ہے اور یہی فتویٰ تمام مسلمان ممالک کے اعلیٰ ترین شرعی ادارے مجمع الفقہی کا ہے، جو اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) کا ایک دستوری ادارہ ہے اور جس میں تمام مسلمان ممالک کے علماء اور فقہاء شرکت کرتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہی موقف حکومت پاکستان کا سرکاری
موقف بھی رہا ہے جس کا ثبوت اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا ۲۰ جون ۱۹۸۴ء کا 13.BCD Circular No ہے جس کے ذریعہ بنگنگ کے نظام سے “ربا” کے مجوزہ اخراج کا اعلان کیا گیا ہے۔ اگر بنگ کا سود ربا نہیں تھا تو پھر متبادل مالیاتی ذرائع کے اعلان کے کیا معنی ہیں ؟ حکومت کی طرف سے اس وقت اس طے شدہ مسئلہ کو دوبارہ موضوع بحث بنانا محض وقت صنائع کرنے ہی کا ذریعہ نہیں بلکہ شریعت کے کھلے کھلے احکام اور امت کے فکری ورثہ کا مذاق اڑانے
کے مترادف ہے۔ رہا دوسرا سوال کہ سود کا متبادل کیا ہے، تو یہ بھی آج محض ایک نظری مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ اب تو اس سمت میں بڑے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں کہ ں گزشتہ پچاس سال میں پانچ سو سے زیادہ تحقیقی کتب اور مقالے اس موضوع پر لکھے جاچکے ہیں اور گزشتہ تیس سال میں دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف سطحوں پر بلا سود بنکاری کے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔ آج مسلم ممالک ہی میں نہیں مغربی ممالک میں بھی بلا سود بنگ کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔ بلا شبہ یہ تجربہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لیکن یہ بات پورے وثوق سے کھی جا سکتی ہے کہ آج نظریاتی طور پر بلا سود بنکاری کا مکمل نقشہ (Blue Print) موجود ہے اور اس نقشہ کی روشنی میں مختلف ممالک میں بنگ اور مالیاتی ادارے عملا کام کر رہے ہیں، جن کے نقوش پا نواردوں کے لیے سنگ میل کا کام
کر سکتے ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر اوصاف احمد نے، جو اسلامی ترقیاتی بنک کے اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ فیلو تھے، اسلامی بنکاری کے عملی تجربات کا بڑا مربوط جائزہ اسلامی ترقیاتی بنک کے لیے تیار کیا تھا، جو انگریزی زبان میں شائع بھی ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر اوصاف احمد نے حال ہی میں اس قیمتی تحقیق پر مبنی ایک مبسوط مقالہ اردو میں لکھا ہے جو علی گڑھ کے علمی مجلہ تحقیقات اسلامی میں چار قسطوں میں شائع ہوا ہے۔ یہ ایک قیمتی دستاویز ہے جس میں اردو دان طبقے کے سامنے غالباً پہلی بار اسلامی بنکاری کے ۲۵ سالہ تجربات کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اس مطالعہ کو مصنف اور تحقیقات اسلامی کے شکریہ کے ساتھ پاکستانی قارئین کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سال کے شروع میں (۱۱ – ۱۳ اپریل ۱۹۹۲ ) معیشت کو سود سے پاک کرنے کے موضوع پر ایک سیمینار بھی منعقد کر چکا ہے جس کی روداد اس وقت اشاعت کے لیے تیار کی جارہی ہے۔ تاہم بنکاروں اور کھانہ داروں کے بڑھتے ہوئے تقاضے کے پیش نظر ہم اسلامی بنکاری کی نظریاتی بنیادوں اور عملی