حکومت کی کارکردگی اور درپیش چیلنج

 0

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، نومبر ۲۰۱۸ء
۱۶
اشارات
لیکن اب نہیں لیں گے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے ۔ کلرکوں نے قلم دوات تک اپنے پاس سے لا کر کام کیا ہے۔ یہ جذبہ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ پرمٹوں کا چکر ، اقربا پروری، زمینیں، مہاجرین کے حقوق پر دست درازی اور بی ڈی ممبر سٹم سے کر پشن بڑھتی چلی گئی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے زمانے میں صنعتی اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس سے اداروں میں سیاسی مداخلت زیادہ ہوگئی، جس نے مزید کرپشن کا راستہ کھول دیا اور خاص طور پر بے نظیر صاحبہ اور نواز شریف صاحب اور مشرف صاحب کے زمانے میں تو یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں کرپشن تھی ضرور لیکن اس نے وبائی شکل اختیار نہیں کی تھی ، اس کے بعد یہ ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی۔ ضرورت ہے کہ جہاں اور جب احتساب ہو، سب کا ہو۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ احتساب کے ذریعے انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ احتساب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور نہ
جمہوریت کو بچانے کے نام پر اپنی بد عنوانی پر پردہ ڈالا جائے یا ڈالنے کی اجازت دی جائے ۔ اس حوالے سے موجودہ نیب کی کارکردگی افسوس ناک ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ موجودہ نیب اور اس سے پہلے کی زیب بھی وہ تھی جو مسلم لیگ نون اور پی پی کے مشورے سے بنی تھی۔ میں خود اس کے حق میں تھا کہ حزب اختلاف سے نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کا سر براہ ہونا چاہیے۔ کو، ہم ۱۸ ویں ترمیم میں اسے لانہیں سکے لیکن یہ ہماری خواہش تھی۔ اس کے بعد اس پر عمل ہوا اور چودھری نثار علی خاں نے اس پر بڑی محنت اور دیانت داری سے کام کیا۔ ان کے استعفے کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی اس روایت کو اس حد تک اور اُس سطح پر تو نہیں لیکن بہر حال اسے کچھ نہ کچھ قائم رکھا۔ اس کے بعد نواز شریف کے دور میں یہ بالکل غیر موثر ہو گئی اور صاف نظر آنے لگا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور سب سے بڑھ کر نیب اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح ان شبہات کو روز بہ روز تقویت مل رہی ہے کہ احتساب کے نام پر ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے کھیل کھیلا جارہا ہے یا پھر بلیک میل کیا جارہا ہے۔ اپنا کام نکالا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم جس طرح بنائی اور پالی پوسی گئی ، اسی طرح اسے تقسیم کیا گیا ہے۔ تاہم آج بھی اسے سیاسی درجہ حرارت حسب ضرورت بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور شاید آئندہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہ بڑی پیچیدہ اور ملک کے لیے اور خود جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑی

SKU: 6849817303b2c8619f33cad8 Categories: , ,

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، نومبر ۲۰۱۸ء
۱۶
اشارات
لیکن اب نہیں لیں گے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے ۔ کلرکوں نے قلم دوات تک اپنے پاس سے لا کر کام کیا ہے۔ یہ جذبہ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ پرمٹوں کا چکر ، اقربا پروری، زمینیں، مہاجرین کے حقوق پر دست درازی اور بی ڈی ممبر سٹم سے کر پشن بڑھتی چلی گئی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے زمانے میں صنعتی اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس سے اداروں میں سیاسی مداخلت زیادہ ہوگئی، جس نے مزید کرپشن کا راستہ کھول دیا اور خاص طور پر بے نظیر صاحبہ اور نواز شریف صاحب اور مشرف صاحب کے زمانے میں تو یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں کرپشن تھی ضرور لیکن اس نے وبائی شکل اختیار نہیں کی تھی ، اس کے بعد یہ ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی۔ ضرورت ہے کہ جہاں اور جب احتساب ہو، سب کا ہو۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ احتساب کے ذریعے انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ احتساب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور نہ
جمہوریت کو بچانے کے نام پر اپنی بد عنوانی پر پردہ ڈالا جائے یا ڈالنے کی اجازت دی جائے ۔ اس حوالے سے موجودہ نیب کی کارکردگی افسوس ناک ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ موجودہ نیب اور اس سے پہلے کی زیب بھی وہ تھی جو مسلم لیگ نون اور پی پی کے مشورے سے بنی تھی۔ میں خود اس کے حق میں تھا کہ حزب اختلاف سے نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کا سر براہ ہونا چاہیے۔ کو، ہم ۱۸ ویں ترمیم میں اسے لانہیں سکے لیکن یہ ہماری خواہش تھی۔ اس کے بعد اس پر عمل ہوا اور چودھری نثار علی خاں نے اس پر بڑی محنت اور دیانت داری سے کام کیا۔ ان کے استعفے کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی اس روایت کو اس حد تک اور اُس سطح پر تو نہیں لیکن بہر حال اسے کچھ نہ کچھ قائم رکھا۔ اس کے بعد نواز شریف کے دور میں یہ بالکل غیر موثر ہو گئی اور صاف نظر آنے لگا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور سب سے بڑھ کر نیب اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح ان شبہات کو روز بہ روز تقویت مل رہی ہے کہ احتساب کے نام پر ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے کھیل کھیلا جارہا ہے یا پھر بلیک میل کیا جارہا ہے۔ اپنا کام نکالا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم جس طرح بنائی اور پالی پوسی گئی ، اسی طرح اسے تقسیم کیا گیا ہے۔ تاہم آج بھی اسے سیاسی درجہ حرارت حسب ضرورت بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور شاید آئندہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہ بڑی پیچیدہ اور ملک کے لیے اور خود جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑی

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “حکومت کی کارکردگی اور درپیش چیلنج”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »