اس نے قانونی اقدام کے تصور پر بڑے دور رس اثرات مرتب کیے۔ اور پھر سینکی معاہدات نے ثقافت، ابلاغ اور انسانی حقوق کو بھی بین الاقوامی تعلقات کے قیام میں اہم مقام دے دیا ہے۔ اس لیے حالیہ تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے خارجہ پالیسی اور ریاستوں کے مابین تعلقات کے اس وسعت پذیر تصور کے تدریجی لیکن یقینی اثرات کا مکمل اور اک ضروری ہے۔ اب ثقافتی روابط اور نظریاتی پہلو خارجہ پالیسی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں انقلابی تبدیلیاں اور خصوصاً ان کا وہ کردار جو وہ آج بین الاقوامی تعلقات کی تعمیر و تشکیل میں ادا کر رہے ہیں سنجیدگی سے قابل غور ہے۔ اس سلسلہ میں ذرائع ابلاغ نے جو کردار فاک لینڈ اور خلیج کی جنگ میں اور اس کے علاوہ بھی ریاستوں کے مابین تعلقات میں ادا کیا ہے، سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ایران کا یر غمالی بحران (hostage crisis) اور ایران کے بارے میں دنیا کے رویہ کو متاثر کرنے میں اس کا کردار، اب خارجہ پالیسی پر گفتگو کا نہایت اہم حصہ ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کی اہمیت بھی مسلم ہے اور پالیسی ساز اس میدان کی تازہ ترین ترقیات سے اپنے کو غیر متعلق نہیں رکھ سکتا۔ خلیج کی جنگ میں خارجہ پالیسی کے ایک عامل کے طور پر اس کا استعمال ایک نئی بات ہے۔ یہ تمام پہلو بڑے اہم ہیں اور ہم ان سب کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ 90ء کے عشرے کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہمہ جہت اور جامع لقطہ نظر اپنا نا ہوگا۔ دوسری طرف وہ منظر نامہ بھی برابر کی اہمیت رکھتا ہے جس کے حوالے سے خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے۔ در حقیقت خارجہ پالیسی کا جائزہ ایک مسلسل اور باقاعدہ عمل ہونا چاہیے۔ آج ہم تاریخ کے ایک انتہائی اہم دور سے گزر رہے ہیں جس میں خارجہ پالیسی کے از سر نو جائزہ کی ضرورت
ہے۔
خارجہ پالیسی کو صرف دفتر خارجہ کے حوالے کر دینا خوشگوار بات نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دفتر خارجہ میں کام کرنے والے افراد کے پاس اعلیٰ خصوصی مہارت اور وسیع تجربات ہوتے ہیں جن کی بناء پر وہ قوم کی خارجہ پالیسی تشکیل دینے اور اس پر عمل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن ملک میں ایسے تحقیقی ادارے، جامعات اور اہل فکر و نظر بھی ہیں جو طویل المدت حکمت عملی کے لیے سوچنے میں اور بنیادی راہنما خطوط متعین کرنے میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں۔ خود دفتر خارجہ میں جس چیز پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے وہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق خارجہ پالیسی پر غور و فکر اور اس کا عمیق تجزیہ ہے۔ اس طرح سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کا کردار بھی پاکستان، بھارت اور عالم اسلام
پاکستان بھارت اور عالم اسلام Foreword
₨ 0
اس نے قانونی اقدام کے تصور پر بڑے دور رس اثرات مرتب کیے۔ اور پھر سینکی معاہدات نے ثقافت، ابلاغ اور انسانی حقوق کو بھی بین الاقوامی تعلقات کے قیام میں اہم مقام دے دیا ہے۔ اس لیے حالیہ تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے خارجہ پالیسی اور ریاستوں کے مابین تعلقات کے اس وسعت پذیر تصور کے تدریجی لیکن یقینی اثرات کا مکمل اور اک ضروری ہے۔ اب ثقافتی روابط اور نظریاتی پہلو خارجہ پالیسی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں انقلابی تبدیلیاں اور خصوصاً ان کا وہ کردار جو وہ آج بین الاقوامی تعلقات کی تعمیر و تشکیل میں ادا کر رہے ہیں سنجیدگی سے قابل غور ہے۔ اس سلسلہ میں ذرائع ابلاغ نے جو کردار فاک لینڈ اور خلیج کی جنگ میں اور اس کے علاوہ بھی ریاستوں کے مابین تعلقات میں ادا کیا ہے، سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ایران کا یر غمالی بحران (hostage crisis) اور ایران کے بارے میں دنیا کے رویہ کو متاثر کرنے میں اس کا کردار، اب خارجہ پالیسی پر گفتگو کا نہایت اہم حصہ ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کی اہمیت بھی مسلم ہے اور پالیسی ساز اس میدان کی تازہ ترین ترقیات سے اپنے کو غیر متعلق نہیں رکھ سکتا۔ خلیج کی جنگ میں خارجہ پالیسی کے ایک عامل کے طور پر اس کا استعمال ایک نئی بات ہے۔ یہ تمام پہلو بڑے اہم ہیں اور ہم ان سب کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ 90ء کے عشرے کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہمہ جہت اور جامع لقطہ نظر اپنا نا ہوگا۔ دوسری طرف وہ منظر نامہ بھی برابر کی اہمیت رکھتا ہے جس کے حوالے سے خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے۔ در حقیقت خارجہ پالیسی کا جائزہ ایک مسلسل اور باقاعدہ عمل ہونا چاہیے۔ آج ہم تاریخ کے ایک انتہائی اہم دور سے گزر رہے ہیں جس میں خارجہ پالیسی کے از سر نو جائزہ کی ضرورت
ہے۔
خارجہ پالیسی کو صرف دفتر خارجہ کے حوالے کر دینا خوشگوار بات نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دفتر خارجہ میں کام کرنے والے افراد کے پاس اعلیٰ خصوصی مہارت اور وسیع تجربات ہوتے ہیں جن کی بناء پر وہ قوم کی خارجہ پالیسی تشکیل دینے اور اس پر عمل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن ملک میں ایسے تحقیقی ادارے، جامعات اور اہل فکر و نظر بھی ہیں جو طویل المدت حکمت عملی کے لیے سوچنے میں اور بنیادی راہنما خطوط متعین کرنے میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں۔ خود دفتر خارجہ میں جس چیز پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے وہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق خارجہ پالیسی پر غور و فکر اور اس کا عمیق تجزیہ ہے۔ اس طرح سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کا کردار بھی پاکستان، بھارت اور عالم اسلام
Reviews
There are no reviews yet.