عالمی ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۱۲ء
۴
اشارات
رہے ہیں زمین پر ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا ۔ نہ معلوم صدر صاحب کس دنیا کی باتیں کر رہے ہیں اور کسے یقین دلا رہے ہیں کہ سب اچھا ہے“۔
اصولی طور پر صدر مملکت کے سالانہ دستوری خطاب کا مرکزی نکتہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا منصفانہ جائز ہوتا ہے، جس میں کامیابیوں اور ناکامیوں اور کوتاہیوں کی بے لاگ نشان دہی کی جاتی ہے اور آئندہ سال کے لیے حکومت کے منصوبوں، نئی پالیسیوں اور خصوصیت سے قانون سازی کے لیے ایک مکمل پروگرام دیا جاتا ہے۔ لیکن زرداری صاحب کی یہ پانچویں تقریر کسی اعتبار سے بھی صدر مملکت کی تقریر نہ تھی بس زیادہ سے زیادہ اسے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی تقریر کہا جاسکتا ہے۔ اس سال کی تقریر میں ایک نئی بات یہ تھی کہ صدر صاحب نے وزیر اعظم صاحب کی تعریف و توصیف کی اور ان کی سمجھ داری اور جرات کو خراج تحسین پیش کیا جس کا کوئی تعلق وزیر اعظم صاحب کی کارکردگی سے نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ این آراو کیس کے سلسلے میں زرداری صاحب کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے انھوں نے عدالت عالیہ سے محاذ آرائی کا جو ڈراما رچایا ہے اور شہادت اور کسی متوقع شش ماہی جیل یاترا کے بارے میں جو گوہر افشانیاں وہ فرما رہے ہیں، ان کا صلہ دینے کے لیے زرداری صاحب نے وزیر اعظم صاحب پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے کا کام انجام دیا ہے۔
زرداری صاحب نے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے بارے میں اس تقریر میں کوئی نئی بات نہیں کہی۔ امریکا سے تعلقات جس نازک دور میں ہیں، اس کی بھی کوئی جھلک اس تقریر میں نہیں ماتی ۔ افغانستان میں جس طرح امریکا بازی ہار گیا ہے اور پاکستان کو جس طرح وہ نشانہ بنا رہا ہے
اس کی مذمت کے لیے، پھر ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، اور ۲ مئی اور ۲۶ نومبر کے سلالہ کے واقعات ان سب پر کچھ کہنے کے لیے ان کے پاس ایک جملہ بھی نہیں ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو ٹالنے کے لیے ایک جملہ معترضہ میں اس کا بے جا سا ذ کر کیا ہے۔ ڈرون حملوں پر مذمت کا ایک لفظ بھی ارشاد فرمانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کے برعکس اپنے کارناموں میں ان باتوں کا اعادہ فرماتے ہیں جو ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء میں بھی بیان کر چکے ہیں، یعنی این ایف سی اوارڈ (۲۰۰۹ء) اور اٹھارھویں ترمیم (اپریل ۲۰۱۰ء)۔ بلوچستان کے سنگین مسئلے کے بارے میں اُسی معافی کی درخواست کا اعادہ
صدر کا خطاب اور زمینی ھؤحقائق
₨ 0
عالمی ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۱۲ء
۴
اشارات
رہے ہیں زمین پر ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا ۔ نہ معلوم صدر صاحب کس دنیا کی باتیں کر رہے ہیں اور کسے یقین دلا رہے ہیں کہ سب اچھا ہے“۔
اصولی طور پر صدر مملکت کے سالانہ دستوری خطاب کا مرکزی نکتہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا منصفانہ جائز ہوتا ہے، جس میں کامیابیوں اور ناکامیوں اور کوتاہیوں کی بے لاگ نشان دہی کی جاتی ہے اور آئندہ سال کے لیے حکومت کے منصوبوں، نئی پالیسیوں اور خصوصیت سے قانون سازی کے لیے ایک مکمل پروگرام دیا جاتا ہے۔ لیکن زرداری صاحب کی یہ پانچویں تقریر کسی اعتبار سے بھی صدر مملکت کی تقریر نہ تھی بس زیادہ سے زیادہ اسے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی تقریر کہا جاسکتا ہے۔ اس سال کی تقریر میں ایک نئی بات یہ تھی کہ صدر صاحب نے وزیر اعظم صاحب کی تعریف و توصیف کی اور ان کی سمجھ داری اور جرات کو خراج تحسین پیش کیا جس کا کوئی تعلق وزیر اعظم صاحب کی کارکردگی سے نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ این آراو کیس کے سلسلے میں زرداری صاحب کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے انھوں نے عدالت عالیہ سے محاذ آرائی کا جو ڈراما رچایا ہے اور شہادت اور کسی متوقع شش ماہی جیل یاترا کے بارے میں جو گوہر افشانیاں وہ فرما رہے ہیں، ان کا صلہ دینے کے لیے زرداری صاحب نے وزیر اعظم صاحب پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے کا کام انجام دیا ہے۔
زرداری صاحب نے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے بارے میں اس تقریر میں کوئی نئی بات نہیں کہی۔ امریکا سے تعلقات جس نازک دور میں ہیں، اس کی بھی کوئی جھلک اس تقریر میں نہیں ماتی ۔ افغانستان میں جس طرح امریکا بازی ہار گیا ہے اور پاکستان کو جس طرح وہ نشانہ بنا رہا ہے
اس کی مذمت کے لیے، پھر ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، اور ۲ مئی اور ۲۶ نومبر کے سلالہ کے واقعات ان سب پر کچھ کہنے کے لیے ان کے پاس ایک جملہ بھی نہیں ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو ٹالنے کے لیے ایک جملہ معترضہ میں اس کا بے جا سا ذ کر کیا ہے۔ ڈرون حملوں پر مذمت کا ایک لفظ بھی ارشاد فرمانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کے برعکس اپنے کارناموں میں ان باتوں کا اعادہ فرماتے ہیں جو ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء میں بھی بیان کر چکے ہیں، یعنی این ایف سی اوارڈ (۲۰۰۹ء) اور اٹھارھویں ترمیم (اپریل ۲۰۱۰ء)۔ بلوچستان کے سنگین مسئلے کے بارے میں اُسی معافی کی درخواست کا اعادہ
Reviews
There are no reviews yet.