اقدار تمام بنی نوع انسان کے برابر حقوق مہذب رویے کو اپناتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ ایک قانون کے مطابق سلوک اختیار کرنے کا حق یہ سب حقوق نئے نئے خطرات کی زد میں آچکے ہیں اور مسلسل پامال ہورہے ہیں۔ اور کیا صرف گوانتانا موبے ابوغریب اور بگرام ہی رستے ہوئے ناسور ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مجرموں کی حوالگی اور زبردستی تفتیش جیسے غیر مہذب افعال نے اس مہذب دنیا کے کئی ممالک کو آلودہ کر دیا ہے؟ Huxley’s Solzhenitsyn’s GulagelBrave, Orwell’s 1984, New World کے روح
فرسا واقعات آزاد دنیا کی جنت کے خوش کن تصور کو ہوا میں تحلیل کر رہے ہیں۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ہوس ملک گیری اور معصوم و بے گناہ انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے باعث اس کرہ ارض پر صدیوں سے مروج بین الاقوامی قانون اور پھر جنگ اور امن کے ادوار میں مہذب اخلاقیات کا نظام اب خطرناک حد تک اپنی موت کی طرف رواں دواں ہے۔
بین الاقوامی قانون اور جنگ اور امن میں مہذب رویے کے بارے میں جو کچھ اتفاق راے صدیوں میں حاصل ہوا تھا، وہ سب خطرے میں ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی قوانین کے نت نئے اور ناتراشیدہ تصورات کا یک طرفہ اور من مانے طور پر تعین بھی کیا جارہا ہے اور عملاً انھیں لاگو بھی کر دیا گیا ہے۔ طاقت ور ممالک ، دوسرے ممالک اور اقوام کو اپنی دھونس کے ذریعے صرف اس لیے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کمزور ہیں ۔ ایک بار پھر اس کرہ ارض کے افق پر سامراجی اور غاصبانہ تسلط اور بالادستی کے منحوس سائے لہرا رہے ہیں۔ قومی خود مختاری کا تقدس ختم ہونے کو ہے اور بین الاقوامی حدود کی پابندی اب گئے وقتوں کی بات ہے۔ اقوام متحدہ روز بروز بے معنی ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں متعین امریکی نمایندے مسٹر بولٹن نے یہ کہنے کی جسارت کی ہے کہ اقوام متحدہ اجازت دے نہ دئے امریکا ایران پر حملہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دیگر ممالک میں یک طرفہ مداخلتیں اور زبردستی حکومتی تبدیلی، جائز قرار دے دی گئی ہے۔ طاقت ور اقوام کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے اپنے دفاع ( self defence) کے تصور کو نئے معنی پہنائے جارہے ہیں۔ امن اور بین الاقوامی طاقتی توازن کے لیے خطرہ دن
بدن بڑھتا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ پُر تشد د تنازعات کے امکانات روز افزوں ہیں۔ ان تمام حالات کا اثر مختلف ممالک کے اندر بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں عوام اور مختلف گروہ حکومتی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کئی ایک ممالک اپنے ہی عوام کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بلا شک و شبہ اس ‘ جنگ’ کے ضمنی (collateral) نقصانات خوفناک تناسب سے
بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اب انہیں محض ضمنی سمجھنا خوفناک غیر حقیقت پسندی ہوگی ! ! – ایک بنیادی سوال جس کا ہر پہلو سے جائزہ بہت ہی ضروری ہے دہشت گردی کے خلاف مبینہ جنگ
دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ
₨ 0
اقدار تمام بنی نوع انسان کے برابر حقوق مہذب رویے کو اپناتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ ایک قانون کے مطابق سلوک اختیار کرنے کا حق یہ سب حقوق نئے نئے خطرات کی زد میں آچکے ہیں اور مسلسل پامال ہورہے ہیں۔ اور کیا صرف گوانتانا موبے ابوغریب اور بگرام ہی رستے ہوئے ناسور ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مجرموں کی حوالگی اور زبردستی تفتیش جیسے غیر مہذب افعال نے اس مہذب دنیا کے کئی ممالک کو آلودہ کر دیا ہے؟ Huxley’s Solzhenitsyn’s GulagelBrave, Orwell’s 1984, New World کے روح
فرسا واقعات آزاد دنیا کی جنت کے خوش کن تصور کو ہوا میں تحلیل کر رہے ہیں۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ہوس ملک گیری اور معصوم و بے گناہ انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے باعث اس کرہ ارض پر صدیوں سے مروج بین الاقوامی قانون اور پھر جنگ اور امن کے ادوار میں مہذب اخلاقیات کا نظام اب خطرناک حد تک اپنی موت کی طرف رواں دواں ہے۔
بین الاقوامی قانون اور جنگ اور امن میں مہذب رویے کے بارے میں جو کچھ اتفاق راے صدیوں میں حاصل ہوا تھا، وہ سب خطرے میں ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی قوانین کے نت نئے اور ناتراشیدہ تصورات کا یک طرفہ اور من مانے طور پر تعین بھی کیا جارہا ہے اور عملاً انھیں لاگو بھی کر دیا گیا ہے۔ طاقت ور ممالک ، دوسرے ممالک اور اقوام کو اپنی دھونس کے ذریعے صرف اس لیے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کمزور ہیں ۔ ایک بار پھر اس کرہ ارض کے افق پر سامراجی اور غاصبانہ تسلط اور بالادستی کے منحوس سائے لہرا رہے ہیں۔ قومی خود مختاری کا تقدس ختم ہونے کو ہے اور بین الاقوامی حدود کی پابندی اب گئے وقتوں کی بات ہے۔ اقوام متحدہ روز بروز بے معنی ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں متعین امریکی نمایندے مسٹر بولٹن نے یہ کہنے کی جسارت کی ہے کہ اقوام متحدہ اجازت دے نہ دئے امریکا ایران پر حملہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دیگر ممالک میں یک طرفہ مداخلتیں اور زبردستی حکومتی تبدیلی، جائز قرار دے دی گئی ہے۔ طاقت ور اقوام کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے اپنے دفاع ( self defence) کے تصور کو نئے معنی پہنائے جارہے ہیں۔ امن اور بین الاقوامی طاقتی توازن کے لیے خطرہ دن
بدن بڑھتا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ پُر تشد د تنازعات کے امکانات روز افزوں ہیں۔ ان تمام حالات کا اثر مختلف ممالک کے اندر بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں عوام اور مختلف گروہ حکومتی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کئی ایک ممالک اپنے ہی عوام کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بلا شک و شبہ اس ‘ جنگ’ کے ضمنی (collateral) نقصانات خوفناک تناسب سے
بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اب انہیں محض ضمنی سمجھنا خوفناک غیر حقیقت پسندی ہوگی ! ! – ایک بنیادی سوال جس کا ہر پہلو سے جائزہ بہت ہی ضروری ہے دہشت گردی کے خلاف مبینہ جنگ
Reviews
There are no reviews yet.