بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات

 0

پاکستان کسی بھی ملک سے معاملات طے کرتے ہوئے غیر مساوی حیثیت تسلیم نہیں کر سکتا۔ ہندوستان کی بالا دستی اس علاقے میں ہمیں نہ قبول تھی، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگی اور بھی ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ہونی چاہیے، ہم دوستی چاہتے ہیں لیکن یہ دوستی عزت اور وقار، خود مختاری اور تاریخی، دینی، نظریاتی اور سیاسی مقام کے تحفظ کے اصول پر مبنی ہونی چاہیے۔ اگر چہ ہم بہت سی خرابیوں کے باعث اپنا تاریخی کردار ادا نہیں کر سکے، لیکن ہمارا ماضی بڑا شاندار ہے اور ہم ہمت
ہارنے والے لوگ نہیں ہیں۔
دس بنیادی اصول
آخر میں ان دس بنیادی معاملات کا حوالہ دوں گا، جن کے سلسلے میں یقین دھانی کی بنیاد پر ہی ہندوستان کے ساتھ دوستی کی بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
دو قومی نظریه

سب سے پہلی چیز دو قومی نظریہ ہے۔ یہ ہماری بنیاد ہے ہمیں اس کا تحفظ کرنا ہے، اسلامی نظریے اور اسلامی نظام کو مضبوط بنانا ہے اور یہاں اسلامی تشخص، اسلامی ثقافت اور اسلامی کلچر کو فروغ دینا ہے، کسی مشتری کلچر کو نہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والی یہ بات اگر درست ہے تو یہ والی یہ بات اگر ہے تو بڑھی افسوس ناک بات ہے۔ وزراء حضرات اس کی وضاحت کر سکتے ہیں، کہ عام طور جب بھی کوئی سر براہ مملکت پاکستان آتا تھا تو اس کی آمد پر اب وقت شہادت ہے آیا ” کی دھن بجائی جاتی تھی۔ لیکن اس مرتبہ راجیو صاحب کی آمد پر جو دھن بجائی گئی ہے وہ تھی ہم ایک ہیں یہ کیسی عجیب بات کھی گئی ہے۔ ہم ایک نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ایک ہو سکتے ہیں، ہم لڑ کر ہندوستان سے الگ ہوئے ہیں، ہم نے اپنے نظریے کے لیے قربانیاں دے کر اپنی آزادی حاصل کی ہے۔ ہم کسی کے باج گزار بننے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اپنی تہذیب اور تمدن کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمارا اور ہندوؤں کا تمدن بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ وہ بت پرست ہیں ہم اور توحید پرست ہیں۔ کسی بھی پہلو سے دیکھ لیجیئے ، پر کھ لیجیئے، ہم ان سے جدا ہیں۔ ان سے مختلف ہیں۔ ہم ایک نہیں ہو سکتے۔
پاکستان، بھارت اور عالم اسلام
·
Ar

SKU: 6849817303b2c8619f33c980 Categories: ,

پاکستان کسی بھی ملک سے معاملات طے کرتے ہوئے غیر مساوی حیثیت تسلیم نہیں کر سکتا۔ ہندوستان کی بالا دستی اس علاقے میں ہمیں نہ قبول تھی، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگی اور بھی ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ہونی چاہیے، ہم دوستی چاہتے ہیں لیکن یہ دوستی عزت اور وقار، خود مختاری اور تاریخی، دینی، نظریاتی اور سیاسی مقام کے تحفظ کے اصول پر مبنی ہونی چاہیے۔ اگر چہ ہم بہت سی خرابیوں کے باعث اپنا تاریخی کردار ادا نہیں کر سکے، لیکن ہمارا ماضی بڑا شاندار ہے اور ہم ہمت
ہارنے والے لوگ نہیں ہیں۔
دس بنیادی اصول
آخر میں ان دس بنیادی معاملات کا حوالہ دوں گا، جن کے سلسلے میں یقین دھانی کی بنیاد پر ہی ہندوستان کے ساتھ دوستی کی بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
دو قومی نظریه

سب سے پہلی چیز دو قومی نظریہ ہے۔ یہ ہماری بنیاد ہے ہمیں اس کا تحفظ کرنا ہے، اسلامی نظریے اور اسلامی نظام کو مضبوط بنانا ہے اور یہاں اسلامی تشخص، اسلامی ثقافت اور اسلامی کلچر کو فروغ دینا ہے، کسی مشتری کلچر کو نہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والی یہ بات اگر درست ہے تو یہ والی یہ بات اگر ہے تو بڑھی افسوس ناک بات ہے۔ وزراء حضرات اس کی وضاحت کر سکتے ہیں، کہ عام طور جب بھی کوئی سر براہ مملکت پاکستان آتا تھا تو اس کی آمد پر اب وقت شہادت ہے آیا ” کی دھن بجائی جاتی تھی۔ لیکن اس مرتبہ راجیو صاحب کی آمد پر جو دھن بجائی گئی ہے وہ تھی ہم ایک ہیں یہ کیسی عجیب بات کھی گئی ہے۔ ہم ایک نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ایک ہو سکتے ہیں، ہم لڑ کر ہندوستان سے الگ ہوئے ہیں، ہم نے اپنے نظریے کے لیے قربانیاں دے کر اپنی آزادی حاصل کی ہے۔ ہم کسی کے باج گزار بننے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اپنی تہذیب اور تمدن کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمارا اور ہندوؤں کا تمدن بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ وہ بت پرست ہیں ہم اور توحید پرست ہیں۔ کسی بھی پہلو سے دیکھ لیجیئے ، پر کھ لیجیئے، ہم ان سے جدا ہیں۔ ان سے مختلف ہیں۔ ہم ایک نہیں ہو سکتے۔
پاکستان، بھارت اور عالم اسلام
·
Ar

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »