پاکستان خوف، دباوُ ، بیرونی مداخلت اور بلیک میلنگ کی زد میں

 0

کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی یہ مشترک رپورٹ سامنے نہ آتی کہ مزاحمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوجی قوت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو عوامی قوت کے سامنے نہیں ٹھیر سکتی۔ اور خدا بھلا کرے حزب اللہ کا کہ ان کے پاس کوئی ایسا جرنیل نہیں تھا جو وار گیمز کی مشق کر کے بتادیتا کہ دس بارہ ہزار مجاہدین کا اسرائیل کی پوری فوجی حکومت سے مقابلہ حماقت ہے اور اس طرح اسرائیل ۳۴ دن کی خوں ریزی کے بعد سیز فائر اور فوجوں کی واپسی کی زحمت سے بچ جاتا۔ باقی سب کو بھول جائیے ۱۹۷۹ء کے اس دن کو یاد کر لیجیے جب روس کی سوپر پاور نے افغانستان پر کھلی فوج کشی کی تھی اور روسی سفیر نے جنرل ضیاء الحق سے اس پاکستانی فوج کے ایک اور سربراہ سے کہا تھا کہ اگر روس کو چیلنج کیا تو تمھاری خیر نہیں اور امریکا جیسی سوپر پاور نے بھی بس اننا کیا تھا کہ ماسکو میں ہونے والے اولمپک میں اپنے کھلاڑی بھیجے سے انکار کر دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دفتر خارجہ نے بھی شاید کسی وار گیمز کی مشق کر کے کہا تھا کہ اپنی انگلیاں نہ جلاؤ لیکن ضیاء الحق نے مقابلے کی قوت کی فکر کیے بغیر ایک تاریخی فیصلہ کیا اور پھر خود امریکا کے صدر کے ایک نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرز بگینو برزنسکی نے افغان جہاد کی متوقع کا میابی کو بھانپ کر ۱۹۸۶ء ہی میں لندن ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا
افغانستان میں روس کی سیاسی اور عسکری شکست کے واحد معمار جنرل ضیاء الحق تھے۔ (لندن ٹائمز
۱۸ اپریل ۱۹۸۶ء حوالہ روزنامہ نواے وقت کم اکتوبر ۲۰۰۶ء)
تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر اس کے لیے قیادت میں ایمان عزم، بصیرت اور شجاعت کے ساتھ اللہ اور اپنے عوام کی تائید ضروری ہے۔ جہاں فیصلے خوف اور دباؤ کے تحت ہوتے ہوں وہاں آزادی اور مزاحمت کی جگہ محکومی اور پسپائی لے لیتے ہیں۔ قرآن کا اپنا اسلوب ہدایت ہے۔ سورۃ بقرہ میں خوف کو بھی جہاد اور شہادت کے پس منظر میں آزمایش کی ایک صورت قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اللہ سے تعلق اور اس کی طرف واپسی کی حقیقت کی تلقین کے ساتھ جہاد شہادت اور صبر و صلوٰۃ کا راستہ بتایا گیا ہے۔ (البقرہ ۱۵۳:۲-۱۵۶)
امریکا کی تابعداری کب تک؟
اگر به فرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ۲۰۰۱ء میں کوئی اور چارہ کار نہیں تھا، پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ۲۰۰۶ء میں کیا مجبوری ہے کہ ہم صدر بش کا اسی طرح دم چھلا بنے ہوئے ہیں حالانکہ زمینی حقائق یکسر بدل چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا پھنس گیا ہے اور سارے عسکری کروفر کے باوجود نہ افغانستان کو اپنے زیر حکم لا سکا ہے اور نہ اسامہ بن لادن اور ملاعمر کو گرفتار کر سکتا ہے۔ طالبان ایک ملک گیر قوت کی حیثیت سے اُبھر رہے

SKU: 6849817303b2c8619f33cb8a Categories: , ,

کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی یہ مشترک رپورٹ سامنے نہ آتی کہ مزاحمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوجی قوت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو عوامی قوت کے سامنے نہیں ٹھیر سکتی۔ اور خدا بھلا کرے حزب اللہ کا کہ ان کے پاس کوئی ایسا جرنیل نہیں تھا جو وار گیمز کی مشق کر کے بتادیتا کہ دس بارہ ہزار مجاہدین کا اسرائیل کی پوری فوجی حکومت سے مقابلہ حماقت ہے اور اس طرح اسرائیل ۳۴ دن کی خوں ریزی کے بعد سیز فائر اور فوجوں کی واپسی کی زحمت سے بچ جاتا۔ باقی سب کو بھول جائیے ۱۹۷۹ء کے اس دن کو یاد کر لیجیے جب روس کی سوپر پاور نے افغانستان پر کھلی فوج کشی کی تھی اور روسی سفیر نے جنرل ضیاء الحق سے اس پاکستانی فوج کے ایک اور سربراہ سے کہا تھا کہ اگر روس کو چیلنج کیا تو تمھاری خیر نہیں اور امریکا جیسی سوپر پاور نے بھی بس اننا کیا تھا کہ ماسکو میں ہونے والے اولمپک میں اپنے کھلاڑی بھیجے سے انکار کر دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دفتر خارجہ نے بھی شاید کسی وار گیمز کی مشق کر کے کہا تھا کہ اپنی انگلیاں نہ جلاؤ لیکن ضیاء الحق نے مقابلے کی قوت کی فکر کیے بغیر ایک تاریخی فیصلہ کیا اور پھر خود امریکا کے صدر کے ایک نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرز بگینو برزنسکی نے افغان جہاد کی متوقع کا میابی کو بھانپ کر ۱۹۸۶ء ہی میں لندن ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا
افغانستان میں روس کی سیاسی اور عسکری شکست کے واحد معمار جنرل ضیاء الحق تھے۔ (لندن ٹائمز
۱۸ اپریل ۱۹۸۶ء حوالہ روزنامہ نواے وقت کم اکتوبر ۲۰۰۶ء)
تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر اس کے لیے قیادت میں ایمان عزم، بصیرت اور شجاعت کے ساتھ اللہ اور اپنے عوام کی تائید ضروری ہے۔ جہاں فیصلے خوف اور دباؤ کے تحت ہوتے ہوں وہاں آزادی اور مزاحمت کی جگہ محکومی اور پسپائی لے لیتے ہیں۔ قرآن کا اپنا اسلوب ہدایت ہے۔ سورۃ بقرہ میں خوف کو بھی جہاد اور شہادت کے پس منظر میں آزمایش کی ایک صورت قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اللہ سے تعلق اور اس کی طرف واپسی کی حقیقت کی تلقین کے ساتھ جہاد شہادت اور صبر و صلوٰۃ کا راستہ بتایا گیا ہے۔ (البقرہ ۱۵۳:۲-۱۵۶)
امریکا کی تابعداری کب تک؟
اگر به فرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ۲۰۰۱ء میں کوئی اور چارہ کار نہیں تھا، پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ۲۰۰۶ء میں کیا مجبوری ہے کہ ہم صدر بش کا اسی طرح دم چھلا بنے ہوئے ہیں حالانکہ زمینی حقائق یکسر بدل چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا پھنس گیا ہے اور سارے عسکری کروفر کے باوجود نہ افغانستان کو اپنے زیر حکم لا سکا ہے اور نہ اسامہ بن لادن اور ملاعمر کو گرفتار کر سکتا ہے۔ طالبان ایک ملک گیر قوت کی حیثیت سے اُبھر رہے

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “پاکستان خوف، دباوُ ، بیرونی مداخلت اور بلیک میلنگ کی زد میں”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »