ترجمان القرآن، فروری ۲۰۱۰ء
۱۹
اشارات
انھیں افغانستان، پاکستان، گوانتانامو اور دوسری جیلوں میں موجود لوگوں کو رہا کر دیا چاہیے تمام عالی اصولوں کے خلاف انھیں اتنے برس جیل میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ انھیں اپنی بلیک لسٹ مکمل ختم کر دینا چاہیے تھی اور مزید فوج نہیں بھیجنا چاہیے تھی۔ جو وہ کہتے ہیں وہ کرنا چاہیے تھا۔
آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ حملہ آوروں کی غارت گری اور سفاکیت کے خلاف ہمارے مسلمان اور غیور عوام کی مزاحمت اور جہاد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ وشن ختلف تھکنڈوں سے ان کی قوت کو نہ کمزور کر سکتا ہے اور نہ ختم کر سکتا ہے۔ انھوں نے ماضی میں بھی کوشش کی ہے اور اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے بہادر مسلمان عوام اور ان کی قیادت اسلامی امارت کو الجھائیں۔ کبھی وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ جو مجاہدین جہاد کا راستہ ترک کرنے کے لیے تیار ہوں ، وہ انہیں مال و دولت، روزگار اور ملک سے با ہر ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں گے وہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین نے رقم حاصل کرنے کے لیے، یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے ہتھیار اٹھائے ہیں یا انھیں مجبور کیا گیا ہے کہ ہتھیار اٹھا ئیں۔ یہ بے بنیاد اور مہمل بات ہے۔ اگر اسلامی امارت کے مجاہدین کا مقصد ماری مقاصد حاصل کرنا ہوتا تو وہ پہلے بھی حملہ آوروں کے غلبے کو تسلیم کر لیتے اور ان کی حمایت کرتے۔ ہر چیز ان کی پہنچ میں تھی ، آرام دہ زندگی، مال و دولت اور اقتدار لیکن اسلامی امارت عقیدے نمبر اور اپنی سرزمین کا مادی مفادات کے لیے سودا نہیں کرے گی اور نہ ذاتی مراعات اور دھمکیوں کی بنیاد پر ان کو دبایا جا سکے گا۔ افغانستان کے غیور عوام کی تاریخ میں اس طرح کا گھناؤنا کھیل کبھی
کا میاب نہیں ہوا۔
مجوزه افغان پالیسی بنیادی خطوط
طالبان قیادت کے یہ بیانات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں اور بحران سے نکلنے کے لیے ابتدائی خطوط کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکا اور پاکستان دونوں کے لیے صحیح افغان پالیسی وہی ہو سکتی ہے جس میں مندرجہ ذیل امور کومرکزی حیثیت حاصل ہو۔
امریکا اور افغانستان
₨ 0
ترجمان القرآن، فروری ۲۰۱۰ء
۱۹
اشارات
انھیں افغانستان، پاکستان، گوانتانامو اور دوسری جیلوں میں موجود لوگوں کو رہا کر دیا چاہیے تمام عالی اصولوں کے خلاف انھیں اتنے برس جیل میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ انھیں اپنی بلیک لسٹ مکمل ختم کر دینا چاہیے تھی اور مزید فوج نہیں بھیجنا چاہیے تھی۔ جو وہ کہتے ہیں وہ کرنا چاہیے تھا۔
آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ حملہ آوروں کی غارت گری اور سفاکیت کے خلاف ہمارے مسلمان اور غیور عوام کی مزاحمت اور جہاد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ وشن ختلف تھکنڈوں سے ان کی قوت کو نہ کمزور کر سکتا ہے اور نہ ختم کر سکتا ہے۔ انھوں نے ماضی میں بھی کوشش کی ہے اور اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے بہادر مسلمان عوام اور ان کی قیادت اسلامی امارت کو الجھائیں۔ کبھی وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ جو مجاہدین جہاد کا راستہ ترک کرنے کے لیے تیار ہوں ، وہ انہیں مال و دولت، روزگار اور ملک سے با ہر ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں گے وہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین نے رقم حاصل کرنے کے لیے، یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے ہتھیار اٹھائے ہیں یا انھیں مجبور کیا گیا ہے کہ ہتھیار اٹھا ئیں۔ یہ بے بنیاد اور مہمل بات ہے۔ اگر اسلامی امارت کے مجاہدین کا مقصد ماری مقاصد حاصل کرنا ہوتا تو وہ پہلے بھی حملہ آوروں کے غلبے کو تسلیم کر لیتے اور ان کی حمایت کرتے۔ ہر چیز ان کی پہنچ میں تھی ، آرام دہ زندگی، مال و دولت اور اقتدار لیکن اسلامی امارت عقیدے نمبر اور اپنی سرزمین کا مادی مفادات کے لیے سودا نہیں کرے گی اور نہ ذاتی مراعات اور دھمکیوں کی بنیاد پر ان کو دبایا جا سکے گا۔ افغانستان کے غیور عوام کی تاریخ میں اس طرح کا گھناؤنا کھیل کبھی
کا میاب نہیں ہوا۔
مجوزه افغان پالیسی بنیادی خطوط
طالبان قیادت کے یہ بیانات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں اور بحران سے نکلنے کے لیے ابتدائی خطوط کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکا اور پاکستان دونوں کے لیے صحیح افغان پالیسی وہی ہو سکتی ہے جس میں مندرجہ ذیل امور کومرکزی حیثیت حاصل ہو۔
Reviews
There are no reviews yet.