!
کشمیر میں ہلاکتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ میرے ضمیر کو بھی ملامت کر رہا ہے۔ میرے خیال سے ۳۰ ہزار بہت بڑی تعداد ہے۔ ہم نے لبرل اقدار پر ملک کی تعمیر میں پچاس سال کا وقت صرف کیا ہے۔ تو آئیے ان اقدار سے اپنی عقیدت برقرار رکھیں، بجائے اس کے کہ الحاق کی دستاویز جیسی قانونی موشگافیوں میں ہم اپنا وقت ضائع کریں۔ آئیے کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے
اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینے دیں۔ (ٹائمنٹ آف انڈیا ، ۱۶ جولائی ۲۰۰۰ء)
ان حالات میں حکومت پاکستان، پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تاریخ کے اس نازک لمحے میں ذراسی بے تدبیری سارے کیے دھرے پر پانی پھیر سکتی ہے اور نصف صدی سے زائد کی قربانیوں کو تلپٹ کر سکتی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جنگیں میدان جنگ سے بھی پہلے دل و دماغ میں جیتی یا ہاری جاتی ہیں۔ میدانی پوزیشن تحریک مزاحمت کے حق میں ہے لیکن سیاسی اور معاشی دباؤ کا مردانہ وار مقابلہ کیے بغیر اس پوزیشن کو باقی رکھنا اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ۔ جنرل مشرف صاحب اور فوج کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملت پاکستان کے منی برحق موقف کے لیے ڈٹ جائیں اور کسی سطح پر بھی کمزوری نہ دکھا ئیں۔ معاشی محاذ کو بھی مضبوط کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے قوم سے لڑنے کے بجائے اس کے اشتراک سے مسائل کو حل کرنے کی سعی ہی مفید اور موثر ہوسکتی ہے ۔ لیکن سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہم کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر سرمو انحراف نہ کریں اور قوم کو اعتماد میں لے کر کشمیری مسلمانوں کی مخلصانہ اور مجاہدانہ پشتی بانی جاری رکھیں ۔
کشمیری حریت پسندوں نے جان کی بازی لگاری ہے۔ اگر ان کو یقین ہو کہ پاکستان ان کے ساتھ ہے اور کوئی کمزوری نہ دکھائے گا تو ہمیں یقین ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور عزیمت سے دشمن کا مقابلہ کریں گے اور ان شاء اللہ فاتح اور سرخرو ہوں گے۔ مسئلہ وقت کا نہیں عزم اور وژن کا ہے۔ چین نے ہانگ کانگ کے معاملے میں ۱۰۰ سال صبر کیا۔ مکاؤ (Macao) کے علاقے کو ساڑھے چارسوسال کے بعد بالآخر حاصل کر لیا ہے۔ فارموسا کے سلسلے میں بھی چین کسی سمجھوتے یا کمزوری کیلئے تیار نہیں، بلکہ اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں تو پوری کشمیری قوم بھارت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور
۳۸
کشمیر اصل مسئلہ، حقیقی چیلیج
₨ 0
!
کشمیر میں ہلاکتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ میرے ضمیر کو بھی ملامت کر رہا ہے۔ میرے خیال سے ۳۰ ہزار بہت بڑی تعداد ہے۔ ہم نے لبرل اقدار پر ملک کی تعمیر میں پچاس سال کا وقت صرف کیا ہے۔ تو آئیے ان اقدار سے اپنی عقیدت برقرار رکھیں، بجائے اس کے کہ الحاق کی دستاویز جیسی قانونی موشگافیوں میں ہم اپنا وقت ضائع کریں۔ آئیے کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے
اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینے دیں۔ (ٹائمنٹ آف انڈیا ، ۱۶ جولائی ۲۰۰۰ء)
ان حالات میں حکومت پاکستان، پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تاریخ کے اس نازک لمحے میں ذراسی بے تدبیری سارے کیے دھرے پر پانی پھیر سکتی ہے اور نصف صدی سے زائد کی قربانیوں کو تلپٹ کر سکتی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جنگیں میدان جنگ سے بھی پہلے دل و دماغ میں جیتی یا ہاری جاتی ہیں۔ میدانی پوزیشن تحریک مزاحمت کے حق میں ہے لیکن سیاسی اور معاشی دباؤ کا مردانہ وار مقابلہ کیے بغیر اس پوزیشن کو باقی رکھنا اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ۔ جنرل مشرف صاحب اور فوج کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملت پاکستان کے منی برحق موقف کے لیے ڈٹ جائیں اور کسی سطح پر بھی کمزوری نہ دکھا ئیں۔ معاشی محاذ کو بھی مضبوط کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے قوم سے لڑنے کے بجائے اس کے اشتراک سے مسائل کو حل کرنے کی سعی ہی مفید اور موثر ہوسکتی ہے ۔ لیکن سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہم کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر سرمو انحراف نہ کریں اور قوم کو اعتماد میں لے کر کشمیری مسلمانوں کی مخلصانہ اور مجاہدانہ پشتی بانی جاری رکھیں ۔
کشمیری حریت پسندوں نے جان کی بازی لگاری ہے۔ اگر ان کو یقین ہو کہ پاکستان ان کے ساتھ ہے اور کوئی کمزوری نہ دکھائے گا تو ہمیں یقین ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور عزیمت سے دشمن کا مقابلہ کریں گے اور ان شاء اللہ فاتح اور سرخرو ہوں گے۔ مسئلہ وقت کا نہیں عزم اور وژن کا ہے۔ چین نے ہانگ کانگ کے معاملے میں ۱۰۰ سال صبر کیا۔ مکاؤ (Macao) کے علاقے کو ساڑھے چارسوسال کے بعد بالآخر حاصل کر لیا ہے۔ فارموسا کے سلسلے میں بھی چین کسی سمجھوتے یا کمزوری کیلئے تیار نہیں، بلکہ اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں تو پوری کشمیری قوم بھارت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور
۳۸
Reviews
There are no reviews yet.