اسلام ہے زندگی

 0

اسلام ہے زندگی ۲
رابرٹ رائٹ نے اس اعتراض کا بھی بھر پور جواب دیا ہے جو مغرب کے دانش ور مسلمانوں کے مظاہروں میں تشدد کے عصر سے آجانے پر کر رہے ہیں۔ ہم بھی تشدد کو کسی اعتبار سے صحیح نہیں سجھتے بلکہ اپنے مقصد کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسانی حقائق سے صرف نظر بھی ممکن نہیں ۔ اس اعتراض کا جواب ہم خود دینے کے بجائے رابرٹ رائٹ کے مضمون کا متعلقہ حصہ دینا مناسب سمجھتے ہیں:
جوں جوں اس واقعے کے بارے میں تفصیلات ہمارے سامنے آ رہی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بے ساختہ اشتعال انگیزی نہیں تھا۔ کارٹونوں کے خلاف مسلمانوں کا فوری رد عمل تشدد کا نہیں تھا، بلکہ ڈنمارک میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے اور ڈنمارک کے مسلمانوں نے ایک مہم چلائی جوکئی مہینے چلتی رہی لیکن دنیا کی راڈر اسکرین پر اس کا پتا نہ چلا۔ ان سرگرم لوگوں کو جب ڈنمارک کے سیاست دانوں نے جھڑک دیا اور انھیں مسلم ریاستوں کے طاقت ور سیاست دانوں سے حمایت ملی تو بڑے مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ان میں سے بعض مظاہرے پر تشدد ہوئے لیکن بیش تر مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومتوں، دہشت گردگروپوں اور دوسرے سیاسی عناصر نے منظم کیے۔
دوسری طرف ، کون کہتا ہے کہ اپنی بات پہنچانے کے لیے تشد د استعمال کرنے کے لیے کوئی امریکی روایت نہیں ہے ۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے فسادات کو یاد کیجیے جو ۱۹۶۵ء کے وائس رائٹ فسادات سے شروع ہوئے جس میں ۳۴ آدمی مارے گئے (ان فسادات کے نتیجے میں سیاہ فام آبادی کو زیادہ مقام ملا ) ۔ سیاہ فاموں کی ترقی کی قومی انجمن ۵۰ کے عشرے سے جس شو کے خلاف احتجاج کر رہی تھی ۱۹۶۶ ء میں جاکرسی بی ایس نے اس پر کارروائی کی۔ کوئی رابطہ ثابت تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ۶۵ کے عشرے کے فسادات نے میڈیا میں سیاہ فام لوگوں کی تصویر کشی ( اور مضحکہ خیزی) کے
بارے میں حساسیت کو بڑھا دیا۔ اسی کو حساس تر خود احتسابی کہا جاسکتا ہے۔
۳۶

SKU: 6849817303b2c8619f33cb10 Categories: ,

اسلام ہے زندگی ۲
رابرٹ رائٹ نے اس اعتراض کا بھی بھر پور جواب دیا ہے جو مغرب کے دانش ور مسلمانوں کے مظاہروں میں تشدد کے عصر سے آجانے پر کر رہے ہیں۔ ہم بھی تشدد کو کسی اعتبار سے صحیح نہیں سجھتے بلکہ اپنے مقصد کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسانی حقائق سے صرف نظر بھی ممکن نہیں ۔ اس اعتراض کا جواب ہم خود دینے کے بجائے رابرٹ رائٹ کے مضمون کا متعلقہ حصہ دینا مناسب سمجھتے ہیں:
جوں جوں اس واقعے کے بارے میں تفصیلات ہمارے سامنے آ رہی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بے ساختہ اشتعال انگیزی نہیں تھا۔ کارٹونوں کے خلاف مسلمانوں کا فوری رد عمل تشدد کا نہیں تھا، بلکہ ڈنمارک میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے اور ڈنمارک کے مسلمانوں نے ایک مہم چلائی جوکئی مہینے چلتی رہی لیکن دنیا کی راڈر اسکرین پر اس کا پتا نہ چلا۔ ان سرگرم لوگوں کو جب ڈنمارک کے سیاست دانوں نے جھڑک دیا اور انھیں مسلم ریاستوں کے طاقت ور سیاست دانوں سے حمایت ملی تو بڑے مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ان میں سے بعض مظاہرے پر تشدد ہوئے لیکن بیش تر مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومتوں، دہشت گردگروپوں اور دوسرے سیاسی عناصر نے منظم کیے۔
دوسری طرف ، کون کہتا ہے کہ اپنی بات پہنچانے کے لیے تشد د استعمال کرنے کے لیے کوئی امریکی روایت نہیں ہے ۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے فسادات کو یاد کیجیے جو ۱۹۶۵ء کے وائس رائٹ فسادات سے شروع ہوئے جس میں ۳۴ آدمی مارے گئے (ان فسادات کے نتیجے میں سیاہ فام آبادی کو زیادہ مقام ملا ) ۔ سیاہ فاموں کی ترقی کی قومی انجمن ۵۰ کے عشرے سے جس شو کے خلاف احتجاج کر رہی تھی ۱۹۶۶ ء میں جاکرسی بی ایس نے اس پر کارروائی کی۔ کوئی رابطہ ثابت تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ۶۵ کے عشرے کے فسادات نے میڈیا میں سیاہ فام لوگوں کی تصویر کشی ( اور مضحکہ خیزی) کے
بارے میں حساسیت کو بڑھا دیا۔ اسی کو حساس تر خود احتسابی کہا جاسکتا ہے۔
۳۶

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “اسلام ہے زندگی”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »