EconomicsIslamic Economics

سود سے نجات، راستے کی اصل رکاوٹ

بسم الله الرحمن الرحیم اشارات

سود سے نجات ،راستے کی اصل رکاوٹ؟

پروفیسر خورشید احمد

مسلمان معاشرہ اور سودی نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور یہ دونوں بیک وقت چل نہیں سکتے ۔ ایک کا وجود دوسرے کی نفی ہے، ایک کا غلبہ دوسرے کے لیے موت کا پیغام ہے ۔ ان دونوں کے درمیان کوئی سمجھو ی ممکن نہیں۔ جن افراد اور جن معاشروں پر سودی نظام کا غلبہ ہو وہ حقیقی خوش حالی

سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ وہ معاشرے ھل من مزید کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور انسان انسان کا غم خوار اور دم ساز ہونے کے بجائے ایک دوسرے کا خون چوسنے اور حق مارنے میں مشغول رہتا ہے، جب کہ قرآن ایسے افراد اور معاشرے کی مثال اس شخص سے دیتا ہے جسے شیطان نے چھوکر مخبوط الحواس کر دیا ہو: كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَنُ مِنَ الْمَسِ (البقره ۲: ۲۷۵)، اور جن کے خلاف خود اللہ نے اپنے اور اپنے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا ہو: فأذنوا بحزب بين الله ورسوله، (البقره ۲: ۲۷۹)، وہ فرد اور معاشرہ کیسے چین کی زندگی گزار سکتا ہے جو مسلسل اللہ اور اس کے رسول سے برسرِ جنگ ہو؟

سود کی قباحت اور ہولنا کی کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول نے جوانداز بیان اختیار

فرمایا ہے، اس کے بعد کسی صاحب ایمان کے لیے یہ گنجایش نہیں رہتی کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی

اس قاتل ایمان و ضمیر واخوت کو گوارا کر سکے:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی سود کا ایک درہم کھاتا ہے وہ چھتیں

مرتبہ بدکاری کرنے سے زیادہ سخت گناہ کماتا ہے اور بعض روایات میں ہے کہ جو گوشت مال حرام سے بنا ہو اس کے لیے آگ ہی زیادہ مستحق ہے(مسند احمد، طبرانی)۔

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

اشارات

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اس نے

اللہ تعالیٰ کے عذاب کو اپنے اوپر دعوت دی (مستدرک حاکم)۔

اور یہ کہ جب کسی قوم کے باہمی لین دین میں سود کا رواج ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کر دیتا ہے، اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہو جائے تو ان پر دشمنوں کا رعب و غلبہ حاوی ہو جاتا ہے (مسند احمد)۔

اگر آج ہم بصیرت کی نظر خود اپنے اردگرد ڈالیں اور اپنے ملک کی حالت کو دیکھیں تو مخبر صادق کی پیش گوئی ہمیں سو فی صد درست نظر آتی ہے اور اہل ایمان کو تو بہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دیتی ہے کہ صرف یہی نجات کی راہ ہے۔

انسدادِ سود کی کوششوں کا جائزہ

سود کے بارے میں پاکستانی قوم کے جذبات اور اس کی قیادتوں کے رویے میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی۔ قائد اعظم نے پاکستان کے اسٹیٹ بنک کے افتتاح (جولائی ۱۹۴۸ء) کے موقع پر جو تقریر کی تھی، اس میں سود سے پاک مالیاتی نظام کو قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک ہر ایک میں سودی نظام سے نجات کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسلامی مشاورتی کونسل ۶۵ – ۱۹۶۲ ء اور ۱۹۶۹ء نے بار بار اس امر کا اظہار کیا کہ سود کو اس کی ہر شکل میں ختم کیا جائے اور متبادل نظام قائم کیا جائے لیکن برسر اقتدار طبقوں نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے ۲۹ ستمبر ۱۹۷۷ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کو سود سے پاک نظام مرتب کرنے کا کام سونپا اور کونسل نے ۱۵ ماہرین معاشیات و بنکاری کے تعاون سے نومبر ۱۹۷۸ء میں اپنی عبوری رپورٹ اور جون ۱۹۸۰ء میں مکمل رپورٹ پیش کی۔ انھی رپورٹوں کی روشنی میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ۱۰ فروری ۱۹۷۹ء (۱۲ ربیع الاول ) کو تین مالیاتی اداروں کو سود سے پاک کرنے کا پہلا عملی اقدام کیا جس پر یکم جولائی ۱۹۷۹ء کو عمل ہوا۔ ۱۹۸۰ء سے دوسری اصلاحات کا آغاز کیا گیا جو شتم پشتم ۱۹۸۴ء تک جاری رہیں۔ اس زمانے میں سودی نظام کے علم بردار ( ملکی اور غیر ملکی دونوں) اور دوسرے مفاد پرست عناصر ان اصلاحات کا حلیہ بگاڑنے اور گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

2

اشارات

اور بالآخر ۱۹۸۵ ء سے عملاً ان تمام اقدامات کو غیر مؤثر کر دیا گیا جن کا آغاز ۱۹۷۹ء سے ہوا تھا۔ اس جوابی تحریک کو ۱۹۹۰ ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے برسر اقتدار آنے پر چیلنج کیا گیا اور شریعت کی بالا دستی کے مطالبے نے زور پکڑا ۔ تب وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے خود انحصاری کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی اور اس نے راقم کی سربراہی میں کام کیا تھا۔ اس نے اپریل ۱۹۹۱ء میں ایک رپورٹ پیش کی اور ملکی معیشت اور بین الاقوامی معاشی تعلقات کو سود سے پاک کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی اور نقشہ عمل پیش کیا۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے دس سال کی بے اختیاری کے بعد اختیارات بحال ہونے پر دسمبر ۱۹۹۱ء میں ایک تاریخی فیصلہ دیا جس کے تحت سود پر مبنی ۲۰ قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا اور حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی کہ متبادل قانون سازی کرے، لیکن حکومت نے اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور دوسری طرف خود انحصاری رپورٹ کو طاق نسیاں کی نذر کر دیا۔ ہمارے ہاں یہ عجیب منطق ہے کہ پالیسی سازی اور متبادل راستوں کے لیے حکومت اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سارے ضابطوں کو معطل کر کے چند گھنٹے میں لائحہ عمل تجویز کر لیتی ہے۔ لیکن سود سے نجات ہی ایک ایسا معاملہ ہے جس میں حکومت یہ بہانے تراشتی ہے کہ

کی کہ وہ بنا بنایا اس کی اصل ذمہ داری حکومت کی نہیں بلکہ قوم کی ہے کہ وہ حکومت کو بنا بنا یا کوئی متبادل نظام لاکر دے تا کہ وہ حرکت کے لائق ہو سکے!

دراصل بیماری کی اصل جڑ ہی یہ ہے کہ حکومت اور اختیار رکھنے والے سارے ادارے اس اہم معاملے پر اپنی ذمہ داری کو نہ صرف یہ کہ محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ بڑی چابک دستی سے ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح ملک کو در پیش تمام مسائل اور چیلنجوں کے بارے میں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ان کے حل کے لیے پالیسیاں بنائیں، وسائل حاصل کریں اور ضروری عملی اقدامات کریں، اسی طرح سود کے مسئلے کے بارے میں بھی اصل ذمہ داری ارباب اقتدار ہی کی ہے اور اس بارے میں کسی راہ فرار کی گنجایش نہیں۔

ہمیں عدالت کے اس فیصلے پر سخت حیرت ہوئی، جس میں ۲۸ ۱۷ پریل ۲۰۲۲ء کو یہ قرار

دیا گیا کہ پانچ سال کی مدت میں سود کے خاتمے پر مبنی معیشت کھڑی کی جائے ، یعنی فاضل حج یہ

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

Δ

اشارات

تصور کرتے ہیں کہ یہ کام اس طرح کرنے جا رہے ہیں جیسے کسی نئے کام کا آغاز کیا جارہا ہو اور سادہ کاغذ پر کسی نئی تحریر کا مرحلہ درپیش ہو ۔ بلاشبہ یہ کام بہت اہم ہے اور ہمہ پہلو بھی لیکن یہ تاثر کہ کوئی متبادل موجود نہیں ہے اور اسلامی نظام معیشت کے قیام کا مطالبہ کسی خلا میں کیا جا رہا ہے محض کم علمی ہے، یا صریح دھوکا دہی۔ آج بلا سود متبادل محض کوئی خیالی سے نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۷۰ برسوں میں اس سلسلے میں اتنا کام ہوا ہے کہ اگر کوئی مخلص اور اہل قیادت نئے نظام کے قیام کا عزم اور ارادہ رکھتی ہو تو ایک دن کی تاخیر کیے بغیر مؤثر اقدام کا آغاز ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ نیا نظام قائم کرنے میں وقت لگے گا اور تبدیلی کا عمل تدریج اور مناسب حکمت عملی ہی سے انجام دیا جائے گا مگر آج اصل رکاوٹ فکری کام کی کمی یا متبادل نقشہ کار کی عدم موجودگی نہیں، قیادت میں ایمان اور سیاسی عزم وارادے کی کمی ہے۔ ہم یہ بات کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہہ رہے (اللہ تعالیٰ ہمیں ہر تعصب اور جانب داری سے محفوظ رکھے)۔

را قم پچھلے ۶۰ برسوں سے ذاتی طور پر ان کوششوں سے وابستہ رہا ہے جو اس سلسلے میں ہوئی ہیں اور اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بنا پر یہ بات کہہ رہا ہوں، کہ اصل رکاوٹ کسی متبادل ماڈل کی کمی نہیں ہے۔ راستہ صاف ہے اور اب تو دوسروں کے عملی نقوش بھی موجود ہیں۔ اصل ضرورت منزل کے شعور اور چلنے کے ارادے اور ہمت کی ہے اور ہماری قیادتوں کا اصل مرض بھی یہی ہے کہ نہ فکر ونظر کے اسلامی اسلوب کو انھوں نے شعوری طور پر اپنایا ہے اور نہ ان میں وہ جرات اور عزم ہے جس کی بنا پر انسان دُنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر اپنے اصل اہداف کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہو جاتا ہے۔ ایک طرف ذہنوں پر مغرب کے افکار کا غلبہ ہے تو دوسری طرف مفاد پرست عناصر اور عالمی ساہوکاری نظام کے کار پردازوں کا گھیراؤ ہے جو ذہنوں کو مسموم کرنے اور کمزور ارادہ لوگوں کے قدموں کو متزلزل کرنے میں مصروف ہے اور ہمارے ارباب اقتدار کا حال یہ ہے:

ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے ضرورت اس امر کی ہے کہ دماغ میں جو بت خانے آباد ہیں ان کو توڑا جائے اور دل و نگاہ کی مسلمانی کا راستہ اختیار کیا جائے۔

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

۹

اشارات

سود: ایک مغالطه

ایک مغالطہ جو مختلف انداز میں بار بار دیا جاتا ہے وہ سود کے تصور کے بارے میں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے سامنے بھی سرکاری وکیلوں نے اس مسئلے کو اٹھایا اور سپریم کورٹ میں جو اپیل دائر کی اس میں بھی اس بات کو شامل کیا گیا، یعنی یہ کہ کیا بنک کا سود ربا کی تعریف میں آتا ہے؟ ہم اس بات کو بالکل دوٹوک انداز میں واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں عرب دنیاء بر عظیم اور جنوب مشرقی ایشیا میں دور غلامی میں جو بخشیں اُٹھائی گئی تھیں آج وہ قصہ پارینہ ہیں۔ الحمد للہ گذشتہ ۷۰ برسوں میں اس موضوع پر ایسی سیر حاصل بحث ہوئی ہے کہ براہین قاطع کی بنیاد پر یہ بحث ایک اجتماع پر منتج ہو چکی ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرض کے مالی معاملات پر اصل سرمائے پر جو بھی متعین اضافہ پہلے سے طے ہو اور شرط معاہدے کا حصہ ہو وہ سود ہے، خواہ یہ قرض صرفی ضروریات کے لیے ہو، یا پیداواری مقصد کے لیے، فرد لے رہا ہو یا ادارہ، منجھی ہو یا سرکاری، مہاجن ہو یا بنک اور انشورنس کمپنیوں کے ذریعے ۔ اس پر پاکستان میں بھی اور عالم اسلام میں بھی مکمل اتفاق رائے ہے اور علما اور ماہرین معاشیات دونوں اس پر متفق ہیں۔ اس لیے اس بحث کو از سرنو شروع کر نا علم اور خلوص پر مبنی نہیں بلکہ مسئلے کو اُلجھانے ، تعویق میں ڈالنے یا دھوکا دینے کے مترادف ہے اور انسان اپنے آپ کو تو دھوکا دے سکتا ہے لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتا: يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوْا، وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴾ (البقرہ ۹:۲) وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھو کے میں ڈال رہے ہیں اور انھیں اس کا شعور نہیں ہے۔ اسلامی مشاورتی کونسل نے اپنے ۳ دسمبر ۱۹۶۹ ء کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ: اسلامی مشاورتی کونسل اس امر پر متفق ہے کہ رہا اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی پیشی اور کمی سود کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ افراد اور اداروں کے لین دین کی

مندرجہ ذیل صورتوں پر مکمل غور و فکر کرنے کے بعد کونسل اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ : (الف) موجودہ بنکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان کا روباری لین دین اور قرضہ جات میں اصل رقم پر جو بڑھوتری می یادی جاتی ہے وہ داخل رہا ہے۔

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

اشارات

(ب) خزانے کی طرف سے مقداری مدت کے قرضے پر جو چھوٹ دی جاتی ہے وہ بھی

داخل رہا ہے۔

(ج) سیونگ سرٹیفکیٹ پر جو سود دیا جاتا ہے وہ رہا میں شامل ہے۔

(د) انعامی بانڈ پر جو انعام دیا جاتا ہے، وہ ربا میں شامل ہے۔ (2) پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی رہا میں شامل ہے۔

(و) صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے جانے والے قرضوں پر بڑھوتری ربا میں شامل ہے۔ ( Report on Consolidated Recommendations

on the “Islamic Economic System” Council of Islamic Ideology, (1983. pp 9-10

بالکل یہی وہ پوزیشن ہے، جو اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے ماہرین معاشیات اور بنکاروں نے اپنی آخری رپورٹ میں اختیار کی ہے۔ اسی طرح اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر کی صدارت میں بنکاروں کی جس کمیٹی نے کام کیا اور ۱۹۸۰ء میں اپنی رپورٹ دی اس نے بھی یہی پوزیشن اختیار کی ہے۔ اس طرح ملک کے علما اور معاشی ماہرین اور بنکا ر اس پر متفق ہیں۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے اپنے دسمبر ۱۹۹۱ء کے تاریخی فیصلے میں اس پوزیشن پر مہر تصدیق ثبت کی جو حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی پوزیشن عالمی اداروں کی ہے۔ بھارت کے مجمع الفقہ الاسلامی نے وہاں کے چوٹی

کے علما کے سیمی نار میں جس آخری متفقہ رائے کا اظہار کیا، وہ یہ ہے: سود خواہ ذاتی مصارف کے قرضوں پر لیا جائے یا تجارتی وکاروباری قرضوں پر ،شریعت اسلامیہ کی نظر میں بہر حال حرام ہے۔ قرآن وسنت، اجتماع و قیاس اور امت محمدیہ کا عمل متوارث سب یہی بتاتے ہیں کہ حرمت ربا کے بارے میں اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا کہ قرض لینے کا مقصد اور محرک کیا ہے؟ سود کی حرمت پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں پڑتا کہ شرح سود کم ہے یا زیادہ، مناسب حد تک کم ہے یا نا مناسب حد تک زیادہ۔

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

11

اشارات

دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں صورتیں بہر حال حرام ہیں۔ ( سہ ماہی بحث و نظر، پھلواری شریف پٹنہ، شماره ۸ جنوری تا مارچ ۱۹۹۰ ء ،ص ۱۳) سرکاری سطح پر وزرائے خارجہ کی تعظیم کی قائم کردہ اسلامی فقہ اکیڈمی نے بھی اس مسئلے پر دسمبر ۱۹۸۵ ء میں غور کیا اور وہ بھی اس نتیجے پر پہنچی۔ فقہ اکیڈمی کی قرارداد نمبر ۳ میں طے کیا گیا کہ بنکوں اور نظام بنکاری میں اسلامی اصولوں کے نفاذ کے بارے میں:

-1

ان تمام قرضوں پر جنھیں ایک مدت کے بعد ادا کیا جاتا ہے، کوئی اضافہ (خواہ اس کا نام نفع ہی کیوں نہ ہو) اگر قرض دار اتے وقت پر ادا نہ کر سکے، یا کسی بھی قرض پر اضافہ یا نفع جسے قرض دینے کے وقت معاہدے کے حصے کے طور پر رکھا گیا ہو، دونوں رہا کی تعریف میں آتے ہیں اور شریعت میں حرام ہیں۔ ۲۔ (سود کے بغیر ) متبادل بنیادوں پر بنک قائم ہونے چاہییں ، جو اسلامی احکام کے مطابق کام کریں اور معاشی سہولتیں فراہم کریں۔

اکیڈمی تمام مسلم ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کے مطابق کام کرنے والے بنک قائم کریں تاکہ مسلمانوں کی تمام ضروریات ان کے ایمان کے مطابق پوری کی جاسکیں اور ان کے عمل اور دین میں عدم مطابقت نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود آئی ایم ایف کے سرکاری کا غذات میں مسلمان امت کی جو پوزیشن اس مسئلے کے بارے میں بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے : ” مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی بنکاری نظام کے مطالعے کا آغاز اس کی بنیادی اصطلاحات کی تعریف سے کیا جائے۔ رہا ایک شرعی اصطلاح ہے جوزر کے استعمال پر پہلے سے طے شدہ اضافے سے عبارت ہے۔ ماضی میں اس امر پر نزاع ملتا ہے کہ ربا سے مراد سود ہے یا یوژوری (Usury)، لیکن اب مسلمان اہلِ علم کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق سود کی ہر شکل پر ہوتا ہے اور اس کا مصداق محض مناسب سے زیادہ سود (excessive interest) نہیں۔ پس آگے کے مباحث میں ‘ربا’ اور سود بطور مترادف استعمال کیے جائیں گے اور اسلامی نظام بنکاری کے معنی وہ نظام ہوگا جس میں سود کی ادائیگی یا وصولی ممنوع ہوگی، جب کہ ایک سودی یا روایتی بنک سے مراد وہ ادارہ ہوگا جس میں مالی فنڈ کے

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

۱۲

اشارات

استعمال پر سود وصول کیا جاتا ہے، یا دیا جاتا ہے۔ (International Monetary Fund

Staff Papers, Vol xxxiii. No.1. March 1986. Islamic Interest-free Banking. a Theoretical Analysis by Mohsin S. Khan. p 4-5)

ان علمی مباحث کا بے لاگ جائزہ اس امر کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ سود کے بارے میں

جو سوالات اور شبہات اُٹھائے جاتے ہیں وہ غیر حقیقی ہیں اور قرآن وسنت نے سود کو اس کی ہر شکل میں حرام قرار دیا ہے، خواہ وہ قدیم ساہوکاری کی شکل میں ہو یا جدید بنکاری کی ضرورت مندوں کے صرفی قرضوں سے متعلق ہو یا تجارتی اور پیدا آوری قرضوں سے، نجی دائرے میں ہو یا سرکاری، نیم سرکاری دائرے میں، کم شرح پر ہو یا زیادہ شرح پر ۔ یہ اتفاق رائے اُمت کا ایک عظیم سرمایہ ہے، اور اب گڑے مردے اکھاڑنے کے بجائے سیدھے سجاؤ ساری کوششیں اس امر پر مرکوز کرنی چاہیں کہ سود سے کیسے نجات پائی جائے اور متبادل نظام کے خدو خال کیا ہیں؟

اسلامی بنکاری کی طرف پیش رفت

علمی اور نظری میدان میں اس کامیابی کے ساتھ دوسری بڑی کامیابی جو پچھلے ۵۰ سال میں حاصل ہوئی ہے وہ بلاسود بنکاری کے اصول وضوابط ، نظامِ کار، مالیاتی آلات ( Financial Instruments ) اور سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں کی تجویز و تسوید ہے۔ اس سلسلے میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیقات کی گئی ہیں اور بڑی دقت نظر سے متبادل نظام کا نقشہ بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدائی کوششیں تو ۱۹۳۰ ء اور ۴۰ کے عشروں میں ہوئی تھیں اور اس میں سب سے زیادہ راہ کشا کام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور باقر الصدر شہید نے کیا تھا۔ پھر جدید معاشیات کے ماہرین میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر محمد عزیر، ڈاکٹر محمود ابوسعود نے ابتدائی کام کیا، جسے گذشتہ ۵۰ برسوں میں محققین کی ایک ٹیم نے سنوار نے اور مزید آگے بڑھانے میں قابلِ قدر حصہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احمد نجار، ڈاکٹر ساحی محمود، ڈاکٹر عمر چھاپرا، ڈاکٹر صدیق ضریر، ڈاکٹر معبد جرحی، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد، ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر محمد انور، ڈاکٹر محمد فہیم خان، ڈاکٹر محمد عارف اور درجنوں اہلِ علم نے بڑی مفید خدمات انجام دیں۔ کم از کم چار در جن ایسی تحقیقی کتا بیں شائع ہوئی ہیں، جن میں نئے نظام کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کے مصنفین کو اسلامی ترقیاتی بنک کا ایوارڈ اور

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

۱۳

اشارات

شاہ فیصل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ ، جو معاشیات اور بنکاری کے ماہرین کی رپورٹ پر مبنی ہے، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس رپورٹ میں جو ۱۹۸۰ء میں پیش کی گئی تھی ، پاکستان ہی نہیں کسی بھی جدید ملک کی داخلی معیشت کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کا بڑا حقیقت پسندانه نقشه کار پیش کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے گورنر کی صدارت میں مرکزی بنک کی ایک کمیٹی نے بھی اس موضوع پر ۱۹۸۱ء میں کام کیا اور اس کا دیا ہوا نقشہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے نقشے سے بہت قریب ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ پر مارچ ۱۹۸۱ ء ہی میں ایک عالمی سیمی نار میں بحث ہوئی اور اس کی سفارشات کی بحیثیت مجموعی توثیق کی گئی، نیز مزید کچھ فارشات کی گئیں جوانہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کی طرف سے سے Money and Banking in Islam کے نام سے شائع ہوئی ہیں ۔ ۱۹۸۹ء میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس نے ایک ورکشاپ اس موضوع پر منعقد کی کہ سرکاری لین دین سے سود کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ اس ورکشاپ کی رپورٹ ( Report of the) شائع ہو چکی ہے۔ اس کے بعد جون ۱۹۹۲ء میں کمیشن فار اسلامائزیشن آف اکانومی نے اپنی عبوری رپورٹ

the Workshop on Elimination of Interest on Govt. Transactions

بنکاری کو سود سے پاک کرنے کے بارے میں دی جسے ابھی تک شائع نہیں کیا گیا بلکہ قانون کے مطابق سینیٹ اور اسمبلی تک میں پیش نہیں کیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے ایک سیمی نار معیشت سے سود کو ختم کرنے کے بارے میں منعقد کیا، جس میں معاشیات اور بنکاری کے تقریباً ایک سو ماہرین نے شرکت کی ۔ اس کی رُوداد کے بھی متعدد ایڈ یشن ۱۹۹۴ء کے بعد Elimination of کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔

of Riba from the Economy

یہ سارا کام پاکستان کے حالات کی روشنی میں متبادل نظام کا ایک واضح خاکہ پیش کرتا ہے اور ہر شعبے کے لیے متبادل تجویز کرتا ہے۔ بیرونی قرضوں کے بارے میں بھی کام ہوا ہے۔ اس کے لیے مندرجہ بالا رپورٹ اور خود انحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں واضح رہنمائی موجود ہے، بلکہ خود انحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں تو ایک طرف اس قانون کا خاکہ موجود ہے جو اس کام کو انجام

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

۱۴

اشارات

دینے کے لیے درکار ہے اور دوسری طرف با قاعدہ Econometric Model کی مدد سے تین سال میں معیشت سے سود کو ختم کرنے کا پورا پروگرام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ متبادل نظام کا مطالبہ کرنے والے نہ ان چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر ان کے ذہنوں میں ان پیش کردہ خطوط کے بارے میں کوئی اعتراضات اور خدشات ہیں تو ان پر گفتگو نہیں کرتے جس سے ان کی عدم توجہی اور غیر سنجیدگی کا پتا چلتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس تمام کام میں جو سفارشات کی گئی ہیں وہ ان کے ذوق یا خواہش کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے وہ ان باتوں کے وجود کا انکار کر دیتے ہیں اور رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ متبادل کہاں ہے؟ ہم نے او پر صرف اس کام کی طرف اشارہ کیا ہے جو پاکستان میں ہوا ہے، باقی مسلم ممالک میں بھی خصوصیت سے عرب دنیا، ملائیشیا، ترکیہ اور خود مغرب کی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں جو کام اس وقت ان موضوعات پر ہو چکا ہے اور جسے مغرب کی جامعات نے بھی اعلیٰ تحقیقاتی کام شمار کیا ہے، اس کی فہرست اور تعارف ایک الگ مقالے کا محتاج ہے۔ بات صرف علمی کام اور نظری طور پر متبادل نظام کی نقشہ گری تک محدود نہیں ہے، الحمد للہ پچھلے ۶۰ برسوں میں بلا سود بنکاری محض ایک نظریہ نہیں رہی ہے بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت بن چکی ہے ۔ بلا شبہہ ابھی بہت سا کام کرنا ہے اور بڑے مراحل طے کرنا ہیں ، مگر جو کچھ حاصل کیا جا چکا ہے وہ اسلامی اصول بنکاری کا لوہا منوانے کے لیے کافی ہے۔ بالکل نچلی اور عوامی سطح پر تو بلاسودی انداز میں بچتوں کو جمع کرنے اور وسائل کی فراہمی کا کام ہمیشہ سے ہوتارہا ہے ، انفرادی سطح ہی پر نہیں اداروں کی سطح پر بھی ہوتا رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب نے حیدر آباد دکن میں پہلی جنگ عظیم کے بعد کے تجربات پر تحقیقی کام کیا تھا اور دکھایا تھا کہ کس طرح کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری اس نظام کے ذریعے ہورہی تھی۔ پچھلے ۶۰ برسوں میں جو تجربات ہوئے ہیں، ذیل میں ان کی چند مثالیں پیش کرتے ہوئے، ہمیں یہ دعوی نہیں کہ یہ بنک ہر اعتبار سے معیاری اسلامی اپروچ پر استوار ہیں، لیکن یہ بات بھی ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود ان بنکوں نے دُنیا کے سامنے یہ مثال پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ بلاسودی بنکاری ممکن ہے۔ ان مثالوں میں چند کا تذکرہ یہ ہے:

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

۱۵

اشارات

. مصر کا ‘مت عمر بنک (Mit Ghamr Bank) ہے، جو ۱۹۶۳ ء سے ۱۹۶۷ء تک شرعی اصولوں کے تحت اسلامی بنکاری کے ابتدائی تجربے کے طور پر کام کرتا رہا۔ دراصل صدر ناصر نے سیاسی خطرات محسوس کرتے ہوئے اسے بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد نا صر سوشل بنک (۱۹۷۱ء) کی شکل میں اس پروگرام کو نیا روپ دیا گیا۔ یہ ادارے نہایت کامیابی سے دس بارہ سال چلتے رہے جس پر مغرب کے محققین نے تحقیق کی اور انھیں کامیاب ابتدائی تجربات قرار دیا۔ (ملاحظہ ہو: T Whokus

Seharf: Arab of Islamic Banks: New Business Partners for

Developing

Countries ، مطبوعہ پیرس، OECD، ۱۹۸۳ء)

اسی طرح ملائیشیا میں ۱۹۶۳ء میں حاجیوں کے لیے بنک سیونگ کارپوریشن قائم ہوئی ، جسے ۱۹۶۹ء میں تبوک حاجی Tabuk Haji) کے نام سے با قاعدہ ایک بنکاری کا ادارہ بنا دیا گیا، جس میں دس لاکھ کھانہ داروں نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ لگایا ہے۔ اس کے تحت پانچ کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور نہایت کامیابی سے بنکاری اور حج کے انتظامات کی خدمات انجام دے

رہی ہیں ۔

• ۱۹۷۵ ء میں پہلا باقاعدہ تجارتی بنک Dubai Islamic Bank کے نام سے دوبئی میں قائم ہوا۔ اسی سال ۲۸ اسلامی ملکوں کے تعاون سے جدہ کا Islamic Development Bank قائم ہوا ، جس کے اب ۵۰ مسلم ممالک ممبر ہیں۔ ان باب کشا بنکوں کے بعد گذشتہ میں سال میں سو سے زیادہ بلا سودی بنک قائم ہوئے۔ دو بڑے مالیاتی گروپ DMI اور Al-Baraka متعدد ملکوں میں بلاسود بنکاری کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

. اخوت فاؤنڈیشن پاکستان نے بالکل عام آدمی کی سطح پر لاکھوں افراد کو بلا سود قرضے فراہم کیے ہیں اور یہ تجربہ چھوٹے درجے کی سرمایہ کاری (Micro-financing ) کی تاریخ میں ایک کامیاب ترین تجربہ ہے، جس میں قرض کی واپسی کی شرح ۹۵ فی صد سے زیادہ ہے۔

انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف اسلامک بکس کے سیکرٹری جنرل کی ایک رپورٹ ( نومبر ۱۹۹۶ء The Present State of Islamic Banks) کے مطابق اس وقت خلیجی کونسل کے ممالک میں ۱۷، بقیہ مشرق وسطی میں ۲۲، افریقا میں ۳۰، جنوبی ایشیا میں ۴۷ اور یورپ اور امریکا میں چار بلاسودی بنک

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

۱۶

اشارات

یا مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان بنکوں کا کل سرمایہ 4 بلین ڈالر ہے، ان میں موجود امانات (deposits) کے بلین ڈالر اور ان کے کل اثاثے (assets ) 44 بلین ڈالر ہیں ۔ سرمائے کی تقسیم کے اعتبار سے مشرق وسطی کے بنکوں کا حصہ ۵۵ فی صد خلیجی کونسل کے ممالک کا حصہ ۲۳ فی صد اور جنوب ایشیا کا ۱۵ فی صد ہے۔ ان بنکوں کی کل شاخیں اس وقت ۲۱ ہزار ہیں اور ان میں دو لاکھ اے ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں ۔ ان اداروں کے operations کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے وسائل کا ۳۰ فی صد اندرونی تجارت، ۱۹ فی صد صنعت، ۱۳ فی صد سروس سیکٹر، ۱۲ فی صدا راضی اور املاک ، اور ۸۶۵ فی صد زراعت کی مالی ضروریات پورا کرنے پر صرف ہورہا ہے۔ ایوان ٹریور (Evan Traver) نے ۱۵ مارچ ۲۰۲۲ ء کو لکھا: ”اس وقت ۵۲۰ بنک اور ے اہزار میوچل فنڈز، اسلامی معاشی اصولوں کے تحت کسی نہ کسی شکل میں کام کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۹ء کے درمیان ایک اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر ان کا حجم ۲۶۸ ٹریلین ہو گیا۔ اور اندازہ ہے کہ ۲۰۲۴ء میں یہ ۷ ۳۰ ٹریلین تک پہنچ جائیں گئے ۔(Investopedia) کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان تجربات کی موجودگی میں ہمارے ارباب سیاست متبادل نقشہ

طلب کر رہے ہیں۔

انسدادِ سود کا لائحہ عمل اور حکومتی روش تینوں اہم میدان • سود کی حقیقت اور تصور کی وضاحت • نظری طور پر بلاسود بنکاری اور مالیاتی نظام کے نقشہ کار کی صورت گری اور • کمرشل اور انوسٹمنٹ بنکاری کے میدان میں عملاً بلاسودی اداروں کا قیام اور ان میں کچھ کی چالیس برس پر پھیلی ہوئی کوششوں میں جو کچھ حاصل کیا گیا ہے اس کے ایک سرسری جائزے کے بعد ضروی معلوم ہوتا ہے کہ ہم تعین کے ساتھ یہ بھی بتائیں کہ پاکستان میں یہ تجربہ کیوں کامیاب نہ ہو سکا اور گاڑی کس طرح پٹڑی سے اتری؟ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن مختصراً سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو حکمت عملی اسلامی نظریاتی کونسل اور دوسرے اسلامی معاشیات کے ماہرین نے پیش کی تھی، اس پر پہلے قدم (فروری ۱۹۷۹ء) کے بعد کوئی حقیقی پیش رفت نہ ہوسکی ۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور ہم سب کی تجویز یہ تھی کہ ایک متعین تدریج کے ساتھ بنکاری ہی نہیں، پوری معیشت کو سود سے پاک کیا جائے۔

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

12

اشارات

سب سے پہلے ان اداروں سے آغا ز ہو جن کے نظام کو فوراً تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ (NIT)، آئی سی پی کا میوچل فنڈ اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن ( HBFC) کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے صنعت کے لیے Banker’s Equity کے قیام کا منصو بہ دیا اور زرعی بنک ، سمال انڈسٹریز کارپوریشن کو آپریٹوز اور ان اداروں کو پابند کیا کہ چھوٹے کا شتکار، چھوٹے تاجر اور چھوٹی صنعت کو سرمایہ فراہم کریں، تا کہ بنیادی سطح (grass-root ) پر عام آدمی کو سب سے پہلے بلاسود سرمایہ کاری کی سہولت میسر ہو سکے ، جس سے روزگار کے مواقع بھی عام آدمی کو میسر آسکیں گے اور غربت وافلاس کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ دوسرے مرحلے پر جسے ایک سال کے اندر شروع کرنے کا ہم نے منصوبہ پیش کیا تھا، اس میں سرکاری شعبے سے سود کو ختم کرنے کا لائحہ عمل دیا تھا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہماری رائے میں اصل ساہوکار مرکزی حکومت اور ایک حد تک صوبائی حکومتیں بن گئی ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے جس سیکٹر کو سود سے پاک کرنے کی ضرورت ہے وہ یہی سرکاری سیکٹر ہے۔ یہی بات اسلامی نظریاتی کونسل نے کہی تھی اور یہی موقف خود انحصاری کمیٹی کا تھا۔ لیکن اس سیکٹر کو نہ صرف یہ کہ اس پورے زمانے میں ہاتھ تک نہیں لگایا گیا بلکہ اس میں سودی کاروبار گذشتہ ۱۵ سال میں دگنا اور تین گنا ہو گیا ہے ۔ ہماری تجویز تھی کہ پہلے تجارتی بنکوں کی اصلاح ہو اور اس میں اصل توجہ اثاثہ جات (Bank Assets ) کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنے کی ہو ، تا کہ سرمائے کے استعمال کی راہیں کھلیں اور سود سے پاک ہو کر کھلیں، جب کہ ڈیپازٹس کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا نسبتاً آسان تھا۔ حکومت نے ترتیب الٹ دی اور ساری توجہ ڈیپازٹس کے نظام کو بدلنے پر صرف کی اور اثاثہ جات کی اصلاح اور اس کے لیے جس قانونی ڈھانچے کی ضرورت تھی وہ نہ بنایا۔ ہماری تجویز تھی کہ کمپنی لاء ٹیکس کے نظام، کارپوریٹ لا اتھارٹی، اسٹاک ایچینچ ان سب کو اس طرح تبدیل کیا جائے کہ نیا معاشی انفراسٹر کچھ وجود میں آسکے۔ اس کے ساتھ ہی قانونی طور پر سود کو ختم کیا جائے۔ تمام تحفظات اور محرکات جو سود کو حاصل ہیں وہ نفع و نقصان پر مبنی سرمایہ کاری کو دیے جائیں۔ بنک اور مالیاتی اداروں کے عاملین کی تربیت کے لیے مناسب ادارے قائم کیے جائیں

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

۱۸

اشارات

اور مؤثر انتظامات کیے جائیں۔ نیز عوام کی تعلیم کا انتظام ہو، تاکہ حلال و حرام سے واقفیت ہو اور نئے نظام کے لیے عوامی تائید حاصل کی جاسکے۔ اسی طرح وطن عزیز میں اسلامی بنکاری کے عنوان سے جو اور جتنی پیش رفت ہورہی ہے، اس کو شریعت کی روشنی میں پروان چڑھانے کے لیے لازم ہے کہ اس کے اطلاقی پہلوکو شریعت کی بنیاد پر پختگی سے استوار کیا جائے ، نہ کہ رسمی طور پر تذکرہ کیا جائے۔ اسٹیٹ بنک کو اس پورے کام میں ایک مرکزی کردا ر ادا کرنا تھا لیکن حکومت نے ان میں سے کوئی اقدام نہ کیا۔ اصل اسکیم کو گڈمڈ کر کے تجارتی بنکوں میں IPLS کاؤنٹ کھولے اور مارک آپ کے نام پر سود کو نئی زندگی عطا کر دی۔ نیز حکومت پاکستان خود اس زمانے میں مسلسل سودی بانڈ اور سرٹیفکیٹ جاری کرتی رہی ، ملک میں بھی اور زرمبادلہ کے لیے بھی ، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، حتی کہ ۱۹۹۷ء میں ” قرض اُتارو ملک سنوارو اسکیم کے تحت حکومت نے جو قر منے حاصل کیے، ان کا ۹۰ فی صد بھی سودی بنیاد ہی پر تھا۔

اصل رکاوٹ عزم کی کمی

یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل رکاوٹ ارباب اقتدار کے فکر و نظر کا بگاڑ اور ارادہ و عزم کی کمی ہے اور جب تک یہ درست نہ ہوں محض تجاویز اور متبادل صورتوں کے انبار لگانے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ سرکاری رپورٹوں ، کمیشنوں اور کمیٹیوں کا تو یہ حال ہے کہ رپورٹیں موجود ہیں جن پر کوئی عمل نہیں ہوتا اور نئی کمیٹیاں قائم کر دی جاتی ہیں، اور اس بڑھیا کی طرح اپنی محنت ضائع کی جاتی ہے جو سوت کاتی ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے : وَلَا تَكُونُوا حالتي نقضت غَزَلَهَا مِنْ بَعْدِ قوة انكاناء (النحل ٩٢:١٢) ۔ بلاشبہ تحقیقی کام کی بھی ضروت ہے اور عوام کی تعلیم وتربیت کی بھی، مردان کار کی ٹرینگ کا بھی انتظام ہونا چاہیے لیکن سب سے پہلے دل و نگاہ کی اصلاح

اور مؤثر سیاسی عزم (Will (Political Will) کی ضرورت ہے جن کے بغیر کوئی منزل سرنہیں کی جاسکتی۔ صرف عبرت کے لیے اور ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے جو متبادل کا گلا کرتے ہیں اور حقائق سے صرف نظر، ایک اقتباس ورلڈ بنک کے ایک برادر ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائرکٹر ز کی رپورٹ سے دے دوں جو میں نے خود انحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں بھی دیا تھا۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک اسٹیج پر یہ عالمی مالیاتی ادارے اس امر پر غور کر رہے تھے

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

19

اشارات

که اگر پاکستان سود کو ختم کر دیتا ہے اور حقیقی اسلامی بنکاری اور سرمایہ کاری سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں، تو پھر وہ کس طرح اپنے معاملات کو اس سے ہم آہنگ کریں؟ لیکن داد دیں ہماری قیادت کو کہ اس نے ان کو یقین دلا دیا کہ اسلام کی باتیں صرف دل بہلانے کے لیے ہیں، عمل کے لیے نہیں، اس لیے ان کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ملاحظہ ہو IFC کی رپورٹ نمبر 587-IFC P ، مؤرخہ دسمبر ۱۹۸۷ء:

A change to Islamic modes of financing has been considered by IFC but this would be contrary to the Government (of Pakistan) intentions for foreign loans. Adoption by a foreign lender of Islamic as undermining Governments construed be could instruments policy to exempt foreign lender from this requisit.

انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے اسلامی سرمایہ کاری کے طریقوں کو اپنانے کے بارے میں غور کیا، لیکن یہ بیرونی قرضوں کے بارے میں حکومت (پاکستان) کے منشا کے خلاف ہوتا۔ اگر بیرونی قرضہ دینے والے اسلامی طریقے اور ذرائع اختیار کرتے ہیں تو اسے اس سرکاری پالیسی کو غتر بود کرنے کی کوشش سمجھا جائے جس کے تحت بیرونی قرض دینے والوں کو ان (اسلامی ) مطالبات سے مستی رکھا جا رہا ہے۔

اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے بورڈ آف گورنر ز تو پاکستان کے دستور کی اسلامی دفعات خصوصیت سے، وفاقی شرعی عدالت سے سود کے بارے میں اختیارات کی تحدید کے ختم ہونے کے امکان کی روشنی میں اپنے رویے میں تبدیلی کے لیے فکر مند ہے، مگر ہمارے سر کاری حکام ان کو تسلی دیتے ہیں کہ کوئی خطرہ نہیں ، ہم دستور کو بھی بدل دیں گے :

We have been advised by senior Government officials that steps will be taken to rectify this situation in all probability.

ہمیں سینیر سرکاری افسروں کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے کہ پورا امکان ہے کہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔

یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا ذہن اور کردار ۔ ہمیں ہوا دکھایا جاتا ہے کہ بیرونی مالیاتی ادارے ہمارا حقہ پانی بند کر دیں گے اور ملک تباہ ہو جائے گا اور اگر وہ اسلامی بنکاری کے اصولوں کو اختیار کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو روک دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دستور میں

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۲۲ء

اشارات

بھی ترمیم کر ڈالی جائے گی مگر سود کی راہ کھوٹی نہیں ہونے دیں گے، وہ شیر مادر کی طرح حلال اور رواں رہے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ فَأَذَنُوا بِحَرْبِ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو اور اس جنگ کے نتیجے میں صرف یہی تباہ نہیں ہور ہے، پورا ملک اور پوری قوم عذاب میں مبتلا ہے۔

ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ پہلے خلوص دل سے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اس جنگ کو بند کرنے کا اعلان کرو۔ سیز فائر کے بغیر کسی اور اقدام کا کیا سوال؟ ایک محفوظ اور مستقل راستہ تو دستور میں ترمیم ہے، مگر دستوری ترمیم تو نہ کی جا سکی، البتہ اس کے بالکل الٹ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر دی گئی ۔ طویل عرصے بعد وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ سنایا تو پھر دوبارہ بنکوں کی جانب سے اپیل کرا دی گئی۔ یہ ایک بڑا ہی سفا کا نہ کھیل ہے، جسے حکمران اور دولت مند طبقے کھیل رہے ہیں ۔ انھیں آخرت کی جواب دہی کا خیال کرنا چاہیے اور ہم وطنوں پر معاشی ظلم و ستم کی حکمرانی کو ترک کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ غلطی اور فروگزاشت کو معاف کرنے میں بڑا غفور و رحیم ہے لیکن بغاوت اور سرکشی کے باب میں اس کی گرفت بھی بڑی سخت ہے: ان تطلق ريك تشديد البروج ۱۲:۸۵) آئیے ، بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کریں، پھر ہر مشکل آسان ہو جائے گی اور ہر بند دروازہ کھل جائے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »