ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، مارچ ۲۰۱۵ء
۵۷
اسلامی معاشی ماڈل کے خدوخال
عدل، انفاق اور یک جہتی پر تمام بڑے مسلم مفکرین نے زور دیا ہے۔ ایڈم سمتھ (م : ۷۹۰ائی ) سے سات صدیاں قبل علامہ شمس الدین سرخسی (م : ۱۰۹۰ئ) لکھتے ہیں: “کسان کو اپنے لباس کے لیے جولاہے کے کام کی ضرورت ہے اور جوالا ہے کو اپنی خوراک اور کپڑوں کے لیے کسان کے کام کی ضرورت ہے. ان میں سے ہر ایک اپنے کام کے ذریعے دوسرے کی مدد کرتا ہے”۔ علامہ سرخی سے ایک صدی بعد دوسرے عالم جعفر و مشقی (م : ۱۷۵ائی ) اس نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں : ”مدت عمر قلیل ہونے کی وجہ سے کوئی فرد بھی تمام صنعتوں میں اپنے آپ کو نہیں کھپا سکتا۔ اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا، تو وہ کسی بھی صنعت میں اپنے آپ کو ماہر نہیں بنا سکے گا۔ تمام صنعتیں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ تعمیر کے لیے بڑھئی کی ضرورت ہے اور بڑھئی کو لوہار کی ضرورت ہے، لوہار کو کان کن کی ضرورت ہے اور تمام صنعتوں کے لیے جگہ اور عمارت کی ضرورت ہے۔ اس لیے لوگوں کو مجبوراً اپنی ضرورت
کے لیے شہروں میں یک جا ہونا پڑتا ہے تا کہ ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کر سکیں”۔ علامه ابن خلدون (م: ۱۴۰۶ئ) نے ایڈم سمتھ سے تین صدیاں قبل تقسیم کار، معاشی ترقی میں تخصص اور انسانی ترقی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا تھا: ” یہ بات سب جانتے ہیں اور یہ بہت واضح ہے کہ انسان انفرادی طور پر اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی تمام ضروریات پوری کر سکیں۔ انھیں اس مقصد کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے۔ ایسی ضروریات جو کہ افراد کا ایک گروہ مل کر باہمی تعاون سے پورا کر سکتا ہے، ان ضروریات سے کئی گنا زیادہ ہیں جو وہ انفرادی طور پر پورا کر سکنے کے قابل ہیں۔ وہ اس بات کی سائنسی وجوہ بیان کرتے ہیں کہ تجارت کے نتیجے میں ترقی کو کیسے فروغ حاصل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ” ترقی کا انحصار ستاروں یا سونے چاندی کی کانوں پر نہیں ہوتا بلکہ اس کا انحصار معاشی سرگرمی اور تقسیم کار کے اصول پر ہوتا ہے جو بذات خود منڈی کی وسعت اور اوزاروں (مشینوں) پر منحصر ہے ، جب کہ اوزاروں (مشینوں) کے لیے بچتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچت کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ”لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے بعد جو کچھ بچ جائے وہ بچت ہے“۔ منڈی کی وسعت میں اضافے کے نتیجے میں اشیا و خدمات کی طلب تیزی سے بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں صنعتوں میں پھیلاؤ آتا ہے،
اسلامی معاشی ماڈل کے خدوخال
₨ 0
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، مارچ ۲۰۱۵ء
۵۷
اسلامی معاشی ماڈل کے خدوخال
عدل، انفاق اور یک جہتی پر تمام بڑے مسلم مفکرین نے زور دیا ہے۔ ایڈم سمتھ (م : ۷۹۰ائی ) سے سات صدیاں قبل علامہ شمس الدین سرخسی (م : ۱۰۹۰ئ) لکھتے ہیں: “کسان کو اپنے لباس کے لیے جولاہے کے کام کی ضرورت ہے اور جوالا ہے کو اپنی خوراک اور کپڑوں کے لیے کسان کے کام کی ضرورت ہے. ان میں سے ہر ایک اپنے کام کے ذریعے دوسرے کی مدد کرتا ہے”۔ علامہ سرخی سے ایک صدی بعد دوسرے عالم جعفر و مشقی (م : ۱۷۵ائی ) اس نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں : ”مدت عمر قلیل ہونے کی وجہ سے کوئی فرد بھی تمام صنعتوں میں اپنے آپ کو نہیں کھپا سکتا۔ اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا، تو وہ کسی بھی صنعت میں اپنے آپ کو ماہر نہیں بنا سکے گا۔ تمام صنعتیں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ تعمیر کے لیے بڑھئی کی ضرورت ہے اور بڑھئی کو لوہار کی ضرورت ہے، لوہار کو کان کن کی ضرورت ہے اور تمام صنعتوں کے لیے جگہ اور عمارت کی ضرورت ہے۔ اس لیے لوگوں کو مجبوراً اپنی ضرورت
کے لیے شہروں میں یک جا ہونا پڑتا ہے تا کہ ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کر سکیں”۔ علامه ابن خلدون (م: ۱۴۰۶ئ) نے ایڈم سمتھ سے تین صدیاں قبل تقسیم کار، معاشی ترقی میں تخصص اور انسانی ترقی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا تھا: ” یہ بات سب جانتے ہیں اور یہ بہت واضح ہے کہ انسان انفرادی طور پر اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی تمام ضروریات پوری کر سکیں۔ انھیں اس مقصد کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے۔ ایسی ضروریات جو کہ افراد کا ایک گروہ مل کر باہمی تعاون سے پورا کر سکتا ہے، ان ضروریات سے کئی گنا زیادہ ہیں جو وہ انفرادی طور پر پورا کر سکنے کے قابل ہیں۔ وہ اس بات کی سائنسی وجوہ بیان کرتے ہیں کہ تجارت کے نتیجے میں ترقی کو کیسے فروغ حاصل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ” ترقی کا انحصار ستاروں یا سونے چاندی کی کانوں پر نہیں ہوتا بلکہ اس کا انحصار معاشی سرگرمی اور تقسیم کار کے اصول پر ہوتا ہے جو بذات خود منڈی کی وسعت اور اوزاروں (مشینوں) پر منحصر ہے ، جب کہ اوزاروں (مشینوں) کے لیے بچتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچت کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ”لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے بعد جو کچھ بچ جائے وہ بچت ہے“۔ منڈی کی وسعت میں اضافے کے نتیجے میں اشیا و خدمات کی طلب تیزی سے بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں صنعتوں میں پھیلاؤ آتا ہے،
Reviews
There are no reviews yet.