تحریک پاکستان اور تحریک اسلامی

 0

تحریک مزاحمت: نئے مرحلے میں
آمدنی والی ملازمت پر ہے۔ (‘بھارتی افواج کو کشمیر میں وسیع بغاوت کا سامنا نیو یارک ٹائمز ،
۱۲ اگست ۲۰۱۰ء)
ہفت روزہ نیوز ویک ۷ جولائی کی اشاعت میں مصنف اور تجزیہ کارJereny Kahn کا مضمون
شائع کرتا ہے جو وزیر اعظم من موہن سنگھ کو مشورہ دیتا ہے کہ مسئلے کی اصل جڑ کی طرف توجہ دو: بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے لیے تشدد کی لہر ایک مشکل چیلنج ہے۔ انھیں اپنی حکومت کے عقابوں کو بھی روکنا ہے، جیسے ان کے وزیر داخلہ چدم برم جو طاقت کے بہت زیادہ استعمال کا جواز پیش کرتے ہیں اور موجودہ احتجاج کو پرانی طویل بغاوت سے جوڑ کر اور کسی ثبوت کے بغیر الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان اور لشکر طیبہ ان ہنگاموں کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ من موہن سنگھ کو اس احتجاجی تحریک کو وہی سمجھنا چاہیے جو یہ ہے۔ یہ ان نو جوان کشمیریوں کے غصے اور محرومی کا احساس ہے جو اپنے آپ کو بقیہ بھارت سے الگ محسوس کرتے ہیں۔ وہ ریاست میں مواقع کے فقدان سے مایوسی کا شکار ہیں اور مقبوضہ لوگوں کی طرح رہنے سے تنگ آچکے ہیں۔ بھارت کے لاکھوں فوجی اور پولیس کے سپاہی کشمیر میں موجود ہیں اور وادی میں ہر جگہ ان کی موجودگی نظر آتی ہے۔ ان سکیورٹی فورسز کو قانونی تحفظ حاصل ہے جس کی وجہ سے یہ صورت حال طاقت کے غلط استعمال کو
مضمون
دعوت دیتی ہے۔ طارق علی لندن کے جریدہ لندن ریویو آف بکس کی ۲۲ جولائی ۲۰۱۰ ء کی اشاعت میں ایک مضہ Not Crushed, Merely Ignored میں بڑے دُکھ کے ساتھ پوری مغربی صحافت بشمول بائیں بازو کے دانش ور اور قلم کار سے شکایت کرتا ہے کہ کشمیر میں مظالم کے کیسے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں اور
انسانیت خاموش تماشائی ہے جتنی کہ پاکستان کی قیادت اور میڈیا بھی اس بے حسی کا شکار ہیں: کشمیر میں اموات کی خبریں تو غائب ہو جاتی ہیں، لیکن تہران کو جانے دیجیے، تبت کے معمولی سے واقعے کو بھی خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دشمنی پر فخر بھارت کے تشدد کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو مارنے کی کھلی چھٹی مل گئی جب کشمیر

SKU: 6849817303b2c8619f33cad2 Categories: , ,

تحریک مزاحمت: نئے مرحلے میں
آمدنی والی ملازمت پر ہے۔ (‘بھارتی افواج کو کشمیر میں وسیع بغاوت کا سامنا نیو یارک ٹائمز ،
۱۲ اگست ۲۰۱۰ء)
ہفت روزہ نیوز ویک ۷ جولائی کی اشاعت میں مصنف اور تجزیہ کارJereny Kahn کا مضمون
شائع کرتا ہے جو وزیر اعظم من موہن سنگھ کو مشورہ دیتا ہے کہ مسئلے کی اصل جڑ کی طرف توجہ دو: بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے لیے تشدد کی لہر ایک مشکل چیلنج ہے۔ انھیں اپنی حکومت کے عقابوں کو بھی روکنا ہے، جیسے ان کے وزیر داخلہ چدم برم جو طاقت کے بہت زیادہ استعمال کا جواز پیش کرتے ہیں اور موجودہ احتجاج کو پرانی طویل بغاوت سے جوڑ کر اور کسی ثبوت کے بغیر الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان اور لشکر طیبہ ان ہنگاموں کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ من موہن سنگھ کو اس احتجاجی تحریک کو وہی سمجھنا چاہیے جو یہ ہے۔ یہ ان نو جوان کشمیریوں کے غصے اور محرومی کا احساس ہے جو اپنے آپ کو بقیہ بھارت سے الگ محسوس کرتے ہیں۔ وہ ریاست میں مواقع کے فقدان سے مایوسی کا شکار ہیں اور مقبوضہ لوگوں کی طرح رہنے سے تنگ آچکے ہیں۔ بھارت کے لاکھوں فوجی اور پولیس کے سپاہی کشمیر میں موجود ہیں اور وادی میں ہر جگہ ان کی موجودگی نظر آتی ہے۔ ان سکیورٹی فورسز کو قانونی تحفظ حاصل ہے جس کی وجہ سے یہ صورت حال طاقت کے غلط استعمال کو
مضمون
دعوت دیتی ہے۔ طارق علی لندن کے جریدہ لندن ریویو آف بکس کی ۲۲ جولائی ۲۰۱۰ ء کی اشاعت میں ایک مضہ Not Crushed, Merely Ignored میں بڑے دُکھ کے ساتھ پوری مغربی صحافت بشمول بائیں بازو کے دانش ور اور قلم کار سے شکایت کرتا ہے کہ کشمیر میں مظالم کے کیسے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں اور
انسانیت خاموش تماشائی ہے جتنی کہ پاکستان کی قیادت اور میڈیا بھی اس بے حسی کا شکار ہیں: کشمیر میں اموات کی خبریں تو غائب ہو جاتی ہیں، لیکن تہران کو جانے دیجیے، تبت کے معمولی سے واقعے کو بھی خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دشمنی پر فخر بھارت کے تشدد کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو مارنے کی کھلی چھٹی مل گئی جب کشمیر

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “تحریک پاکستان اور تحریک اسلامی”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »