اسلامی فلاحی ریاست

 0

اسلامی فلاحی ریاست
محمد وقاص
محنت پہلی کیشنز.
جی ٹی روڈ ۔ واہ کینٹ
بسم الله الرحمن الرحیم
پیش لفظ
اسلامی فلاحی ریاست استحکام اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اطاعت کے تقاضے کے طور پر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں مرتب و منتظم کرے اور جس طرح نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کا اہتمام کرے اسی طرح خاندانی اجتماعی معاشی، سیاسی اور ثقافتی زندگی کی تشکیل بھی ان اقتدار، اصولوں اور قوانین کے مطابق کرے جو اسلام نے دیئے ہیں۔ اسلام کا یہ وہ
اسلام محدود اور روایتی مفہوم میں ایک مذہب نہیں ایک مکمل دستور حیات اور جامع انقلابی تصور ہے جس کے تحت مسلمان اپنی اجتماعی اور سیاسی زندگی کو بھی اخلاقی اصولوں نظام زندگی ہے جو عقیدہ اور تزکیہ و تعمیر سیرت سے لے کر زندگی کے تمام پہلووں کے کی اس رہنمائی کی روشنی میں جو اللہ نے دی ہے تعمیر وتشکیل کو اپنے ایمان اور دنیوی اور بارے میں ضروری ہدایت فراہم کرتا ہے اور اس طرح انسان کی روحانی، اخلاقی ، انفرادی اخروی زندگی میں کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کے تقاضے کے طور پر اور اجتماعی زندگی میں یک رنگی پیدا کرتا ہے اور اسے ایک طرف اپنے خالق اور رب سے اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام مسلمانوں کے ایمان اور آئین کا فطری مطالبہ ہے ، یہ جوڑتا ہے تو دوسری طرف خلق اور مخلوق دونوں سے اس کے تعلقات کی حق و انصاف کی محض کوئی وقتی سیاسی ضرورت نہیں۔ نیز سیاسی اور معاشی زندگی کے لیے جو ہدایت اسلام بنیادوں پر صورت گری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اسلام کے لیے الدین کی اصطلاح نے دی ہے وہ دین کا حصہ ہے کوئی وقتی اختراع نہیں۔ استعمال کرتا ہے جو زندگی کے ہر شعبہ کے لیے ہدایت کی جامع ہے اور جو دنیا اور آخرت مغرب نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کی اس کوشش کو ” سیاسی اسلام ” دونوں میں کامیابی کی راہ دکھاتا ہے۔ اس راستے کو قرآن نے صراط مستقیم قرار دیا ہے اور Political Islam کا نام دیا ہے جو اسلام کے مزاج اور دعوت سے کوئی مناسبت اس پر راست روی کے ساتھ قائم رہنے ہی میں دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات نہیں رکھتا۔ اسلام ایک ناقابل تقسیم اکائی ہے اور روحانی اور مادی زندگی اور انفرادی اور اجتماعی امور سب کو اس کے رنگ میں رنگنا دین کا تقاضا اور اخروی کامیابی کے لیے
ہے۔
اسلام کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ اس نے روحانی بالید کی ، قرب الہی اور اخلاقی ضروری ہے۔ دین و دنیا کی تقسیم جو آج کی مغربی تہذیب اور اس کے زیر اثر وجود میں سربلندی کے لیے ترک دنیا کی تعلیم نہیں دی بلکہ دنیا کی زندگی کی تہذیب اور تطہیر کا راستہ آنے والے نظاموں کی شناخت ہے وہ اسلام کی ضد ہے۔ اقبال نے اس حقیقت کو ایک اختیار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کی دعا اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسے دنیا اور مصرع میں اس طرح ادا کیا ہے۔
آخرت دونوں کے حسنات سے نوازا جائے۔
ربنا آتنا فى الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنه وقنا عذاب
النار)
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی وقت کا اہم پیج یہ ہے کہ اس چنگیزی سے کس طرح نجات حاصل کی جائے اور
اخلاق کے ابدی اصولوں کی بنیاد پر سب کے لیے عدل اور حقیقی حریت کے حصول کی جدو
اسلام کے اس جامع تصور حیات کا تقاضا ہے کہ ایک مسلمان تعلق باللہ کے دائی جہد کی جائے تا کہ ایک انسان دوست، فلاحی اور شورائی ریاست کا قیام عمل میں آسکے اور
اسلامی فلاحی ریاست
اس طرح انسانیت کا مستقبل روشن ہو اور ایک ایسی تہذیب وجود میں آئے جو روحانی، اخلاقی اور دنیوی ہر حیثیت سے سب کے لیے خیر اور فلاح کا باعث ہو۔ ویسے تو ہمیشہ ہی سے دین اور ریاست کے تعلق کا مسئلہ اہل علم اور سیاسی پالیسی سازوں (Policy Makers) کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے لیکن بیسویں صدی میں مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف جو تحریکیں مسلم دنیا میں انھیں ان میں مذہب کے کردار اور پھر آزادی کے بعد سیاسی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے باب میں شریعت سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے اسلامی ریاست اور سیاست میں اسلام کے کردار کی صحیح تفہیم کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ نیز 11 ستمبر 2001ء کے واقعہ کے بعد جس طرح اسلام کے خلاف ایک عالمی مہم چلی ہے اور اس کے علی الرحم جس طرح عرب بہار” کی عالمی تحریک سارے نشیب و فراز کے باوجود اپنا اظہار کر رہی ہے اس کے پیش نظر اس بات کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے کہ اسلام نے سیاست، ریاست، معاشرت، معیشت، تعلیم اور ابلاغ عامہ کے بارے میں جو رہنمائی دی ہے اسے محکم دلائل کے ساتھ اور اسلام کے اصل ماخذ یعنی قرآن وسنت کی روشنی میں واضح کیا جائے تا که مسلمان نوجوان اپنی منزل مقصود کا صحیح شعور پیدا کر سکیں اور اس کے حصول کے لیے اس طریق کار سے سرگرم عمل ہوں جو انہیں اس منزل کی طرف پہنچا سکے۔ نیز یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مخالفین اور نادان دوست جو غلط فہمیاں اسلامی ریاست اور معیشت کے بارے میں پھیلاتے ہیں ان کا موثر جواب بھی دیا جا سکے۔ پچھلے سو سال میں جو دینی لٹریچر تیار ہوا ہے اس میں الحمد للہ ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا بڑا سامان موجود ہے۔ لہذا اس بات کی ضرورت تھی کہ جدید ذہن کو سامنے رکھ کر اور ان نکات کو گور بنا کر جو اس وقت بحث و گفتگو کا موضوع ہیں ایک مختصر کتاب کی شکل میں اسلامی نقطہ نظر کو پیش کیا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نوجوان حقق اور دانشور محمد وقاص نے بڑی محنت کے ساتھ اس ضرورت کو اپنی تازہ کتاب “اسلامی فلاحی ریاست ” میں پورا
اسلامی فلاحی ریاست
.

SKU: 6849817b03b2c8619f33cd66 Categories: ,

اسلامی فلاحی ریاست
محمد وقاص
محنت پہلی کیشنز.
جی ٹی روڈ ۔ واہ کینٹ
بسم الله الرحمن الرحیم
پیش لفظ
اسلامی فلاحی ریاست استحکام اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اطاعت کے تقاضے کے طور پر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں مرتب و منتظم کرے اور جس طرح نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کا اہتمام کرے اسی طرح خاندانی اجتماعی معاشی، سیاسی اور ثقافتی زندگی کی تشکیل بھی ان اقتدار، اصولوں اور قوانین کے مطابق کرے جو اسلام نے دیئے ہیں۔ اسلام کا یہ وہ
اسلام محدود اور روایتی مفہوم میں ایک مذہب نہیں ایک مکمل دستور حیات اور جامع انقلابی تصور ہے جس کے تحت مسلمان اپنی اجتماعی اور سیاسی زندگی کو بھی اخلاقی اصولوں نظام زندگی ہے جو عقیدہ اور تزکیہ و تعمیر سیرت سے لے کر زندگی کے تمام پہلووں کے کی اس رہنمائی کی روشنی میں جو اللہ نے دی ہے تعمیر وتشکیل کو اپنے ایمان اور دنیوی اور بارے میں ضروری ہدایت فراہم کرتا ہے اور اس طرح انسان کی روحانی، اخلاقی ، انفرادی اخروی زندگی میں کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کے تقاضے کے طور پر اور اجتماعی زندگی میں یک رنگی پیدا کرتا ہے اور اسے ایک طرف اپنے خالق اور رب سے اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام مسلمانوں کے ایمان اور آئین کا فطری مطالبہ ہے ، یہ جوڑتا ہے تو دوسری طرف خلق اور مخلوق دونوں سے اس کے تعلقات کی حق و انصاف کی محض کوئی وقتی سیاسی ضرورت نہیں۔ نیز سیاسی اور معاشی زندگی کے لیے جو ہدایت اسلام بنیادوں پر صورت گری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اسلام کے لیے الدین کی اصطلاح نے دی ہے وہ دین کا حصہ ہے کوئی وقتی اختراع نہیں۔ استعمال کرتا ہے جو زندگی کے ہر شعبہ کے لیے ہدایت کی جامع ہے اور جو دنیا اور آخرت مغرب نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کی اس کوشش کو ” سیاسی اسلام ” دونوں میں کامیابی کی راہ دکھاتا ہے۔ اس راستے کو قرآن نے صراط مستقیم قرار دیا ہے اور Political Islam کا نام دیا ہے جو اسلام کے مزاج اور دعوت سے کوئی مناسبت اس پر راست روی کے ساتھ قائم رہنے ہی میں دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات نہیں رکھتا۔ اسلام ایک ناقابل تقسیم اکائی ہے اور روحانی اور مادی زندگی اور انفرادی اور اجتماعی امور سب کو اس کے رنگ میں رنگنا دین کا تقاضا اور اخروی کامیابی کے لیے
ہے۔
اسلام کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ اس نے روحانی بالید کی ، قرب الہی اور اخلاقی ضروری ہے۔ دین و دنیا کی تقسیم جو آج کی مغربی تہذیب اور اس کے زیر اثر وجود میں سربلندی کے لیے ترک دنیا کی تعلیم نہیں دی بلکہ دنیا کی زندگی کی تہذیب اور تطہیر کا راستہ آنے والے نظاموں کی شناخت ہے وہ اسلام کی ضد ہے۔ اقبال نے اس حقیقت کو ایک اختیار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کی دعا اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسے دنیا اور مصرع میں اس طرح ادا کیا ہے۔
آخرت دونوں کے حسنات سے نوازا جائے۔
ربنا آتنا فى الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنه وقنا عذاب
النار)
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی وقت کا اہم پیج یہ ہے کہ اس چنگیزی سے کس طرح نجات حاصل کی جائے اور
اخلاق کے ابدی اصولوں کی بنیاد پر سب کے لیے عدل اور حقیقی حریت کے حصول کی جدو
اسلام کے اس جامع تصور حیات کا تقاضا ہے کہ ایک مسلمان تعلق باللہ کے دائی جہد کی جائے تا کہ ایک انسان دوست، فلاحی اور شورائی ریاست کا قیام عمل میں آسکے اور
اسلامی فلاحی ریاست
اس طرح انسانیت کا مستقبل روشن ہو اور ایک ایسی تہذیب وجود میں آئے جو روحانی، اخلاقی اور دنیوی ہر حیثیت سے سب کے لیے خیر اور فلاح کا باعث ہو۔ ویسے تو ہمیشہ ہی سے دین اور ریاست کے تعلق کا مسئلہ اہل علم اور سیاسی پالیسی سازوں (Policy Makers) کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے لیکن بیسویں صدی میں مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف جو تحریکیں مسلم دنیا میں انھیں ان میں مذہب کے کردار اور پھر آزادی کے بعد سیاسی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے باب میں شریعت سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے اسلامی ریاست اور سیاست میں اسلام کے کردار کی صحیح تفہیم کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ نیز 11 ستمبر 2001ء کے واقعہ کے بعد جس طرح اسلام کے خلاف ایک عالمی مہم چلی ہے اور اس کے علی الرحم جس طرح عرب بہار” کی عالمی تحریک سارے نشیب و فراز کے باوجود اپنا اظہار کر رہی ہے اس کے پیش نظر اس بات کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے کہ اسلام نے سیاست، ریاست، معاشرت، معیشت، تعلیم اور ابلاغ عامہ کے بارے میں جو رہنمائی دی ہے اسے محکم دلائل کے ساتھ اور اسلام کے اصل ماخذ یعنی قرآن وسنت کی روشنی میں واضح کیا جائے تا که مسلمان نوجوان اپنی منزل مقصود کا صحیح شعور پیدا کر سکیں اور اس کے حصول کے لیے اس طریق کار سے سرگرم عمل ہوں جو انہیں اس منزل کی طرف پہنچا سکے۔ نیز یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مخالفین اور نادان دوست جو غلط فہمیاں اسلامی ریاست اور معیشت کے بارے میں پھیلاتے ہیں ان کا موثر جواب بھی دیا جا سکے۔ پچھلے سو سال میں جو دینی لٹریچر تیار ہوا ہے اس میں الحمد للہ ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا بڑا سامان موجود ہے۔ لہذا اس بات کی ضرورت تھی کہ جدید ذہن کو سامنے رکھ کر اور ان نکات کو گور بنا کر جو اس وقت بحث و گفتگو کا موضوع ہیں ایک مختصر کتاب کی شکل میں اسلامی نقطہ نظر کو پیش کیا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نوجوان حقق اور دانشور محمد وقاص نے بڑی محنت کے ساتھ اس ضرورت کو اپنی تازہ کتاب “اسلامی فلاحی ریاست ” میں پورا
اسلامی فلاحی ریاست
.

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “اسلامی فلاحی ریاست”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »