تحریک آزادی کشمیر: بدلتے حالات اور پاکستان کی پالیسی
پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا منصوبہ پورا کیا گیا۔
۔ اس نقشے کا آخری حصہ کنٹرول لائن ( جنگ بندی لائن ) کو معمولی ردو بدل کے ساتھ
بین الاقوامی سرحد بنانا اور اس طرح کشمیر کی تقسیم در تقسیم کے ذریعے اس مسئلے کو دفن کر دینا ہے۔ یہ بھی اس منصوبے کا حصہ ہے کہ سہ فریقی مذاکرات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے فریم ورک میں مسئلے کے حل سے احتراز کیا جائے اور دو فریقی سلسلہ جنبانی کے ذریعے بھارت اور کشمیریوں میں معاملات طے کرنے کی کوشش کی جائے، اور پھر ایک امر واقعہ (fait accompli) کی حیثیت سے بھارت اور پاکستان سے اسے قبول کرایا جائے۔ امریکہ کھل کر سامنے نہیں آرہا لیکن یہ سارا کھیل اس کے اشارے پر اور اس کے دیے ہوئے نقشے کے مطابق کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان پر اتنا معاشی اور سیاسی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ چاروناچار اس میں شریک ہو جائے ۔ یہ ساری کاروائی اوسلو معاہدے کے طرز پر انجام ہی جارہی ہے تاکہ جس طرح فلسطین کے مسئلے کی تحلیل کر دی گئی ہے اور آج فلسطینی قیادت در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، یہی حشر کشمیر کی تحریک کا بھی ہو۔ افسوس کہ حریت کانفرنس کے نئے سربراہ عبد الغنی بٹ نے فلسطین کی بربادی کے اس پورے عمل سے عبرت پکڑنے کے بجائے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں
اس کی خواہش کی ہے کہ آؤ اور ہمیں بھی اسی طرح ذبح کرو جس طرح اہل فلسطین کو کر رہے ہو: ہم اسے دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور اسلام آباد اور دہلی جانا اور بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جو گروپ دہلی میں رہنماؤں سے بات کر رہا ہے، اسے اسلام آباد جانا چاہیے اور جو گروپ اسلام آبادیوں سے بات کر رہا ہے اسے دہلی جانا چاہیے، اور وہاں رہنماؤں سے بات کرنا چاہیے تا کہ بے اعتمادی کی دیواریں ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لیے گر جائیں۔ جو مصنوعی خطوط کھینچے گئے ہیں دومٹ جائیں اور ہم ایک ہا مقصد راستے پر آگے بڑھیں۔ آئیے، امید کریں بر عظیم میں یاسر عرفات اور شمعون پیریز ظاہر ہوں، ہاتھ میں ہاتھ ڈالیں اور امن کے لیے کام کریں انٹرویو، ششی کمار، سری نگر ، ۱۷ اگست ۲۰۰۰ء)۔
اگر یہ لن ترانی حالات سے ناواقفیت کی پیداوار ہے تو افسوس ناک ہے، اور اگر جانتے بوجھتے یہ
۲۹
کشمیر اصل مسئلہ حقیقی چیلنج !
₨ 0
تحریک آزادی کشمیر: بدلتے حالات اور پاکستان کی پالیسی
پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا منصوبہ پورا کیا گیا۔
۔ اس نقشے کا آخری حصہ کنٹرول لائن ( جنگ بندی لائن ) کو معمولی ردو بدل کے ساتھ
بین الاقوامی سرحد بنانا اور اس طرح کشمیر کی تقسیم در تقسیم کے ذریعے اس مسئلے کو دفن کر دینا ہے۔ یہ بھی اس منصوبے کا حصہ ہے کہ سہ فریقی مذاکرات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے فریم ورک میں مسئلے کے حل سے احتراز کیا جائے اور دو فریقی سلسلہ جنبانی کے ذریعے بھارت اور کشمیریوں میں معاملات طے کرنے کی کوشش کی جائے، اور پھر ایک امر واقعہ (fait accompli) کی حیثیت سے بھارت اور پاکستان سے اسے قبول کرایا جائے۔ امریکہ کھل کر سامنے نہیں آرہا لیکن یہ سارا کھیل اس کے اشارے پر اور اس کے دیے ہوئے نقشے کے مطابق کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان پر اتنا معاشی اور سیاسی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ چاروناچار اس میں شریک ہو جائے ۔ یہ ساری کاروائی اوسلو معاہدے کے طرز پر انجام ہی جارہی ہے تاکہ جس طرح فلسطین کے مسئلے کی تحلیل کر دی گئی ہے اور آج فلسطینی قیادت در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، یہی حشر کشمیر کی تحریک کا بھی ہو۔ افسوس کہ حریت کانفرنس کے نئے سربراہ عبد الغنی بٹ نے فلسطین کی بربادی کے اس پورے عمل سے عبرت پکڑنے کے بجائے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں
اس کی خواہش کی ہے کہ آؤ اور ہمیں بھی اسی طرح ذبح کرو جس طرح اہل فلسطین کو کر رہے ہو: ہم اسے دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور اسلام آباد اور دہلی جانا اور بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جو گروپ دہلی میں رہنماؤں سے بات کر رہا ہے، اسے اسلام آباد جانا چاہیے اور جو گروپ اسلام آبادیوں سے بات کر رہا ہے اسے دہلی جانا چاہیے، اور وہاں رہنماؤں سے بات کرنا چاہیے تا کہ بے اعتمادی کی دیواریں ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لیے گر جائیں۔ جو مصنوعی خطوط کھینچے گئے ہیں دومٹ جائیں اور ہم ایک ہا مقصد راستے پر آگے بڑھیں۔ آئیے، امید کریں بر عظیم میں یاسر عرفات اور شمعون پیریز ظاہر ہوں، ہاتھ میں ہاتھ ڈالیں اور امن کے لیے کام کریں انٹرویو، ششی کمار، سری نگر ، ۱۷ اگست ۲۰۰۰ء)۔
اگر یہ لن ترانی حالات سے ناواقفیت کی پیداوار ہے تو افسوس ناک ہے، اور اگر جانتے بوجھتے یہ
۲۹
Reviews
There are no reviews yet.